اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جہانگیر ترین کے نام ||سارہ شمشاد

تاحیات نااہلی انتہائی سنگین سزا ہے حالانکہ عدالت نے گیلانی کو تو صرف 5سال کے لئے نااہل کیا تھا۔ جہانگیر ترین کی خطا بڑی تھی یا نہیں لیکن ان کوانتہائی کڑی سزا دے کر ایک اچھے اور مخلص سیاستدان کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کاکہنا ہے کہ مکمل طورپر غیرسیاسی ہوچکا، مستقبل کا فیصلہ وقت کرے گا، انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم قیادت سے رابطہ نہ سینیٹ انتخابات میں کوئی کردار ہے۔ پی ٹی آئی ناقص حکمت عملی سے ہاری جس پر دکھ ہے۔
ملک صدارتی نظام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لودھراں میں گرلز سکول کے دورہ کے موقع پر جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ میرے موثر کردار سے نالاں ملتان کے سیاستدان میری غیرموجودگی میں پنجاب میں پارٹی کو فعال نہ کرسکے۔ جہانگیر ترین کا تحریک انصاف کی حالت زار پر دکھ اور اضطراب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انہیں اپنی محنت کے ضائع ہونے پر بہت دکھ ہے۔ جو ایک سچے اور مخلص کارکن کی بہترین مثال ہے کہ جہانگیر ترین کے سیاست میں فعال نہ ہونے کا سب سے زیادہ نقصان اگر کسی کو ہوا ہے تو وہ تحریک انصاف ہے جس کے کارکنوں کو اس طرح سے منظم نہیں کیا گیا جو وقت کا تقاضا تھا یہی وجہ ہے کہ پارٹی گراس روٹ لیول پر انتہائی کمزور دکھائی دیتی ہے اور لامحالہ اس ناقص کارکردگی کا براہ راست اثر بلدیاتی الیکشن پر پڑے گا۔
حالیہ سینٹ الیکشن میں گیلانی کی جیت اس کا ایک ٹریلر تھا اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت کو مزید فعال اور منظم کرتی تاکہ آئندہ الیکشن میں بہترین قیادت کو سامنے لایا جاسکتا مگر اس کو کیا کہا جائے کہ مقامی قیادت مسلسل نظرانداز ہونے کی بنا پر اپنی جماعت سے نالاں نظر آتی ہے۔ اگر تحریک انصاف عمران خان کا نام ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ خان اور تحریک انصاف کو اقتدار دلوانے میں سب سے زیادہ قربانیاں جہانگیر خان ترین نے دی ہیں۔ اب یہ جہانگیر ترین کی بدقسمتی کہیںیاسسٹم کا وار کہ انہیںعملی سیاست سے نااہل کردیا گیا۔
تاحیات نااہلی انتہائی سنگین سزا ہے حالانکہ عدالت نے گیلانی کو تو صرف 5سال کے لئے نااہل کیا تھا۔ جہانگیر ترین کی خطا بڑی تھی یا نہیں لیکن ان کوانتہائی کڑی سزا دے کر ایک اچھے اور مخلص سیاستدان کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا حالانکہ دیگر بہت سے سیاستدان ایسے ہیں جن کے نیب میں بدعنوانی کے کیسز ہیں لیکن ان میں سے کسی کو ایسی سزا نہیں ملی جو جہانگیر ترین کے حصے میں آئی۔ آفرین ہے جہانگیر ترین پر جنہوں نے عدالتی فیصلے کے خلاف کبھی ایک بات نہیں کی جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت ’’کیوں نکالا‘‘ کا شور آج بھی مچارہی ہے۔
جہانگیر ترین تو یکے بعد دیگرے کئی دھچکے ایک ساتھ لگے کہ پہلے انہیں انتخابی سیاست سے علیحدہ کروایا گیا اور بعد میں چینی، آٹا سکینڈل میں بھی ان کو موردالزام ٹھہرایا گیا حالانکہ وزیراعظم عمران خان بھی برملا کئی مرتبہ جہانگیر ترین کا ذکر کرکے دکھی ہوجاتے ہیں یہی نہیں بلکہ فواد چوہدری سمیت دیگر کئی پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کے عملی سیاست میں فعال نہ ہونے کو بڑا خلا قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی دھڑے بندیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اب جب جہانگیر ترین نے برملا کہا ہے کہ ان کی غیرموجودگی میں پنجاب میں پارٹی فعال نہ ہوسکی تو ان کا اشارہ شاہ محمود قریشی کی طرف تھا جو پارٹی کے وائس چیئرمین تو ہیں لیکن اگر پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت منظم کرنے کے لئے ان کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ اور ان کا گروپ ہمیشہ اپنے مفادات کا ہی تحفظ کرتا ہے۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ شاہ جی آج تک دولت گیٹ والی سڑک اور سیوریج کو بھی ٹھیک نہیں کرواسکےکیونکہ ان کے سندھ اور پنجاب دونوں میں بڑی تعداد میں عقیدت مند موجود ہیں اس لئے ان کے لئے ووٹ حاصل کرنا بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ یوں بھی شاہ جی کی تمام سیاست اپنی ذات اور مفادات کے گرد ہی توگھومتی ہے دراصل یہی وہ بڑی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے آج تک اپنے شہر ملتان کے لئے بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔
جہانگیر ترین پی ٹی آئی کی سینٹ میں ناقص حکمت عملی پر جہاں رنجیدہ ہیں وہیں پی ڈی ایم قیادت سے کوئی رابطہ نہیں کی بات کررہے ہیں جو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ انہوں نے خود کو مکمل طور پر غیرسیاسی کرلیا ہےجو پی ٹی آئی کے لئے کسی بڑے نقصان سے کم نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں بالخصوص عمران خان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اقتدار ہمیشہ ان کے پاس نہیں رہنا اس لئے انہیں اپنی پارٹی کو گراس روٹ لیول پر منظم کرنے کے لئے ہمہ وقت کوششیں کرنی چاہئیں یہی نہیں بلکہ ایک شیڈو کیبنٹ بھی بنائی جانی چاہیے تاکہ مستقبل کے وزیروں کی تربیت کی جاسکے یہی نہیں وہ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھ کر اسے بہتر بنانے بارے مشورہ دے سکیں۔
ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل عمران خان شیڈو کیبنٹ ہونی چاہیے کی بات بڑے زوروشور کے ساتھ کرتے تھے لیکن افسوس کہ وہ بھی ایک روایتی سیاستدان ہی ثابت ہوئے کہ نہ تو انہوں نے آئندہ کے لئے اپنا کوئی وزیر خزانہ تیار کیا اور نہ ہی خارجہ محاذ پر لڑنے کے لئے کوئی دوسرا شاہ محمود ان کے پاس موجود ہے۔ اتحادیوںکے سہارے قائم حکومت میں گنتی کے ہی اصل چہرے وزارتوں پر براجمان ہیں یعنی معاملہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی کا کنبہ جوڑا والا ہے۔وزیراعظم عمران خان جو حکومت سنبھالنے کے بعدسے آج تک عوام کو گھبرانا نہیں کی تلقین کرتے رہتے ہیں سے اب لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بدترین مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے جو 200افراد کی ٹیم موجود ہونے کی بات کی گئی تھی غالباً وہ بھی سیاسی بیان ہی تھاکیونکہ آدھے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی حکومت عوام کو کسی قسم کا ریلیف یہ کہہ کر فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ یہ سب گڑبڑ گھوٹالا پچھلی حکومتوں کا ہے۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک عوام کو اس قسم کے جذباتی بیانات سے ٹرخایا جاتا رہے گا۔
بلاشبہ احساس پروگرام تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے لیکن عجلت میں لانچ کئے گئے پروگرام کے لئے پیپلزپارٹی دور کی لسٹیں استعمال کرنے سے اس کی شفافیت پر بھی انگلیاں اٹھیں کہ کورونا کے دنوں میں ایک کروڑ 80لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہوئے ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت تحصیل سطح پر بیروزگاروں کی لسٹیں مرتب کرکے اس کے مطابق لوگوں کی مدد کرتی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ ایسے درجنوں معاملات میں جہاں تحریک انصاف کے کارکنوں کو عوام کے مسائل کے حل کے لئے عملی کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ ٹائیگر فورس کے حوالے سے بعض ایسی خبریں بھی سننے کو ملیں کہ جس سے ’’گلو بٹ‘‘ ہونے کا تاثر ملا۔ اگر یہاں مہنگائی کنٹرول کرنے کے حوالے سے ایسا میکانزم تیار کئے جانے کی امید کی جائے تو غیرسیاسی ٹائیگر فورس کو عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا تھا۔
اب جبکہ جہانگیر ترین نے مستقبل کا فیصلہ وقت کرے گا، کی بات کی ہے تو اس سے ان کے سیاسی مخالفین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ چلو ایک بڑی مشکل تو حل ہوئی جبکہ دوسری طرف جہانگیر ترین کے اس بیان سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ایک ترین ہی تو تھے جن تک براہ راست عوام کی رسائی تھی۔ جہانگیر ترین ایک فائٹر آدمی ہیں اس لئے ہم ان سے درخواست کریں گے کہ وہ اپنے دیرینہ دوست عمران خان کو اس مشکل میں اکیلا نہ چھوڑیں کیونکہ تحریک انصاف کا ہر کارکن جہانگیر ترین سے انسیت رکھتا ہے اور ان کی خان کے ساتھ موجودگی مخالفین پر بجلیاں گراتی ہیں۔ اگر تحریک انصاف ایک نظریے کا نام ہے تو ترین کو اس نظریے کی آبیاری کی حفاظت کرنی چاہیے۔
جہانگیر ترین سے ایک ذاتی حیثیت میں بھی درخواست ہے کہ وہ لودھراں میں ایک یونیورسٹی کے قیام کے لئے کوششیں کریں تاکہ ان کے علاقے میںغریب عوام کو تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں۔ اسی طرح چینی اور آٹا کے بحران کے حوالے سے بھی اپنی گزارشات مرتب کرکے وزیراعظم تک پہنچائیں یہی اصل دوستی کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے یار کو اس مشکل گھڑی میں میر جعفر اور میر صادق کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں کیونکہ وزیراعظم ہائوس کا سب سے بڑا مخبر خان کو پھنسوانے کے لئے میدان میں آچکا ہے۔ اس لئے جہانگیر ترین کو ان تمام معاملات پر نظر رکھتے ہوئے خان کو ان مفاد پرستوں کے وار سے بچانے کے لئے اپنا جہاز ہمہ وقت تیار رکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: