اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعلیٰ پنجاب کے طوفانی دورے||سارہ شمشاد

وزیراعلیٰ پنجاب کے جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں کے دورے بلاشبہ بلاسبب نہیں لیکن چلو اگر درجنوں اعلانات میں سے کوئی 10فیصد منصوبے ہی مکمل ہوگئے تو عرصہ دراز سے بنیادی حقوق سے محروم وسیب زادے اسے ہوا کا پہلا جھونکا قرار دیں گے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ پسماندہ علاقوں کی تقدیر بدلنے آیا ہوں، ترقی کا سفر نہیں رکے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈیرہ سمیت قبائلی علاقوں کے دوروں کے موقع پر اربوں کے ترقیاتی کاموں کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جس طرح عرصہ دراز سے نظرانداز جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں کا دورہ کیا وہ خوش آئند اور قابل تحسین ہے کہ بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ جہاں پہلی مرتبہ کسی وزیراعلیٰ نے وہاں کا دورہ کیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان ہو یا راجن پور اور ان کے مضافاتی علاقے سچ تو یہ ہے کہ آج بھی پتھر کے زمانے کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ گیس، بجلی تو کجا، جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں پینے کا صاف پانی اور پکی سڑکیں تک موجود نہیں۔ صحت اور تعلیم جیسے اہم ترین اور بنیادی شعبے اس بری طرح سے نظرانداز ہوئے کہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کس سرے کو پکڑ کر عوام کی بہتری کے لئے کوششیں کی جائیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب سے صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ، سپیکر تک منتخب ہوئے لیکن مجال ہے کہ کسی نے بھی اس خطے کی ترقی کیلئے کوئی کوشش کی ہو اور وہ شعور جو اس علاقے کی عوام کو تعلیم کے ذریعے مل سکتا تھا اس طرف قطعاً توجہ ہی نہیں دی گئی اور آج جب جنوبی پنجاب کے عوام علیحدہ صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں تو اس کے پیچھے ان سے طویل عرصے سے روا رکھی جانے والی محرومیوں کی ایک کتھا ہے کہ جس میں کیس نے بھی سمجھنے کی کبھی شعوری کوشش ہی نہیں کی بلکہ جان بوجھ کر اس خطے کے وسیب زادوں کو پسماندہ اور محروم رکھا گیا تاکہ غربت زدہ چہرے انہیں ان کی کم مائیگی کا احساس دلاتے رہے یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں غربت وطن عزیز کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کی ایک بنیادی وجہ زرعی شعبے سے وابستگی ہے کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زراعت میں کسی پڑھے لکھے شخص کی ضرورت نہیں ہوتی اور اینٹ گارے کا کام کرنے والے اگر پڑھ لکھ گئے تو پھر کھیتی باڑی جیسا معمولی کام کون کرے گا۔ دراصل یہی وہ سوچ ہے جس نے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو پسماندہ رکھا۔ یہاں سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں اسی سوچ کے تحت نہیں بنائی گئیں کہ اگرایک کسان کا بیٹا پڑھ لکھ کر جاگیردار، وڈیرہ کے ساتھ بیٹھ گیا تو پھر ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر کون کھڑا ہوگا اور کون انہیں میڈا سائیں کہے گا۔ اسی لئے تو آج بھی میرے وسیب کا مزدور اور محنت کش اجڈ، گنوار کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔ میں یہاں کسی ایک سیاسی جماعت کو موردِ الزام ٹھہرانا نہیں چاہوں گی بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے میرے وسیب کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کئے۔ میرے وسیب کے بچوں کو ان کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر تعلیم کے زیور سے اس امید پر آراستہ کرتے ہیں کہ یہ ان کے بڑھاپے کا سہارہ بنے گا مگر ان کےیہ خواب اس وقت ٹوٹ جاتے ہیں کہ جب ان پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ہی میسر نہیں آتے اور اگر کوئی پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے تو اپر پنجاب اورجنوبی پنجاب کے تعلیمی نصاب کا بڑا فرق ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے یہی نہیں بلکہ سرکاری ملازمتوں میں بھی جنوبی پنجاب کے کوٹے پر اپر پنجاب کے لوگ بھرتی ہوجاتے ہیں اور یوں میرے وسیب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا مقدر در در کی ٹھوکریں کھانا ہی رہ جاتا ہے اور وہ والدین جنہوں نے اپنے بچوں کواپنی جمع پونجی بیچ کر پڑھایا تھا وہ بھی خالی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔یہ میرے وسیب کا المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ یہاں پر میگا پراجیکٹس شروع کرنے کی بجائے افسران اور بیوروکریسی اپر پنجاب منتقل کروانے میں حصہ بقدر جثہ ضرور ڈالتےہیں۔ کچھ اسی قسم کی اطلاعات اب ملتان کی بیوروکریسی کے حوالے سے بھی سامنے آرہی ہیں کہ یہاں کے بڑوں کی آپس کی چپقلش کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ یہ ایک کھلا سچ ہے کہ جنوبی پنجاب کے کئی بڑے اور میگا پراجیکٹس نہ صرف اپر پنجاب منتقل کئے گئے بلکہ بعض اوقات تو فنڈز کا استعمال تک افسر شاہی نے نہ کیا اور فنڈز لیپس ہوئے۔ نشتر ہسپتال ملتان نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ بلوچستان، کے پی کے کے عوام کا بوجھ تن تنہا کئی دہائیوں سے اٹھائے ہوئے ہے اور اب نشتر ٹو کے پراجیکٹ پر کام جاری ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ اس منصوبے کو کسی تاخیر کے بغیر مکمل کیا جائے گا۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی بجائے فوری طور پر دو سیکرٹریٹ کی تشکیل کا لالی پاپ دے کر یہاں کے عوام کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن آفرین ہے کہ اس خطے کے دانشور طبقے پر جو اپنے قلم کی سیاہی خشک ہونے تک وسیب کے حق کے لئے آواز بلند کرتا رہتا ہے اور اب وزیراعلیٰ پنجاب کے جنوبی پنجاب کے دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں کے دورے کو بھی حکومت کی جانب سے علیحدہ صوبے کے قیام کے ایشو پر تھپکی کے ساتھ عثمان بزدار کا اپنی سیٹ پکی کرنا بھی قرار دیا جارہا ہے۔ دونوں باتوں سے انکار ممکن نہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ 10سے زائد سیٹیں صرف ملتان سے ان کے پاس ہیںاس لئے انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی کی کون سی پلیٹ لے کر عوام کے دربار میں جائیں گے کہ جنوبی پنجاب صوبے بارے تاحال کوئی واضح پالیسی کیونکر سامنے نہیں آئی ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کی جانب سے نمبرز پورے نہیں کی بات بھی کی جارہی ہے لیکن اگر نیت صاف ہو توکام آسان ہوجاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ سنجیدگی کامظاہرہ اس ایشو پر بھی دیگر کی طرح نہیں کیا گیا۔ ہمارا مقصد حکومت کے اچھے کاموں پر تنقید کرنا ہرگز نہیں لیکن حکومت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ عوام کی امید اور توقعات پر اس طرح پورا نہیں اتری جس کی امید کی جارہی تھی۔ جنوبی پنجاب کو پاکستان کے ترقی یافتہ علاقوں کے ہم پلہ لانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور حکومت کو اس میں ذاتی پسند و ناپسند کی بجائے میرٹ پر بات کرنی چاہیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں کے دورے بلاشبہ بلاسبب نہیں لیکن چلو اگر درجنوں اعلانات میں سے کوئی 10فیصد منصوبے ہی مکمل ہوگئے تو عرصہ دراز سے بنیادی حقوق سے محروم وسیب زادے اسے ہوا کا پہلا جھونکا قرار دیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: