اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تازہ شہتوت اور افسردگی||رسول بخش رئیس

نظامِ قدرت ہے‘ ہم سب اس کے کرشموں کے اسیر‘ ''کھلتے ہیں گل یہاں کھل کے بکھرنے کو‘‘ ہر ایک اپنے اپنے سفر کی منزلوں کی طرف حرکت میں ہیں‘ نہ جانے کہاں رکیں؟

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل ٹھکانہ ویرانے میں ہے۔ بہار ہو‘ وہ بھی پوٹھوہار کی‘ اور بندہ کمرے میں بند رہے تو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے‘ صاحبِ ذوق اور فطرت شناس نہیں۔ ہم تو جونہی دو دن شہر میں خدا خدا کر کے بسر کرتے ہیں کہ ویرانے کی تنہائیوں میں کھو جانے کے لئے تڑپ اٹھتے ہیں۔ ویرانہ اس لئے کہ انسانوں کا ہجوم نہیں‘ بھگدڑ نہیں‘ افراتفری نہیں اور کاروں سے نکلتے دھویں اور شور شرابے سے دور ہیں‘ ورنہ تو یہاں بہار ہے‘ رنگ رنگ کے پھول ہیں‘ سبزے سے نہال درخت ہیں۔ جنگلوں کے سب درخت اس موسم میں سبز ہی ہوتے ہیں‘ مگر ہر ایک کا منفرد رنگ۔ سینکڑوں مختلف درختوں کا مشاہدہ کر لیں‘ کسی ایک کا رنگ دوسرے درخت سے نہیں ملتا ہو گا۔ ہماری سب زبانوں کی کمزوری یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے الفاظ کی بہتات نہیں کہ ہر رنگ کو کوئی مخصوص نام دے سکیں۔ سردیوں میں اکثر درخت پتوں کا بوجھ اتار کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح سوتے میں بھی کبھی اپنے کام سے رکتے نہیں۔ سوئے ہوئے بھی وہ مصروف رہتے ہیں۔ جاڑوں میں زمین کی تاریک گہرائیوں میں جڑوں کا جال بنتے رہتے ہیں۔ بہار کی تیاری میں اپنے رگ و ریشوں میں طاقت جمع کرتے ہیں‘ اور جونہی پھاگن‘ چیت کی نوید دیتے ہوئے باریک ٹہنیوں میں خوابیدہ کلیوں‘ پتوں اور پھولوں کو جاگ اٹھنے کی صدا لگاتا ہے‘ سب خوشی کے مارے پھولنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک نئی زندگی کا آغاز‘ نیا سفر ایک نئی منزل کی جانب اور ویرانوں میں بہار کی خیمہ زنی۔ نہ بہاریں اور نہ کھلتے پھول ہمیشہ کے لئے ہوتے ہیں‘ لیکن ہر ایک اپنا رنگ جماتا ہے‘ اور پھر اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ پھول‘ پتے مٹی میں مل کر زرخیزی بڑھاتے ہیں‘ اپنے جیسے نئے آنے والوں کے لئے جان قربان کر دیتے ہیں اور اس طرح نئی زندگی کے تسلسل کو جاری رکھنے کا لا متناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کئی روز سے صبح‘ شام اور دن کا کوئی حصہ ایسا نہیں‘ جب گلابوں کے چمکتے رنگوں سے نظر اٹھ جائے۔ کوئی ویرانے میں آ دھمکے تو پوچھتا ہے: یہ زعفرانی رنگ کے پھولوں سے لدے درخت کو کیا کہتے ہیں۔ میرا جواب ہوتا ہے: ڈھاک۔ دور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ ویرانے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اسی لئے اسے انگریزی زبان میں جنگل کا شعلہ (Flame of the Forest) کہتے ہیں۔ یہ خالصتاً ہمارا دیسی درخت ہے۔ مارگلہ کے دامن میں پھول بھری سٹکتی مٹکتی چھڑیوں کو دیکھا تو یہ درخت دل میں بیٹھ گیا۔ لاہور میں تو اس کی بہاریں مسحور کن ہیں۔ جامعہ پنجاب میں طالب علمی کے زمانے میں ایسے درخت کے قریب سے گزرتے تو پوچھتے: یہ کیا ہے؟ اس پر خوابوں کی دنیا کے باسی اسے ‘محبت کا پیڑ‘ کہتے تھے۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی نظریں اسی کی طرف بار بار بے ساختہ اٹھ رہی ہیں۔ شامیں تو یہاں کمال کی ہیں‘ کہ شفق کے پھوٹتے اور رنگ کے تبدیل ہونے میں بہار کے سب رنگ روح میں بکھیر دیتے ہیں۔ سحر کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں ان خوش قسمت لوگوں میں ہوں جو پَو پھٹنے سے لے کر طلوع آفتاب تک آسمان بدلتا دیکھنے کی سعادت رکھتے ہیں۔ رات گئے‘ دیر تک خوشبوئوں سے جی بھرتا نہیں۔
سب دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ویرانے میں کچھ وقت گزارو‘ مگر سب بے ہنگم زندگی کی مصروفیات میں کھوئے رہتے ہیں؛ تاہم ایک ایسا ہے کہ میرے اکسانے پر ادھر کا رخ کر بیٹھا۔ اب ویرانوں کی قید کی رہائی سے گھبراتا ہے کہ کہیں اور دل نہیں لگتا۔ مصروف آدمی ہے‘ مگر سب مضبوط رسیاں تڑوا کر بھاگ نکلتا ہے۔ ظفر اقبال گوندل کا دعویٰ ہے کہ وہ بیالیس سال پہلے قائد اعظم یونیورسٹی میں میرا شاگرد ہوتا تھا۔ میرا خیال بھی یہی ہے‘ وہ اور دیگر دوست اس خاکسار کو ”استاد‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس ویرانے میں سب لوگ مجھے استاد‘ کے نام سے پہچانتے ہیں۔ یقین جانیں‘ اس نام میں جو محبت اور اپنا پن ہے‘ وہ پروفیسر کی بیگانیت میں کہاں؟ کافی عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے کردار الٹ ہو چکے ہیں‘ وہ استاد اور میں شاگرد بن چکا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ شاگرد ہونے میں بھی ایک لذت کا احساس ہوتا ہے‘ سیکھنے‘ سمجھنے‘ پڑھنے‘ لکھنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ۔ رات گئے چہل قدمی ختم کی اور آمنے سامنے جھونپڑیوں کی طرف روانہ ہوئے تو اگلی صبح واک کا پروگرام بھی طے کر لیا۔ میں تو حسبِ عادت صبح اٹھ کر ویرانے کے اندر اپنا روزانہ کا طے شدہ سفر کا دورانیہ مکمل کر چکا تھا‘ اور چائے بنانے کی تیاری میں تھا جب وہ حسب دستور اپنے وقت پر آ رہے تھے۔ رنگوں اور خوشبوئوں میں تھوڑی ہی دیر چلے تھے کہ وہ مجھے اس موسم کے بہترین پھل کی طرف کھینچ کر لے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئے ہی اس مقصد کے لئے تھے۔ انہوں نے کئی شہتوت کے پیڑ لگا رکھے ہیں۔ میرے پاس بھی کمی نہیں‘ مگر نہ جانے ان کے درختوں میں کیا مٹھاس ہے کہ ان کا ذائقہ بار بار ادھر کا رخ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے چنے اور کھاتا ہی گیا‘ باقی کسر گوندل صاحب نے پوری کر دی کہ استاد کی شاگردی میں ڈھیروں توڑ توڑ کر دیتے گئے۔ الفاظ نہیں کہ لطف و لذت کا اظہار کر سکوں‘ محسوس ہوتا تھا کہ خوشبودار شہد کی دھار منہ میں جا رہی ہے۔ من تھا کہ بھرتا ہی نہیں تھا۔ جی بھر کے کھائے‘ تازہ۔ ہاتھ‘ منہ اور پیڑوں کی شاخوں میں کوئی فاصلہ نہ تھا۔
ناشتہ میں ہی تیار کرتا ہوں‘ اور اکثر ان کی دیسی مرغیوں کے انڈے اور خاکسار کی اگائی پالک اور دھنیے کا مرکب۔ دہائیوں کی مشق کے بعد دال اور آملیٹ بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ یہ فقط پندرہ منٹ میں تیار کر لئے جاتے ہیں۔ ظفر اقبال گوندل ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں‘ مگر ہماری دوستی دیرینہ ہونے کے علاوہ تین مشترک مشغلوں سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ ہیں: کتابیں‘ شجر کاری اور ویرانوں میں بسرام۔ ہمارا تو پیشہ ہی کتابوں سے وابستہ ہے‘ مگر وہ زمیندارانہ پس منظر اور سرکاری نوکری کے دھکوں میں بھی کتابیں جمع کرنے اور پڑھنے کا شوق پالتے رہے ہیں۔ تقریباً چودہ سال پہلے ویرانے آباد کرنے میں زبردستی ادھر لے آیا‘ تو تب سے درخت لگانے میں مصروف ہیں۔ بس اتنا قریب قریب کہ جاپانی بھی شرما اٹھیں۔ چنار اور چیڑ ان کے پسندیدہ ہیں‘ اور میرے بھی۔ شہتوت سے پیٹ بھر کر چائے کی تیاری کرنے لگے‘ تو کہا کہ وہ بہت افسردہ ہیں‘ کیا ہمارے قریب کے لوگوں کو کچھ اس بات کا اندازہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ ان خوبصورت درختوں‘ جھاڑیوں‘ پھولوں اور گوناگوں پھل دار درخت لگانے اور ان کی آبیاری اور حفاظت میں گزار دیا ہے۔ وہ کل ہی اپنے دو مرحوم دوستوں کے ایسے ہی ٹھکانوں کی زیارت کر کے آئے تھے۔ ایک اجڑا ہوا‘ اور دوسرے میں صرف ایک مکین۔ نہ جانے وقت کا دھارا اسے کہاں لے جائے۔ کچھ اپنا خیال آیا۔
افسردگی میں دوسرا غوطہ لگایا تو میں نے ان کی توجہ جھونپڑے پر چڑھتی بیل کی طرف دلائی‘ جو دو سال قبل ہم نے لگائی تھی۔ سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھولوں کے گل دستوں میں لپٹی ہوئی۔ کیا بہار لگائی ہے‘ کیا تازگی ہے جو ان ملائم پتیوں میں کچھ دن رہے گی۔ رنگ دکھا کر پنکھڑیاں بکھر جائیں گی‘ خاک میں جہاں سے خمیر اٹھا تھا‘ وہیں جا ملیں گی۔ اقبال یاد آ گئے
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گُل
یہی ہے فصلِ بہاری‘ یہی ہے بادِ مراد
نظامِ قدرت ہے‘ ہم سب اس کے کرشموں کے اسیر‘ ”کھلتے ہیں گل یہاں کھل کے بکھرنے کو‘‘ ہر ایک اپنے اپنے سفر کی منزلوں کی طرف حرکت میں ہیں‘ نہ جانے کہاں رکیں؟

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: