اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حمید اصغر شاہین ||حیدر جاوید سید

انہوں نے سرائیکی وسیب کی قومی شناخت، فیڈریشن میں سرائیکی صوبہ کے قیام کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور ان کے دوست کم اور مخالف ہمیشہ زیادہ ہوئے لیکن دونوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اپنی فہم سے مخلص اور ثابت قدم رہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمید اصغر شاہین نے سیاسی کارکن کی حیثیت سے میدان سیاست میں قدم رکھا تو 1960ء کی دہائی کے ماہ و سال تھے۔ ملک میں ایوبی آمریت کا راج تھا۔ سیاست بی ڈی ممبروں کے ڈیروں، پیروں کے درباروں اور جاگیرداروں و تمن داروں کے گھر کی لونڈی تھی۔
ان ماہ و سال میں زمین زادوں کے لئے سوچنا، ان کی بات کرنااور سامراجی مفادات کے اسیر حکمرانوں پر تنقید کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ اسی عشرے میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تاشقند معاہدہ کے بعد ایوبی حکومت سے اختلافات کے باعث وزارت خارجہ کا منصب چھوڑ کر میدان میں نکلے۔
دوسرے نوجوانوں کی طرح حمید اصغر شاہین بھی بھٹو کے اسیر ہوئے (تب شاہین صاحب کا آتش جوان تھا) ایوبی آمریت ایک تحریک کے نتیجے میں رخصت ہوئی مگر ایوب خان نے اپنے ہی بنائے ہوئے صدارتی دستور کے مطابق اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے سپرد کرنے کی بجائے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیا اور ملک دوسرے مارشل لاء کے اندھیروں میں گم ہوگیا۔
دوسری فوجی سرکار نے ملک میں ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کروانے کے اعلان کے ساتھ ون یونٹ کو رخصت کرکے سابق مغربی پاکستان کے چار صوبے این ڈبلیو ایف پی (صوبہ سرحد)، پنجاب، سندھ اور بلوچستان بحال کردیئے۔ 1970ء میں مرکزی دستور ساز اسمبلی کے ساتھ پانچوں صوبائی اسمبلیوں (پانچویں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی) کے انتخابات کروائے۔
اقتدار کی کشمکش اور چند دوسری وجوہات کی بنا پر 16دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان، اب پاکستان تھا، فوجی بغاوت کے خطرے کو بھانپتے بلکہ نوجوان سولجرز کے تلخ ردِعمل کو بھگت کر اس وقت کی عسکری قیادت نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کردیا۔
بھٹو اقتدار میں آئے تو حمید اصغر شاہین جیسے کارکنوں کا خیال تھا کہ اب سردار، وڈیرے، پیر، جاگیردار اور دوسرے بڑے طبیقات ان کے گھڑے کی مچھلیاں ہیں۔
لیکن بہت جلد ان جیسوں کے خواب چکنا چور ہوئے۔ حمید اصغر شاہین کو سرداروں کے حکم پر پولیس نے گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
صوبائی حکومت کی مداخلت سے انہیں رہائی تو مل گئی لیکن شوق جواں مردی میں بھونچال آگیا بعد کے برسوں میں وہ گزرے ماہ و سال کی طرح فعال تو نہ رہے لیکن ’’چھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘
1980ء کی دہائی کے آخری برسوں میں انہوں نے اپنا رشتہ سرائیکی قوم پرست سیاست سے جوڑا اور پھر آخری سانس تک سرائیکی قوم پرست کے طور پر سرگرم عمل رہے۔
مرحوم حمید اصغر شاہین سرائیکستان قومی موومنٹ نامی سیاسی جماعت کے سربراہ رہے۔ مجاہد جتوئی اسی جماعت کے سیکرٹری جنرل۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ تحریر نویس اور اکبر خان ملکانی بھی ایس کیو ایم کا حصہ رہے۔ اکبر ملکانی پارٹی کے چیف آرگنائزر۔ یہ تحریر نویس پہلے پارٹی کا سینئر نائب صدر اور پھر ملتان کٹھ میں پارٹی کے لئے بنائے گئے ادارے قومی رہبری کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے منسلک رہا۔
حمید اصغر شاہین دوسرے سرائیکی قوم پرست رہنماوں کے مقابلہ میں قدرے جارحانہ سیاست کے قائل تھے ان کے نظریات سے اختلاف کرنے اور ان سے الگ ہونے والے دونوں طرح کے لوگ آج بھی ان کے اخلاص، وسیب سے محبت اور وسیب زادوں کے حقوق کے لئے پیرانہ سالی کے باوجود پرعزم جدوجہد کے معترف ہیں۔
قوم پرست سیاست میں اپنے طرزعمل، سخت گیر موقف اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے پر وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں آئے مگر مستقل مزاجی سے ڈٹے رہے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی جماعت کے چند نامور ساتھی اختلاف کرتے ہوئے پارٹی سے الگ ہوگئے۔ اس موڑ پر انہوں نے الگ ہوجانے والے ساتھیوں میں سے بعض کے عقیدوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے چند ایسی باتیں کہیں جن پر بعدازاں ملال کا اظہار کرتے ہوئے سابق ساتھیوں سے معذرت بھی کرلی لیکن اس طرزعمل نے ان کی قوم پرست سیاست اور پارٹی کو نقصان پہنچایا۔
ایک موقع پر وہ سیف اللہ بیقرار اور چند دوست ہی ایس کیو ایم میں رہ گئے۔ مجاہد جتوئی اپنی ادبی مصروفیات میں سیاست کو ترک کرگئے۔ باقی دوست جو ان سے الگ ہوئے انہوں نے نیشنل سرائیکی پارٹی کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا (خیر یہ الگ تجربہ اور داستان ہے)۔ اپنی فہم میں اکل کھرے حمید اصغر شاہین نے جو درست سمجھا اس پر نفع نقصان کی پروا کئے بغیر ڈٹ گئے۔
حمید اصغر شاہین کی وفات کے ساتھ ایس کیو ایم کی سیاست کا باب تقریباً بند ہی ہوگیا۔ سیف اللہ بیقرار بارے کبھی کبھی خبر مل جاتی ہے ان کے پرانے دوست اکبر ملکانی این ایس پی سے الگ ہوئے اور اپنی جماعت بنالی باقی کے دوست جن میں اجمل مسن، لالہ اقبال بلوچ اور چند دیگر شامل ہیں وہ اب ایس ڈی پی کا حصہ ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایس کیو ایم اور خود حمید اصغر شاہین اپنے جارحانہ نظریات اور جدوجہد کے حوالے سے چند برس سرائیکی قوم پرستی کی سیاست پر چھائے رہے۔
دوستوں کو ساتھ لے کر چلنے اور متبادل قیادت تیار کرنے کی ضرورتوں کو انہوں نے بھی نظرانداز کیا اس لئے ان کی وفات کےبعد ایس کیو ایم ماضی کا قصہ ہوئی۔
متوسط طبقے کے سیاسی کارکن نے پیپلزپارٹی سے ایس کیو ایم اور پھر زمین کی گود میں جاسونے تک کا سفر استقامت سے طے کیا۔
بھلے آدمی تھے بس اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے عتابوں، امتحانوں اور تنہائی کا شکار ہوئے۔
سرائیکی قوم پرست سیاست کی تاریخ جب کبھی لکھی جائے گی حمید اصغر شاہین اور ان کی سربراہی والی ایس کیو ایم کے کردار اور جدوجہد کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہوگا۔
حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
انہوں نے سرائیکی وسیب کی قومی شناخت، فیڈریشن میں سرائیکی صوبہ کے قیام کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور ان کے دوست کم اور مخالف ہمیشہ زیادہ ہوئے لیکن دونوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اپنی فہم سے مخلص اور ثابت قدم رہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: