اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مظفر گڑھ، تھل اور نخلستان||رانا محبوب اختر

نواب صاحب کے بعد مصطفے کھر اور جمشید دستی مظفرگڑھ کی زمیں سے پھوٹے ہیں۔دونوں کی قدرِمشترک ان کی وجاہت اور عوامی انداز ہے۔دونوں اچھے مقرر اور جبلت کے آدمی ہیں۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

مظفر خان بہادری اور کوڑے خاں مظفرگڑھ کی فیاضی کے استعارے ہیں

پڑھا لکھا مظفر گڑھ جاگیردارانہ سماج کی موت ہوگا ، اس لئے مقامی سیاستکار جامعات کے مخالف ہیں

مظفر گڑھ جغرافیائی طور پر پاکستان کا دل ہے
نوابزادہ نصراللہ خاں پر مظفرگڑھ فخر کرتا ہے

پیرس کے بانکے اور آوارہ منش شاعر، شارل بادلئیر نے کہا تھا کہ ایک کتاب بیک وقت باغ،گودام،دوست، مشیر، محفل اور نخلستان ہوتی ہے۔مظفر گڑھ کے نوجوان مورخ ، مہذب آدمی اور روشن دماغ افسر، محمد شہزاد کی کتاب، "سرزمین ِمظفر گڑھ "، جنم بھومی کا باغ ہے۔ معلومات کا گودام ہے۔تاریخ کے تھل میں تہزیب کا نخلستان ہے۔نخلستان میں ایک میلہ ہے۔شاعر، لکھاری، استاد،سیاست کار اور افسر شہزاد کی کتاب میں ملتے ہیں۔شہزاد اس میلے کا "مالک”* اور”سگھڑ”قصہ گو ہے!
مظفر گڑھ، تاریخ کی آنکھ کھلنے سے پہلے سندھ اور چناب کا سندھ ساگر دوآب ہے۔ لداخ سے لاڑ تک پھیلی سندھ وادی کا حصہ ہے۔مغر ب میں سندھ اور مشرق میں چناب دریا بہتے ہیں ۔سندھ سے ہند یا انڈیا نے نام پایا اور چندر بھاگا چناب،سوہنی کے حسن سے چن آب ہے۔دو دریاوں کے درمیان تھل ہے جس کا چوڑا دستہ شمال میں اور جنوبی نوک مظفرگڑھ میں پنجند سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔تھل آباد ہوچکا ہے اور دوآبہ زرخیز ہے۔یہ سندھ ساگر دوآب کا آخری ضلع ہے جہاں کے آم ، کجھور، گنا، اناج اور میٹھی سرائیکی زبان غربت کو دوام دینے والی اجناس ہیں۔حسیں کھیتوں میں بھوک اگتی ہے:
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
جانے کیوں ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے
شہزاد مظفرگڑھ کے ایک راجپوت خاندان کا سپوت ہے۔اس کے دماغ کی روشنی اس کے قلم کی روشنائی ہے اور قدرت نے اسے مظفرگڑھ کی تاریخ مرتب کرنے کے لئے منتخب کیا ہے۔وہ مستقبل کو اجالنے کے لئے ماضی کو آواز دیتا ہے۔مظفرگڑھ کا منی انسائیکلوپیڈیا لکھتا ہے۔
مظفر گڑھ کے کئی امتیازات ہیں۔پہلا یہ کہ مظفرگڑھ ضلع کا نام مظفر خان شہید کے نام سے بپتسمہ پاتا ہے۔مظفر خان وسیب کا وہ بہادر ہیرو ہے جس نے سکھ سامراج کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور خاندان سمیت شہید ہو کر ہمیشہ کی زندگی پائی۔حنیف رامے مرحوم نے پنجاب کا مقدمہ لکھا اور رنجیت سنگھ کو ہیرو قرار دیا جبکہ وسیب کے لوگ مظفر خان کو ہیرو مانتے ہیں۔سکھ رول کو بوڑھے لوگ بھگی یا لوٹ مار کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔مظفر خان کی بہادری کے بعد سردار کوڑے خان جتوئی کی فیاضی مظفر گڑھ کا امتیاز ہے۔جن کے وقف سے ہزاورں طالب علم فیض پاتے ہیں۔تیسرا،دین پناہ کا دائرہ ہے جو محبت کی صوفی روایت سے ملائیت کو متوازن کرتا ہے۔صوفیوں کے مزار محبت کے مینار ہیں ۔چوتھا، نواب زادہ نصراللہ خان ہیں جو جمہوریت کے بابا اور سیاست کے دیدہ ور تھے۔خطابت کے آدمی اور شاندار شاعر تھے۔آج کے سیاستدانوں اور افسروں کو ان کا ایک شعر چتاونی دیتا ہے :
وقت نے دی ہے تمھیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات مسیحا نفسا! آج کی رات
نواب صاحب کے بعد مصطفے کھر اور جمشید دستی مظفرگڑھ کی زمیں سے پھوٹے ہیں۔دونوں کی قدرِمشترک ان کی وجاہت اور عوامی انداز ہے۔دونوں اچھے مقرر اور جبلت کے آدمی ہیں۔مظفرگڑھ کی مٹی کا اعجاز ہے کہ تمام تر لغزشوں کے باوجود دونوں نے شہرت کی دیوی سے فیض پایا ہے۔درویش منش اور مستی میں ہوشیار عبدالقیوم جتوئی، کوڑا خان اور نذر محمد خان جتوئی کے وارث ہیں تو حنا ربانی کھر سفارت کاری کی اٹکل سے مصطفے کھر اور اپنے بابا سے مختلف ہیں ۔مختاراں مائی کوڑے خان کی ہمسائی اور مظفرگڑھ کی روزا پارکس ہیں، جس نے اپنی اہانت کو طاقت میں بدل کر پورے خطے کی عورتوں کے لئے آزادی کے چراغ روشن کئے ہیں۔بچیوں کے لئے ایک سکول بنایا ہے جس میں ان پنچوں کی بچیاں بھی پڑھتی ہیں جنھوں نے اسے سزا سنائی تھی!مختاراں مائی کی کتاب،فرانسیسی سے انگریزی میں In the Name if Honor: A Memoir” ” کے نام سے ترجمہ ہوئی ہے۔یہ کتاب دنیا کی ہر مظلوم عورت کی داستان ہے۔ سوچئے کہ ایک عورت کا اپنا خاندان اس کے بھائی کی محبت کا حساب چکانے کے لئے اپنی بیٹی کے جسم پر مخالف فریق کے ڈیرے پر مذاکرات کرتا تھا۔مصطفے کھر پر تہمینہ درانی کی کتاب” My Feudal Lord” ایک زمانے میں کافی مشہور ہوئی تھی۔یہ دوکتابیں اس دوآبے کی ایک عورت اور ایک مرد کی کہانیاں ہیں، جنھیں پڑھ کر بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔فیوڈل سماج کی عورتیں مختاراں مائی کی طرح مظلوم اور مرد مصطفے کھر کی طرح رنگ رنگیلے ہوتے ہیں!ایک ایسے سماج نے مگر ساری تحدیدات کے باوجود نوابزادہ نصراللہ خاں کو پیدا کیا جو فیوڈل ہونے کے باوجود ذوقِ سلیم اور تاریخ کا شعور رکھتے تھے!مظفرگڑھ کے ایک درویش منش سیاستدان میرے مرحوم دوست ، میاں محسن علی قریشی تھے جن کو صحیح معنوں میں عوامی سیاست کی علامت کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کی جاگیردارانہ سیاست کو سمجھنے اور پلٹنے کے لئے ان کی سیاست کے خصوصی مطالعہ کی ضرورت ہے۔
ادب اور ثقافت کے حوالے سے مظفرگڑھ حدیقتہ الشعراء ہے۔نذر جھنڈیر کی "زبورِمودت”، یتیم جتوئی اور جانباز جتوئی کی کوثر و تسنیم سے دھلی زبان میں مظفرگڑھ کے تھل اور بیٹ سانس لیتے ہیں۔رگ وید رشیوں نے سپت سندھو میں دریاوں کے کنارے لکھے گئے تھے۔رشی کا مطلب کوی یا شاعر ہے۔پٹھانے خاں میں شاعری اور موسیقی کا وہ ملاپ نظر آتا ہے جو مظفرگڑھ کے لوگوں کی genius کا آئینہ دار ہے۔ایک گائیک کے لوک گیت جو جاگیردارانہ سماج کی موت کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ سیت پور کی سیتا سے سہتی کے رنگ پور تک مظفرگرھ محبت،رومان اور شعر و نغمہ میں بولتا ہے۔ ہیر کے قاتل مگر زندہ ہیں کہ پسماندگی، قاتلوں کو زندگی اور سیتا اور ہیر کو موت دیتی ہے۔ضلع میں تعینات رہنے والے کئی سامراجی مزاج رکھنے افسر لوگوں کے رویوں کے مگر شاکی رہتے ہیں۔ کہ ان میں سے کچھ نے اس طالب علم سے گلہ کیا کہ مظفرگڑھ کے لوگ منافق ہوتے ہیں۔شکایتیں کرتے ہیں۔ بندوق بردار شکاریوں کو نہتے شکار سے شکایت ایسی گالیوں کو جنم دیتی ہے!
شہزاد، کوڑے خان جتوئی کا ہمسایہ ہے۔کوڑے خان مظفر گڑھ کا وہ سپوت تھے جن کی فیاضی سے ایک زمانہ فیض پاتا ہے۔ایک مجاہد صفت آدمی اور مظفرگڑھ کے بانی مظفر خان کے ہم نام ، مظفر خان مگسی نے کوڑے خان ٹرسٹ کی جائیداد کو گدھوں سے بچانے کے لئے اپنی عمر لگائی ہے ۔ جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق جائیداد کا انتظام ایک ٹرسٹ کے ذمے ہے اور سیشن جج اور ڈپٹی کمشنر ٹرسٹی ہیں۔ٹرسٹ کے فنڈ میں ایک وقت میں چالیس کروڑ روپے تھے۔یعنی ٹرسٹ ، زمین اور فنڈز موجود ہیں مگر مقامی سیاستدان اور صوبائی حکومت پنتالیس لاکھ لوگوں کے لئے یونیورسٹی قائم کرنے سے ڈرتے ہیں۔کہ پڑھا لکھا مظفرگڑھ جاگیردار دارانہ سماج کی موت ہے!شہزاد نے لکھا ہے کہ مطفر گڑھ میں کوئی چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور عوام ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مرتے ہیں مگر انھیں کوئی سہولت میسر نہیں۔مسافر پچھلے دنوں سندھ گیا تو پتہ چلا کہ اسلام کوٹ، جہاں سندھ کے تھر کول سے بجلی بنتی ہے۔ہر گھر کو سو یونٹ بجلی مفت دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں لوگوں کو کوئی ایسی سہولت میسر نہیں ہے!!
شہزاد کی کتاب میں مظفر گڑھ کے لوگوں کو تاریخی اور ثقافتی شناخت کا زینہ ہے۔ ایک ایسا شاہنامہ ہے جس کی شہریت پر فخر کیا جا سکتا ہے۔فردوسی کے شاہنامے پر ایک نقاد نے کہا تھاکہ ایرانیوں کا کوئی وطن نہیں، وہ شاعری کی سلطنت کے شہری ہیں۔شہزاد کی ” سرزمینِ مظفر گڑھ "مشاہیر اور شاعروں کے ساتھ ہم جیسے لوگوں کو شہریت عطا کرتی ہے۔ایک ایسے دیار کی شہریت دی ہے جو جغرافیائی طور پر پاکستان کا دل ہے۔دعا ہے کہ شہزاد میں چھپے لکھاری کے قلم کی روشنائی سے پاکستان کے ظلم زدہ خطوں میں روشنی ہو!نواب زادہ نصراللہ خان کا شعر شہزاد کی آشفتہ سری کے نام کرتے ہیں:
یہی آشفتہ سری دے گی اسیری سے نجات
سر سلامت ہے تو دیوار بھی دروازہ ہے

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

%d bloggers like this: