یہ اپریل 1979 ء کی تیسری تاریخ ہے۔ مجھے صبح سویرے اُٹھ کر سندھ ہائیکورٹ پہنچنا ہے جہاں شفیع محمدی نے دوسری بار قسمت آزمائی کرنی ہے۔ قبل ازیں جب سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب کی اپیل کو ایک متنازع اور منقسم فیصلے کے ذریعے مسترد کرتے ہوئے تین کے مقابلے میں چار ججوں کی اکثریت سے لاہور ہائی کورٹ کے کے انتہائی متعصبانہ فیصلے کو برقراررکھا تھاتو شفیع محمدی ایڈووکیٹ نے اس فیصلے کے خلاف 21 مارچ 1979ء کو سندھ کی شریعت بنچ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس اپیل کی تیاری میں ، میں شفیع محمدی صاحب کے ساتھ ساتھ تھا۔ میں نے ادھر اُدھر کی لائبریریوں اور اردو بازار سے تاریخ طبری، تاریخ مسعودی، طبقات ابن سعد، تاریخ ابنِ خلدون، تاریخِ یعقوبی، تاریخ علامہ جلال الدین السیوطی اور دیگر تاریخی کتب کے حصول میں ان کے ساتھ ساتھ رہاتھا۔ سندھ کی شریعت بنچ کے سربراہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عبدالقادر شیخ تھے جبکہ بنچ کے دیگر دو جج جسٹس ڈاکٹر آئی محمود اور ذوالفقار مرزا کے والد جسٹس ظفر حسین مرزا تھے۔ شفیع محمدی نے اپیل کی تیاری میں حضرت علی کی شہادت کے واقعہ کو بطورنظیر پیش کیا تھا۔
تاریخ کی تمام کتابوں میں حضرت علی کے اس فیصلے کو برہانِ قاطع کی حیثیت حاصل تھی۔
ہم دونوں شام سات بجے اُٹھ کر سن سیٹ بلیوارڈ پر واقع پیرزادہ کے گھر پر پہنچ گئے۔ وہ مختلف لوگوں سے ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ دو گھنٹے انتظار کرانے کے بعد لگ بھگ سوا نو بجے پیرزادہ نے ہمیں شرفِ باریابی بخشا۔ ہم ملے تو بہت مطمئن نظر آئے اور کہنے لگے کہ شفیع صاحب اب تو ہمارے پاس بڑا وقت ہے۔ آپ فکر نہ کریں ، ہم یہ کیس جیت لیں گے۔ ہم پیرزادہ کے گھر سے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
پھر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا، سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب کی نظرثانی کی اپیل مسترد کردی۔ اب شفیع صاحب اور میں دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے، دوبارہ پٹیشن تیار کی گئی اور 2 اپریل کو صوبائی شریعت کورٹ سے اس پٹیشن کی فوری سماعت کی استدعا کی گئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس پٹیشن کی فوری سماعت کی کیا ضرورت ہے۔
یہ اپریل 1978ء کی تیسری تاریخ ہے، میں صبح صبح پیراڈائز سینیما سے ہائی کورٹ کی بلڈنگ کی طرف جارہا ہوں، مجھے سامنے پاسپورٹ آفس کے قریب شفیع محمدی آتے ہوئے نظرآرہے ہیں، اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میرا دل بجھ گیا۔ میں تقریباً دوڑتے ہوئے ان کے قریب پہنچا اور پوچھا، کیا ہوا؟ شفیع محمدی نے روتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں سنتے، میں نے پوچھا کہ کہتے کیاہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ جسٹس ڈاکٹر آئی محمود بیمار ہوگئے ہیں۔ لہذا شریعت بنچ ڈسچارج ہوگئی ہے۔
نرسری میں میری بہنوں سے بھی زیادہ عزیز بہنوں شاہدہ اور زبیدہ نے شامی کو میرے ساتھ بھیج دیا تھا۔ آج کی رات بہت بھاری تھی، اس رات میرے ساتھ کوئی توہو جو مجھے سہارا دے سکے۔ 41 سال گزر گئے، یہ رات آج بھی بھاری ہے۔
اے وی پڑھو:
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
جاری ہے۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر