اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملازمت سے فارغ کیے جانے والوں میں3سال قبل انتقال کرجانیوالےرپورٹر کا نام بھی شامل

24 دسمبر کو شائع ہونے والے اشتہار میں جن 14 صحافیوں کے نام شامل ہیں ان میں سے ایک چوہدری شبیر رچیال تین سال قبل انتقال کر چکے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ وہ وفات سے قبل تین سال تک کومہ کی حالت میں رہے
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں صحافیوں کی تنظیمیں ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والے اس اشتہار کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، جس میں اخبار نے تین سال قبل انتقال کرنے والے ایک رپورٹر سمیت اپنے ایک درجن سے زائد نمائندگان کو ’ناقص کارکردگی‘ کی بنیاد پرفارغ کر دیا ہے-
اطلاعات کے مطابق یہ نمائندگان کئی سالوں سے بغیر تنخواہ کے کام کر رہے تھے بلکہ ان میں سے بعض نے اخبار کو اعزازی نامہ نگار کے طور ہر کام کرنے کے لیے سکیورٹی کی مد میں رقم بھی جمع کروا رکھی تھی-
روزنامہ ’خبریں‘ نامی اس اخبار کے انچارج نمائندگان نوید چوہدری نے اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا ہے، تاہم فارغ کیے گئے نمائندگان میں سے کچھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ادارے نے انہیں اشتہارات جمع کرنے کا ٹارگٹ دے رکھا تھا اور وہ پورا نہ ہونے پر انہیں ’توہین آمیز‘ انداز میں فارغ کر دیا گیا۔
24 دسمبر کو شائع ہونے والے اشتہار میں جن 14 صحافیوں کے نام شامل ہیں ان میں سے ایک چوہدری شبیر رچیال تین سال قبل انتقال کر چکے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ وہ وفات سے قبل تین سال تک کومہ کی حالت میں رہے۔ میرپور کے علاقے چکسواری سے تعلق رکھنے والے چوہدری شبیر رچیال کی وفات کے بعد ان کا خاندان برطانیہ منتقل ہو چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مقامی نامہ نگاروں کی کل تعداد سات سے آٹھ سو کے درمیان ہے اور ان کی واضح اکثریت بغیر تنخواہ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اخبار معمولی کمیشن کے عوض ان نامہ نگاروں کو اشتہارات جمع کرنے کا ٹارگٹ دیتے ہیں۔ مطلوبہ تعداد میں اشتہارات جمع نہ کر سکنے والے نمائندگان کو اس طرح ادارے سے نکالے جانے کی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں، تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ صحافیوں کی تنظیموں نے اس نوعیت کے واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے اسے مقامی نامہ نگاروں کی تذلیل قرار دیا ہے۔
جمعرات کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں صحافیوں کی تنظمیوں کے نمائندگان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں روزنامہ خبریں کے مذکورہ اشتہار کو ’صحافیوں کی تذلیل‘ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اخبار کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میڈیا لسٹ سے معطل کیا جائے اور اس کے سرکاری اشتہارات بند کیے جائیں۔ انہوں نے اخبار کے مالکان کے خلاف احتجاج اور ہر ممکن قانونی چارہ جوئی کا بھی اعلان کیا۔
اس پریس کانفرنس میں سینٹرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر ابرار حیدر، پریس فار پیس کے امیر الدین مغل، آزاد جموں وکشمیر یونین آف جرنلسٹس کے قائم مقام صدر سعید الرحمٰن صدیقی، ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر آصف رضا میر اور سینٹرل پریس کلب کے جنرل سیکرٹری اشفاق شاہ شریک ہوئے۔
صحافیوں کی تنظمیوں کے ان نمائندگان نے الزام عائد کیا ہے کہ اخبار پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آنے والے الیکشن سے قبل نمائندگان پر سیاسی جماعتوں سے اشتہار لینے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں اور انکار پر انہیں توہین آمیز طریقے سے نکال کر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سرمایہ داروں کو نمائندہ مقرر کیا جا رہا ہے جو صحافتی اصولوں کے یکسر خلاف ہے۔
ان کے بقول: ’روزنامہ خبریں نامی اس اخبار کی شہرت اس حوالے سے پہلے بھی اچھی نہیں۔ اخبار کا ڈیکلیریشن مظفرآباد سے جاری ہوا مگر یہاں ان کا کوئی دفتر ہے اور نہ ہی اخبار یہاں سے تیار ہوتا ہے۔ اخبار ہر چھ ماہ بعد اپنے نمائندگان اور بیوروچیف کو تنخواہ ادا کیے بغیر فارغ کردیتا ہے، تاہم اس مرتبہ تو تمام حدیں عبور کرلی ہیں۔‘
اس سے قبل سینٹرل یونین آف جرنلسٹس کے عہدیداروں نے ایک علیحدہ پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا ہے کہ وہ اس اخبار کے اشتہارات بند کرنے کے لیے محکمہ اطلاعات کو متحرک کریں گے اور اگر اخبار کے مالکان نے اس طرز عمل پر معافی نہ مانگی تو پاکستان کے زیر انتطام کشمیر میں اخبار کی سرکولیشن بند کر دی جائے گی۔
صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم نیم سرکاری ادارے آزاد جموں و کشمیر کے وائس چیرمین سردار ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک قومی اخبار کی طرف سے اپنے نمائندگان کے ساتھ اس نوعیت کا توہین آمیز سلوک نا قابل برداشت ہے اور اس معاملے پر اخبار کے خلاف کارروائی کے لیے مشاورت جاری ہے۔ پریس فاؤنڈیشن کی تحریک پر محکمہ اطلاعات پہلے ہی اس نوعیت کے اشتہار شائع کرنے پر پابندی عائد کر چکا ہے، جن سے کسی صحافی یا اخباری کارکن کی عزت نفس مجروح ہونے کا احتمال ہو۔
پاکستان میں صحافیوں کی اجرت کا تعین کرنے کے لیے ویج بورڈ لاگو ہے، تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی متنازع حیثیت کے باعث اس کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا۔ قومی اخبارات اس آئینی ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارکن صحافیوں کا استحصال کرتے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مزدو کی کم سے کم ماہانہ اجرت 17500 روپے مقرر ہے تاہم بہت کم اخبارات اپنے نامہ نگاروں کو اس شرح کے مطابق تنخواہ ادا کرتے ہیں۔ بیشتر اخبارات تو اپنے نمائندگان اور نامہ نگاروں کے ساتھ معائدے تک نہیں کرتے۔
اگرچہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محکمہ اطلاعات نے سرکاری اشتہارات کا اجرا صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کر رکھا ہے تاہم ان اخبارات کی جانب سے محکمے کو اپنے نمائندگان کی غیر مصدقہ فہرستیں فراہم کی جاتی ہیں۔
وفاقی اشتہارات میں پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کا کوٹہ اڑھائی فیصد ہے، جو سالانہ تقریباً 25 کروڑ روپے بنتا ہے تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات کو اس میں سے بمشکل چند لاکھ روپے ملتے ہیں۔ باقی کے سرکاری اشتہارات پاکستان سے شائع ہونے والے وہ اخبارات لے جاتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں فرضی ڈیکلیریشن حاصل کر رکھے ہیں، تاہم ان کا یہاں کوئی دفتر موجود ہے اور نہ ہی باقاعدہ تنخواہ دار ملازمین، بلکہ یہ اخبارات تیار اور شائع بھی راولپنڈی، اسلام آباد یا لاہور میں ہوتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری اشتہارات کا سالانہ بجٹ 17 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ جن میں سے 70 فیصد حصہ پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات کو ملتا ہے۔ میڈیا لسٹ پر موجود ایسے اخبارات کی تعداد 80 کے لگ بھگ ہے تاہم اشتہارات کا زیادہ تر کوٹہ چار بڑے اخبارات روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ خبریں اور روزنامہ اوصاف لے جاتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی کل آباد 42 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے 15 لاکھ کے لگ بھگ لوگ پاکستان کے مختلف شہروں یا بیرون ملک مقیم ہیں تاہم آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں فروخت ہونے والے اخبارات کی روزانہ کی سرکولیشن 68 لاکھ کے قریب ہے جو کل آبادی سے دوگنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: