اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا یہ کوئی بغاوت ہے۔؟||ملک سراج احمد

تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اس سے کسی نے سبق نہیں سیکھا اور ان نا سیکھنے والوں میں ہماری حکمران اشرافیہ بھی ہے ۔خالی خزانے کو بھرنے کی خواہش میں مگن ہمارے بادشاہ کو عوام سے کوئی غرض نہیں ہے۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُموی خلیفہ سلیما ن بن عبدالملک کی وفات کے بعد عمر بن عبدالعزیز کو شاہی تخت پر بٹھایا گیا۔نازونعم میں پلے بڑھے شہزادئے کو یہ جانشینی پسند نہ آئی اور تخت کویہ کہتے ہوے ٹھکرا دیا کہ میں بادشاہ نہیں بن سکتا۔لوگوں نے منت سماجت کر کے اپنی خوشی اور رضا مندی سے آپ کو دوبارہ تخت شاہی پر لا بٹھایا۔اب کی بار تخت وراثت میں نہیں لوگوں کی رضامندی سے حاصل ہوااوراسی سبب دورِ اقتدار بادشاہت نہیں دورِ خلافت کہلایا۔پھر وقت نے بھی ثابت کر دیا کہ لوگوں کا انتخاب ٹھیک تھا۔

کہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی ہوتی تھی جس میں ایک انتہائی قیمتی ہیرا جڑا ہوا تھا اور یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند تھی۔اتفاق ایسا ہوا کہ ایک سال ملک میں شدید قحط پڑا اور اناج کی کمی کے باعث لوگ بھوکوں مرنے لگے۔غریب پرور خلیفہ حالات سے بے خبر نہیں تھا۔لوگوں کی تکالیف اور پریشانی کو مدِنظر رکھتے ہوئے خلیفہ نے اپنی پسندیدہ بیش قیمت انگوٹھی کو فروخت کر دیا اور حاصل ہونے والی قیمت سے اناج خرید کر لوگوں میں تقسیم کرا دیا۔

جب اُس انگوٹھی کی فروخت کا علم آپ کے قریبی ساتھیوں کو ہوا تو انہوں نے آپ سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا؟اپنا پسندیدہ ہیرا فروخت کر دیا۔اس موقع پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جو جواب دیا وہ آج بھی تاریخ میں سُنہرئے حروف میں لکھاہوا ہے اور حکمران اشرافیہ کے لیے یہ جواب ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ نے فرمایا ”وہ ہیرا مجھے بہت پسند تھا لیکن میں یہ بات کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہوں اور میں قیمتی انگوٹھی پہنے بیٹھا رہوں۔کسی بھی حکمران کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ لوگوں کو تکالیف میں مبتلا دیکھے اور اپنے آرام اور زیب و زینت کے سامان کو عزیز رکھے۔یہ فرماتے وقت آپ کے رُخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے“۔تاریخ میں آپ کے دور کو خلافتِ راشدہ کا تسلسل لکھا جاتا ہے۔

طے ہوگیا کہ اگر عوام کو یقین آ جائے کہ حاکم وقت عوام کی حاجت روائی کرنے والا ہے، تواسی اعتماد اور یقین کی بدولت عوام کے ہاتھ دعاوں کے لیے اُٹھتے ہیں۔مگر جب یقین کی کیفیت پر بے یقینی غالب آجائے اورعوام کو یقین ہو جائے کہ اُن کے دکھوں اور تکالیف کا کہیں مداوا نہیں ہو گا تو وہ غیض و غضب کی حالت میں ہاتھوں میں پتھر اور ڈنڈئے لے کر سربازار آجاتے ہیں۔ایسا کئی بار ہوچکا ہے اور کئی حکومتیں اور شاہی تخت عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن چکے ہیں

اس کی سب سے بڑی دلیل انقلاب فرانس ہے ۔انقلاب فرانس کا شمار دنیا کے پانچ بڑے عوامی انقلاب میں ہوتا ہے ۔انقلاب کے وقت فرانس میں تین تین طبقات موجود تھے جن میں مذہبی طبقہ ، دولت مند اشرافیہ اور تیسرا طبقہ وہ غریب عوام تھی جو زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترس رہی تھی۔جنگ آزادی امریکا میں امریکا کی اعانت کرتے کرتے فرانس کا خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ اس وجہ سے فرانس کے معاشی حالات اور خاص طورپر عام طبقہ کی معاشی حالت ابتر ہوچکی تھی۔ایسے میں 5 مئی 1789 کو فرانسیسی بادشاہ لوئی نے اسٹیٹ جنرلز کا اجلاس طلب کیا تاکہ نئے ٹیکس لگائے جائیں جس سے ملک کے خالی خزانہ کو بھرا جا سکے ۔مگر اس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور عوامی غیض و غضب انتہا کو پہنچ چکا تھا۔

14 جولائی 1789 کو فرانسیسی مشتعل عوام کا ہجوم محل کے سامنے جمع ہوا اور روٹی روٹی کی دہائی دیتا رہا۔مگر روٹی کے لیے بلکتی عوام کو خاموش کرانے کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کیا گیا اور عوام پر محافظوں کے زریعے تشدد کیا گیا جس سے اشتعال پھیلا اور مشتعل عوام نے باستیل کے قلعہ پر قبضہ کرکے جیل خانہ منہدم کردیا۔بادشاہ کو اطلاع دی گئی تو بادشاہ لوئی نے پوچھا کیا یہ کوئی بغاوت ہے اور اطلاع دینے والے کے منہ سے بے ساختہ نکلا نہیں جاں پناہ یہ انقلاب ہے۔اور یوں 4 اگست 1789کو فرانس میں مکمل انقلاب آگیا۔

یہ محض انقلاب نہیں تھا ایک عظیم انقلاب تھا جس میں صدیوں سے قائم بادشاہت کا خاتمہ بادشاہ کو سولی پر چڑھا کر کیا گیا۔بادشاہ کے وظیفہ خوار مذہبی پیشواوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوااور آزادی ، مساوات اور اخوت کے نئے دور کا آغاز ہوا۔بھوک سے نڈھال عوام نے کسی بھی اخلاقی نصحیت ، کلیسا کی کسی بھی مذہبی تاویل کو سننے اور ماننے سے انکار کردیا۔21 جنوری 1793 کو شاہ فرانس اور 16اکتوبر کو ملکہ کو عوامی عدالتوں میں کاروائی کے بعد پھانسی دے دی گئی ۔ہر اس شخص کو قتل کردیا گیا جس کے ہاتھ نرم وملائم تھے۔

تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اس سے کسی نے سبق نہیں سیکھا اور ان نا سیکھنے والوں میں ہماری حکمران اشرافیہ بھی ہے ۔خالی خزانے کو بھرنے کی خواہش میں مگن ہمارے بادشاہ کو عوام سے کوئی غرض نہیں ہے۔مہنگائی،کرپشن،اقرباپروری اور بے روزگاری کے کوہِ گراں تلے سسکتی ہوی بے کس عوام کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔حکمران اشرافیہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لینے کے درپے ہے۔

کس کس کا رونا رویا جائے۔اگرکسی پر تنقید کر دی جائے تو وہ جمہوریت پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ اگرعوام احتجاج کرتی ہے تو حکمرانوں کو یہ جمہوریت کے خلاف کوئی منظم سازش لگتی ہے۔بے روزگاری کا عفریت نوجوان نسل کی امیدوں اور خوابوں کو نگل رہا ہے تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔مہنگائی سے سبب خودکشی اور عصمت فروشی کے واقعات میں اضافہ بھی پریشان کُن نہیں ہے بس کسی طرح جمہوری سسٹم چلنا چاہئے۔۔تو اس ضمن میں اپنے حکمرانوں سے عرض یہی کرنا ہے کہ یہ کوئی سازش نہیں ہے حضور بس آپ ذرا اپنی اداوں پر غور فرمائیں اگر ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔

رہی بات جمہوریت کی تو ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جن کو ناتو جمہوریت سے کوئی فائدہ پہنچا اورنا ہی آمریت نے نفع دیا۔ہر دو طرح کی حکمرانی میں عوام کی زندگی اجیرن ہی رہی ہے۔سب سیاسی جماعتیں حکمرانی کرچکیں مگر غریبوں کے حالات نہیں بدلے۔اور بدلیں گے بھی نہیں اس لیے اگر کچھ بدلنا ہے تو یہ نظام بدلو،طرزحکمرانی بدلو اور اپنی ترجیحات بدلو۔

برائے رابطہ 03334429707

وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

%d bloggers like this: