مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاہ محمود قریشی جواب دیں!!||سارہ شمشاد

برطانیہ نے پاکستان کو 21ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت جیسے مسائل سے دوچار ممالک کو اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برطانیہ نے پاکستان کو 21ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت جیسے مسائل سے دوچار ممالک کو اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ ہائی رسک ممالک کی فہرست میںپاکستان کا نمبر 15واں ہے۔ فہرست میں شام، یوگنڈا، یمن اور زمبابوے بھی شامل ہیں۔ برطانیہ کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ پر چیک اینڈ بیلنس کی کمی کے باعث یہ ممالک خطرہ ہیں۔برطانیہ کی جانب سے پاکستان 21ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کہ پاکستان کو ایک ایسے وقت میں ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کیا جارہا ہے جب ایف اے ٹی ایف نے جون میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے بارے فیصلہ کرنا ہے۔ پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی معاونت جیسے مسائل سے دوچار ممالک کی فہرست میں ایک ایسے وقت میں برطانیہ کی جانب سے شامل کیا گیا ہے جب پاکستان ایک طویل عرصہ تک دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ روئے زمین پر کوئی دوسرا ملک نہیں جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہو ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کا اعتراف کرتی الٹا پاکستان کو دبائو میں لانے کے لئے پابندیاں عائد کرکے اس کی قربانیوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ میں بحیثیت پاکستانی شہری اپنی حکومت وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ برطانیہ کے پاکستان کو 21ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کرنے بارے قوم کو کچھ بتانے کی ضرورت محسوس کریں گے۔ ایک طرف تو وزیراعظم ہر جگہ پر بہترین خارجہ پالیسی کے باعث دنیا سے اچھے تعلقات کا کریڈٹ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے چند دنوں میں یکے بعد دیگرے دو ایسی چیزیں سامنے آئی ہیں جس کے باعث دفتر خارجہ کی کارکردگی پر کئی سوال اٹھ گئے ہیں مگر افسوس کہ دفتر خارجہ نے بھی حسب روایت خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ دفتر خارجہ پاکستانی عوام کو جواب دہ ہے، شاہ محمود قریشی نے برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو کورونا سے متاثرہ ممالک کی ریڈ لسٹ میں ڈالے جانے پر کیونکر کوئی جواب طلب نہیں کیا۔ برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو ریڈلسٹ میں ایک ایسے وقت میں شامل کیا گیا جب بھارت میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی لیکن برطانیہ نے پاکستان پر ہی یہ ’’نظر کرم‘‘ کیوں کی اس بارے پاکستانی عوام جاننے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔ اگر برطانیہ نے پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کرہی دی تھیں تو کم از کم اضافی پروازوں کے ذریعے برطانیہ سے آئے پاکستانیوں کو واپس بھیجنے کے لئے خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ فارن آفس کمی جانب سے اس انداز میں بہترین سفارت کاری نہیں کی گئی جس کی ضرورت تھی۔ بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ پی آئی اے نے کئی گنا اضافی کرائے وصول کئے اور یوں پروازوں کی ٹکٹیں بلیک میں لاکھوں روپے میں فروخت ہونے کی خبریں بھی زبان زدعام ہیں۔
حکومت کی جانب سے کامیاب خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا راگ مسلسل الاپا جارہا ہے لیکن کوئی ان حقائق کی جانب توجہ نہیں دے رہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی کس قدر سبکی ہورہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس حوالے سے برطانیہ سے جواب طلب کرتی مگر خاموشی کو ہی بہترین حل سمجھا جارہا ہے جس پر ہر پاکستانی انتہائی پریشان ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر اس انداز میں نہیں لڑرہی جس کی اس سے توقع کی جارہی تھی۔ چائنہ نے ایران کے ساتھ بڑا معاہدہ سائن کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ ایران وہ ملک نہیں جو ایک فون کال پر ڈھیر ہوجائے جسے بالواسطہ پاکستان کو پیغام دینے سے تشبیہہ دی جارہی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے عالمی سطح پر امیج کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے۔ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کے باعث یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں جو باعث تشویش ہے کہ ایک طرف بھارت ہے جو بنیادی حقوق کی دھجیاں مقبوضہ کشمیر میں عرصہ دراز سے اڑارہا ہے مگر مجال ہے کہ بھارت کو سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ادھر امریکہ بہادر نے عالمی موسمیاتی کانفرنس میں پاکستان کو بلانا اس حقیقت کے باوجود ضروری نہیں سمجھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دفتر خارجہ کی پے درپے ناکامیوں پر وزیراعظم کو شاہ محمود قریشی سے جواب طلب کرنا چاہیے۔ ایک ایسے موقع پر جب مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں کئی اہم واقعات وقوع پذیر ہورہے ہیں اور پاکستان کو بے پناہ اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت ڈنگ ٹپائو کی پالیسیوں سے مزید کام نہ چلائے بلکہ معاملات معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائے کیونکہ نئی امریکی انتظامیہ بھی بھارت نواز ہی نظر آرہی ہے۔ ایک مذہبی جماعت نے ملک کو یرغمال بنائے رکھا اور جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جو شرمناک سلوک روا رکھا اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ختم نبوت پر جان بھی قربان ہے لیکن جو کچھ چشم فلک نے دیکھا اس سے عالمی میڈیا نے پاکستان کو جس طرح پیش کیا اس سے آقائے دوجہاںؐ کی امت کے سر شرم سے جھک گئے کہ ہم تو اس دین کے پیروکار ہیں جو سلامتی اور امن کا درس دیتا ہے۔ اشتعال انگیزی، قتل و غارت اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچاکر برطانیہ کی بات کو سچ ثابت کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی جیسی برائیوں کو معاشرے سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے علمائے کرام اور اساتذہ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ جو طرزعمل چند روز سے اپنایا گیا اس سے ہم نے کسی دوسرے کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کیا ہے جس کا خمیازہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کی صروت میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت اس حساس مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرے اور ساتھ ہی ساتھ مظاہرین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کئی معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانیں چلی گئیں اب ان کے گھر اور بچوں کا کیا بنے گا، کوئی اس پہلو کی طرف بھی سوچنے کی ضرورت محسوس کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: