اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

واہ واہ مجید صاحب، آہ مجید صاحب۔۔لاکھوں داستانیں بھی دفن!||شوکت پراچہ

تیس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا۔ مجید صاحب قریب ہوتے تو ہمیشہ مسکرا کر ملتےذرا فاصلے پر ہوتے تو دعا کے لیے ہاتھ ا'ٹھا کر ملتے۔ ہاتھ ا'ٹھا کر آج ہم ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں

شوکت پراچہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آٹھویں صدی عیسوی میں عرب قصہ گوؤں کے ذریعہ تخلیق کی گئی الف لیلیٰ‎‎ ہزار داستان کہانیوں کی ایک مشہور کتاب ہے.اس کتاب میں مستقل اضافے ہوئے اور ھزار داستان کے بطن سے جب ہزاروں قصے جنم لینے لگے تو اس کا پورا نام اَلف لیلۃ و لیلۃ (ایک ہزار ایک رات) تجویز کردیا گیا ۔۔پوری داستان ایک ہزار ایک راتوں کے قصوں پر محیط ہے جس کے کچھ مشہور قصوں میں آلہ دین، علی بابا، مچھیرا اور جن، سندباد جہازی، تین سیب، سمندری بوڑھا، شہر زاد، حاتم طائی وغیرہ شامل ہیں۔لٹریچر کے اس عظیم شاہکار کے مصنف کا البتہ علم نہیں ہے۔ہزار داستان کے خالق کے دل میں صرف ایک ہزار ایک داستانیں آئیں اور معرکہ ٓآرا تخلیق وجود میں آ گئی ۔قائداعظم یونیورسٹی کے باہر ہٹس کے مالک مجید مرحوم کے سامنے بھی لاکھوں حقیقی داستانیں وجود میں آئیں۔ یہ داستانیں بھی کامیابی کی نوید سے بھرپور، خوشیوں سے مالامال، آنسووں سے لبریز، ٹھنڈی آہوں سے عبارت اور غلطیوں کی چبھن سے مروج اور زندگی بھر کے لیے تجسس میں مبتلا رکھنے والی الف لیلاو’ں سے کم نہیں ہیں لیکن مرحوم مجید صاحب کی موت اور تدفین کے ساتھ ساتھ یہ ان گنت داستانیں بھی گذشتہ ہفتے دفن ہو گئیں۔
تیس سال سے بھی زائد وقت گذر چکا ہو لیکن کل کی بات لگتی ہو۔نئی نرالی ڈشیوں کا ذائقہ ابھی بھی ٹیسٹ بڈز پر ویسے ہی محسوس ہوتا ہو ۔کسی میھٹے میٹھے درد کی چبھن اکثر تڑپ بن کر زندگی کی دوڑ میں اپنے اپنے فیلڈ میں انتہائی مصروف قائدین کے شیڈول کو الٹا پلٹا کر رکھ دیتی ہو تو مجید صاحب کی موت کی اچانک خبر کیسے آسانی سے برداشت ہو گی۔اللہ پاک کی اپنی منشا ہوتی ہے بہرحال!
محترم حفیظ اللہ نیازی نے اپنے مختصر نوٹ میں بتا دیا کہ کس طرح مجید نام کے ایک نوجوان نے عارضی نوکری ختم کے بعد ایک جھونپڑی نما کھوکھے کی بینیاد رکھی۔برادرم شفقت اللہ مشتاق نے کھوکھے پر کھانا کھانے کے حوالے سے بھی تفصیلاً وضاحت کر دی۔ایک جھونپڑی سے شروع ہونے والا کھوکھا اب تک لاکھوں دلوں کی دھڑکنیں سن چکا اور ہزاروں چہروں کی مسکراہٹیں بھی دیکھ چکا۔مجید مرحوم بھی اتنی ہی آنکھوں میں خوشیاں یا حسرتیں دیکھ کر منوں مٹی کے نیچے جا چکے۔ایبٹ آباد ڈسٹرک کے بلند و بلا پہاڑوں کے دامن کے دیہاتی پس منظر اور ا’سی طرح کی سوچ والے مجید مرحوم کسی چہرے کے ایک مقام کے تِل کو دوسرے چہرے کے کسی دوسرے مقام کے تِل سے ملانے پر تِلملا تو شائد جاتے ہوں گے لیکن دلوں کے ملاپ پر انھیں خوشی ہوتی تھی۔(ویسے آج کل یونیورسٹی جائیں تو چھپ چھپ کر رات بھر موبائل فون چلانے والی نئی فصل دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ا’دھر والے ویسے تِل نہیں ہیں اور اِدھر والوں تِلوں میں وہ تیل نہیں ہے)۔مجید صاحب دل کے صاف تھے اوروں کے دل ٹوٹنے پر وہ بھی ا’داس ضرور ہوتے تھے
یونیورسٹی میں غصیلے، نخریلے، شرمیلے غرض ہر طرح کے سٹوڈنٹس آتے رہے۔مینیجمنٹ کی ڈگری نہ ہونے کے باوجود مجید صاحب کو مخلتف خاندانی پس منظر، سماجی اونچ نیچ، علاقائی تفریق یا مختلف وفاقی اِکائیوں کے سٹوڈنٹس کو رام کرنا آتا تھا۔کسی نے غصے میں پلیٹ نیچے پھینک کر توڑ دی یا روٹیاں دے ماریں تو غصہ کرنے کی بجائے اکبر مرحوم سے کہہ دیا کہ دوسری پلیٹیں دے دو۔کسی نے تندور بند ہو جانے پر نخرا کیا کہ ٹھنڈی روٹی نہیں کھانی تو ایک ماں کی طرح "توا” گرم کر کے تین روٹیاں بنا دیں۔کھانے والے نے صرف دوکھائیں تیسری روٹی کسی اور کے نصیب میں آئی۔مجید مرحوم نے ڈے سکالر یا ہوسٹل نمبر پانچ سے آنے والے لڑکیوں کے گروپس سے کبھی نہیں پوچھا کہ سالن کی پلیٹ منگوائی نہیں تو سپلی کیسے دے دوں۔شنید ہے کہ انکا رائج الوقت فیصلہ ہوتا تھا کہ لڑکیوں کے بل ہمیشہ کم آتے تھے۔البتہ غوث محمد مرحوم (ہسٹری) کہا کرتے تھے کہ چکن پیس یا چکن فرائیڈ کو ایک سیاسی ڈش کے طور پر استعمال کرتے تھے جس کی بروقت فراہمی کا انحصار خالصتا” مجید صاحب کے کسی کے ساتھ ذاتی لگا’و پر تھا
رانا شبیر کی بس پر سنجیو کمار، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن پر فلمائے گئے مکیش، آشا بھوسلے، محمد رفیع، لتا منگیشکر، کشور کمار یا سجاد علی کے گانوں کے ردھم میں کسی "خاص” کو گلی یا حتی کہ گھر تک چھوڑ کر ا’سی بس پر آپ واپس آئیں ۔مجید صاحب نے پھر بھی "ایمرجنسی” اور "کرائسس” کا اتنظام کر رکھا ہوتا تھا۔کھانے کے بعد مشتاق کے پھل یا جوس بھی ایک لازم حصہ تھا۔مطلوب سیال کے ساتھ ساتھ گپ شپ کے دوران چاچا سفری کی چائے میں فراغت کی صورت میں مجید مرحوم بھی شامل ہوجاتے تھے۔کبھی کبھی ڈنر کے بعد پیرا فری پر لمبی واک لیےآ جاتے تھے۔
تیس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا۔ مجید صاحب قریب ہوتے تو ہمیشہ مسکرا کر ملتےذرا فاصلے پر ہوتے تو دعا کے لیے ہاتھ ا’ٹھا کر ملتے۔ ہاتھ ا’ٹھا کر آج ہم ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں
..

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

%d bloggers like this: