اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیتوں کا بھید کون جانے بھیا جی!||حیدر جاوید سید

مثال کے طور پر میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں مگر یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کی محبت میں ان کے مخالفین کو جمہوریت اور ملک کے دشمن کے طور پر پیش کروں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طویل عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ کو ’’حدیثِ دل‘‘ بناکر پیش کرنے اور پیپلزپارٹی کو کوستے چلے جانے والے اب بظاہر سول سپرمیسی کی محبت میں گرفتار ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ یہ چڑیا بابا، ایک دن والا اور سابق مجاہدجہاد افغانستان سمیت سارے اب بھی سول سپرمیسی کی آڑے لے کر پیپلزپارٹی پر چاند ماری سے حق نمک ادا کرنے میں مصروف ہیں۔
ایک دن والے ’’دانشور‘‘ کو اٹھتے بیٹھتے ’’الہام‘‘ ہوتا ہے کہ زرداری اور اسٹیبلشمنٹ اندر کھاتے ملے ہوئے ہیں۔ یہ اور اس جیسے تاثر یہ دیتے ہیں کہ وہ ملک میں سول سپرمیسی کی حامی ووفادار ہیں مگر حقیقت میں اپنے پرانے اور اصل آقا کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔
آپ 2008ء سے 2018ء کے درمیان کے ان کے کالم، تجزیئہ اور ٹی وی چینلوں پر دانش کی چاند ماری کو یاد کیجئے۔ ان کے خیال میں اگر پیپلزپارٹی نہ ہوتی تو مسلم لیگ ن (کہتے یہی ہیں مقصد کچھ اور ہے) نے انقلاب برپاکردینا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو بینظیر بھٹو کا دوپٹہ نوچتے یہی گدھ اصلی صحافی اور محبان جمہوریت لگتے ہیں۔
لگتے رہیں فقیر کی بلا سے مگر تاریخ بالکل مختلف چیز ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو صاحب سے لے کر آج کی پیپلزپارٹی کے ساتھ جو کیا وہ درون سینہ راز ہرگز نہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ میں غیرجانبداری نامی کسی پرندے یا جانور سے آگاہ نہیں۔
غیرجانبداری ہوتی ہی نہیں ہر شخص جانبدار ہوتا ہے سو میں بھی ہوں۔ جانبداری کا اعتراف نہ کرنا کم ظرفی ہے۔ ہمارے یہ دوست جس طرح پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کا نام آنے پر الفاظ ’’چبانے‘‘ لگتے ہیں اس میں سمجھنے والوں کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔
یہاں سمجھنے والے کتنے ہیں۔ ہر شخص اپنا مرغا بغل میں دابے پھرتا ہے اور بضد اس بات پر ہے کہ یہ مرغا نہیں ’’باز‘‘ ہے۔
دو دن ادھر ہمارے دوست رانا شرافت علی نے سول سپرمیسی کے لشکر میں موجود اسٹیبلشمنٹ کے ایک پرانے خادم بارے چند سطور لکھیں تو عرض کیا
’’دکھی نہ ہوا کریں، جب بھی پیپلزپارٹی کی حکومت آئے گی یہی لوگ محبوب و منظور ہوں گے ان کی دانش الہامی تصور ہوگی‘‘۔
چلئے جانے دیجئے پیپلزپارٹی جانے اور یہ فی الوقت تو یہ ہے کہ خود سول سپرمیسی کے مالکان کا فرض ہے کہ اپنے دسترخوان سے رزق پاتے ان ’’دانے بنیے‘‘ دانشوروں کو سمجھائے کہ سیاسی اتحاد کی راہ میں کانٹے بونے اور آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کی کہانیوں کو تجزیہ بناکر پیش کرنے سے اجتناب برتیں۔
مکرر عرض ہے کسی صحافی کے لئے کسی جماعت سے محبت جرم نہیں جرم یہ ہے کہ آپ تاریخ کو مسخ کریں۔ مثلاً یہ ثاتر دینے لگیں کہ پیپلزپارٹی جنرل ضیاء الحق کی غیرجماعتی اسمبلیوں میں بنی تھی۔
ساعت بھر کے لئے رک کر ایک اور بات سمجھ لیجئے۔ یہ پیپلزپارٹی فرشتوں کی جماعت ہرگز نہیں۔ ہمارے آپ کے چار اور کے لوگ ہی اس میں ہیں سول سپرمیسی کے حامی دانشوروں کا پسندیدہ کھابہ یہ ہےے کہ پی پی پی تو جی سندھ کی جماعت ہے۔ اچھا جی مان لیا پھر جب دوسرے کہتے ہیں کہ نون لیگ جی ٹی روڈ کی جماعت ہے تو برا کیوں لگتا ہے؟
شکر ہے ہم جیسے طالب علموں نے نون لیگ کو اس وقت بھی علاقائی جماعت نہیں کہا تھا جب جنرل مشرف کے دور میں اسٹیبلشمنٹ نے اسے قومی اسمبلی میں 17یا 18نشستیں دی تھیں۔ ہم تب بھی کہتے تھے نون لیگ کا مینڈیٹ چراکر ق لیگ کو جہیز میں دیا گیا ہے۔
ان دانشوروں سے سادہ سا سوال ہے۔ نون لیگ پنجاب سے سینیٹر بلامقابلہ منتخب کروانے کے فارمولے پر کیوں آمادہ ہوئی؟
جب نون لیگ نے مریم نوازشریف کے سمدھی کی معرفت ملنے والا فارمولہ قبول کرلیا تو پنجاب اسمبلی میں 8ووٹ رکھنے والی پیپلزپارٹی کس برتے پر ہم نہیں مانتے بلامقابلہ کے ضابطے کا نعرہ مارتی رہتی؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بولنے لکھنے سے پہلے تول سمجھ لیا جانا بہت ضروری ہے۔
دوسرے بھی گندم کی روٹی کھاتے اور اس معاشرے میں رہتے ہیں افواہیں سڑکوں پر بھاگتی ہیں اور خبریں ذرائع سے ملتی ہیں۔
چڑیا والے بابے، سابق مجاہد اور ایک دن والے سمیت اکثر کا زعم یہ ہے کہ صحافی صرف وہ ہی ہیں باقی تو اخباروں کے دفاتر کے باہر لہوری نان چھولے فروخت کرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے بھیا۔ اچھا نہیں لگتا کہ ماضی کے رونے روتے ہوئے جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے درمیان اختلافات پیدا کئے جائیں۔
بجا ہے نون لیگ کل تک پیپلزپارٹی کے خون کی پیاسی تھی۔ اس نے ماضی سے سبق سیکھا اور یہ سبق پیپلزپارٹی نے بھی۔ مجھے اور آپ کو دونوں یا ایک کو طعنہ دینے کا کیا حق ہے۔
مثال کے طور پر میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں مگر یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کی محبت میں ان کے مخالفین کو جمہوریت اور ملک کے دشمن کے طور پر پیش کروں۔
حب الوطنی کاشت نہیں ہوتی نہ یہ آستانہ عالیہ آبپارہ کی ’’نفلی عبادات‘‘ کا حصہ ہے۔ جو اس سرزمین پر پیدا ہوا وہ اس کا مالک ہے اور محب وطن بھی۔
دل بڑا کیجئے چار اور بدلتے حالات کا ادراک کیجئے۔ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔ اتحاد بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔
لوگوں کی سیاسی وفاداریاں اور ضرورتیں بھی بدلتی ہیں۔ میثاق جمہوریت ہوا تھا پھر نوازشریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ بھی گئے یہ ماضی ہے۔
آج یہ ہے کہ وہ اپنے اس عمل کو نادرست قرار دیتے ہیں۔ یقین کیوں نہ کریں، ہم اور آپ کب سے نیتوں کے بھید پانے والے ہوگئے بھیا جی؟

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

%d bloggers like this: