اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امڑی کی تربت اور آٹھواں آسمان||حیدر جاوید سید

امڑی حضورؒ کی برسی عیسوی کلینڈر کے حساب سے ہم ماہ جولائی میں ہی مناتے ہیں۔ 11جولائی 2001ء میں جب امڑی کا سانحہ ارتحال ہوا تو اس دن 29جمادی الثانی تھی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امڑی حضورؒ کی برسی عیسوی کلینڈر کے حساب سے ہم ماہ جولائی میں ہی مناتے ہیں۔ 11جولائی 2001ء میں جب امڑی کا سانحہ ارتحال ہوا تو اس دن 29جمادی الثانی تھی۔ پچھلے چند دنوں سے امڑی حضور کی ساری اولاد جنم شہر میں مقیم ہے۔ پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف پرواز کی تیاریوں میں بہن بھائیوں سے الوداعی ملاقاتوں میں مصروف تھے کہ ہماری ایک عدد تھانیدارنی بہن نے حکم صادر کیا۔
چونکہ تم سب کا جولائی میں پھر سے جمع ہونا اتفاق ہی ہوگا اس لئے 29جمادی الثانی کو امی جان کی برسی کے موقع پر سب حاضر ہوجائیں۔ چار بڑے بہن بھائیوں سے چھوٹی یہ بہن امڑی کی زندگی میں ہی تھانیدارنی تھی۔
جب بھیا ابو جیسے بزرگ بھائی کی مجال نہیں کہ وہ حکم کو ٹال پائیں تو ہم کس قطار میں۔ اور ویسے بارہ میں سے گیارہ بہن بھائیوں کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ اپنی اس تھانیدارنی بہن کے لاڈلے ہیں۔ وہ بھی بہن بھائیوں اور ان کی آل اولاد کے ناز نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
شرط یہ ہے کہ کوئی اس کے ہاتھ لگ جائے سئی۔ بہنیں سبھی کو عزیز ہوتی ہیں اور بھائی بہنوں کو مگر امڑی کی اولاد کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں۔ سبھی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔
مجھے تو اپنی بہنوں میں امڑی دیکھائی دیتی ہے اس لئے جب بھی کسی بہن کے گھر قدم بوسی کے لئے حاضری دوں، چپکے چپکے اس کے چہرے کی زیارت کرتا ہوں۔ امڑی جیسی روشن آنکھیں اور چہرہ۔ پھر آنسو چھپانے کے لئے سنجیدگی اوڑھ لیتا ہوں۔
آج بھی کئی بار یہی ہوا آخر بہن نے تڑپ کر بھیا ابو سے شکایت کی۔ یہ آپ کا لاڈلہ چپ چپ کیوں ہے اس کی ہنسی کہاں گئی؟
بھیا ابو دوست کے طور پر احوال دینا اور حال دل سے آگاہ تھے اس لئے انہوں نے کہا، تمہیں غلط فہمی ہورہی ہے
اس تھانیدارنی بہن کے گھر جانے سے قبل امڑی حضور کی تربت پر حاضری دی۔
مختصر وقت میں وہ سب ان کے گوش گزار کیا جس بارے پرسوں (جب تھانیدارنی نے حکم صادر کیا تھا) سے سوچ رکھا تھا۔ امڑی، ہوتی آٹھواں آسمان ہی ہے۔
سات آسمانوں سے زیادہ شفیق سایہ دار، محبت ہی محبت دعائیں ہی دعائیں، یہ آٹھواں آسمان سر سے ہٹ جائے تو اولاد کھلے نیلے آسمان کے نیچے آباد دنیا کے سردوگرم کو بھگتی ہے۔
آٹھویں آسمان کی موجودگی میں کس کی جرت ہے کہ وہ امڑی کی اولاد کی طرف نگاہ غلط ڈالے، برا سوچے۔
ہمارا آٹھواں آسمان جب سے اپنے ہی جنم شہر کی مٹی میں جا سویا ہے زمانے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ ایک مصیبت بھگت چکو دوسری تیار تیسری تعاقب میں۔ امڑی ہوتی تھیں تو نکل بھاگ ملتان پہنچ کر ان کے سایہ میں پناہ لے لیتے تھے۔ اب تو بس ایک ہی رستہ ہے امڑی کی تربت پر پہنچو حال دی بیان کرو اور پھر میٹھی میٹھی ڈانٹ ڈپٹ سنو۔
سچ یہی ہے کہ میں جو خالق سے نہیں کہہ پاتا وہ اپنی امڑی سے کہہ لیتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ یہ یقین رہتاہے کہ امڑی اپنے لخت جگر کی سنتی ہیں اور پھر تربت میں ہی دست دعا بلند کرکے کہتی ہیں
’’اے سیدہ کونینؑ کے بلند مرتبہ بابا جانؐ پوری نصف صدی اس شہر میں میں نے آپ پر اترا قرآن، آپ کے ارشادات اور فرائض و سنت سے وعظوں میں لوگوں کو آگاہ کیا اب میرا لعل آپؐ کے سپرد‘‘۔
جب بھی اپنی امڑی کی تربت پر زمانے کے ستم اور کچھ دوسرے معاملات کے حوالے سے عرض گزار ہوتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ امڑی میرے نوحے پاک بتولؑ کے بلند مرتبہ بابا جانؐ کی خدمت میں عرض کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’آقاؐ، بھلے نالائق ہے مگر ہے تو میرا لخت جگر ہی، اس کی فریادیں آپ کے پاس نہ لے کر آئوں تو کس دروازے پر جائوں؟‘‘
آج بھی امڑی کی تربت پر دو تین شکایتیں عرض کیں۔ امڑی بولیں ماں صدیقے میرے لعل تجھے کہا تو تھا سورۃ کوثر پڑھتا رہا کر۔ کیوں بھول جاتا ہے ماں کا حکم۔ عرض کیا، امڑی جس دن تجھے اور تیرے حکم کو بھولوں خاک کے نیچے آسووں۔
تڑپ کر بولیں، ایک بار پہلے بھی کہا تھا مرنے کی باتیں ماں کی قبر پر بھی نہیں کرتے۔ میرے لعل حوصلہ رکھو نسبتوں کی فضیلت ہوتی ہے تو امتحان بھی ہوتے ہیں۔ اماں ہر قدم پر ایک امتحانی پرچہ ہے یہ امتحان آخر کب ختم ہوگا۔ اماں بولی، خود کو اور اپنے جیسوں کو دیکھنے کی بجائے محروم طبقات کی طرف دیکھا کرو۔ شکر ادا کیا کرو معذور نہیں ہو اپنی محنت کی کھاتے ہو یہی کائنات کی سب سے بڑی خوشی اور انعام ہے۔
فاتحہ خوانی اور درودوسلام کے بعد امڑی حضور کی تربت سے رخصت ہونے لگا تو انہوں نے ہمیشہ کی طرح کہا میرے لعل جا تجھے پاک بتولؑ اور آپ کے بلند مرتبہ بابا جانؐ کو سونپا۔ اچھا امڑی میں پھر حاضری دوں گا ابھی تو بھیا ابو تیرے قدموں میں بیٹھے ہیں۔
امڑی نے مسکراتے ہوئے کہا تم میرے فاروق کی آنکھوں کا نور ہو لاڈلے ہو اس کے۔ ہاں امڑی یہ تو ہے بھیا ابو بہت پیار کرتے ہیں بالکل تیری طرح اسی لئے تو جب میں آپ کی تربت پر حاضر ہونے سے قاصر ہوتا ہوں حال دل ان سے بیان کرکے ڈھیروں دعائیں لے لیتا ہوں۔
امڑی حضور کی تربت کو چھوکر قبرستان سے باہر نکلا تو نیلے آسمان کے نیچے آگیا۔ چار اور لوگ ہی لوگ تھے اور زندگی کا شور۔
آٹھواں آسمان ہٹتے ہی دنیا کیسے بدل جاتی ہے۔
تربت مادر گرامی سے رخصت ہوکر ماں جیسے روشن چہرے والی بہنوں کی زیارت کی دعائیں لیں۔
اللہ کریم میری بہنوں اور بھائیوں کو سلامت رکھے اپنی یہی کل کائنات ہے۔ بیٹیاں، دوست اور بہن بھائی۔ میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کسی کے سر سے آٹھواں آسمان نہ ہٹے، آمین۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: