اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ کی ململ اور اٹلی کی جینز۔۔۔رانامحبوب اختر

انہوں نے سرائیکی وسیب کی قومی شناخت، فیڈریشن میں سرائیکی صوبہ کے قیام کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور ان کے دوست کم اور مخالف ہمیشہ زیادہ ہوئے لیکن دونوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اپنی فہم سے مخلص اور ثابت قدم رہے۔

رانا محبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سندھ کے سو نام ہیں، ہزار روپ ہیں۔ ہر نام کی اک کہانی ہے۔ ہر روپ کا الگ جلوہ ہے۔ رگ وید میں سندھ کا ایک نام "سواسا” یا خوب صورت کپڑا بنانے والا ملک ہے۔ کہیں یہ "ارناوتی” یا اون پیدا کرنے والا دیش ہے! مصر کے فرعونوں کی حنوط شدہ ممیوں پہ لپٹا کپڑا سندھ وادی کے ملوہے یا ملاح بیچتے تھے۔ سفید سوت ملتان میں نیلا ہوا۔ کاٹن کو کلف اور نیل لگانا سُگھڑ گھروں کا رواج ہے۔سندھی میں قصہ گو کو بھی سُگھڑ کہتے ہیں۔ نیل یا انگریزی کے indigo اور indigenous انڈیا سے ہیں جبکہ انڈیا، انڈس سے ہے۔ شِو کے گلے پر نیلا نشان ہے جسے نیل کنٹھ کہتے ہیں کہ سنسکرت میں نیل blue اور کنٹھ، گلا ہے۔ یہ اساطیر لداخ سے لاڑ تک پھیلے ہوئے ہیں۔رفعت عباس نے سندھ وادی کی قدامت کو شعر کیا ہے:
سنڑدے ہائیں جو پہلے تاں خود ان ملتان بنڑایس
وت کتھاہیں نیل جو بچیا اے اسمان بنڑایس

قیاس ہے کہ سکندر سندھ کی ململ یونان لے گیا تو اسے Sindon یا سندھن نام سے متعارف کرایا کہ سندھن کا ایک مطلب ململ تھا۔ رائیل ایشیاٹک سوسائٹی والے ولیم جونز نے انڈیا کی دریافت پر کہا تھا کہ ہم نے زبانوں کا امریکہ دریافت کر لیا ہے۔ انڈو یورپی زبانوں کی ماں سنسکرت ہے اور آریائی، ایرانی و یورپی زبانوں میں مماثلت موجود ہے۔ ایران اور آئرلینڈ کی جڑ آریہ ہیں۔ ملٹن کے ہاں سندھن کا ذکر ملتا ہے۔
"Wore she not a veil of Sindon”،
کیا اس نے سندھن کی جالی کا نقاب نہیں پہنا تھا! یہ ململ ڈھاکہ پہنچ کر ایسی "ملوک” ہوئی کہ ململ کا تھان انگوٹھی میں سے گزر جاتا تھا۔ فن کمال پہ پہنچا تو سامراج فنکاروں کے انگوٹھے کاٹنے آ پہنچا تھا کہ اسے مانچسٹر کی ملوں کا کپڑا بیچنا تھا۔ 1873ء میں اٹلی کے شہر Genoa میں سوتی دھاری دار کپڑا (corduroy) اور نیلی جینز کی صورت مزدوروں کا لباس بنا اور رفتہ رفتہ پورے گلوب پر عامی سے اشرافیہ تک سب جینز پہننے لگے۔ مارلن برانڈو اور جیمز ڈین نے 1950 سے شروع ہونے والی دہائی کی ہالی وڈ فلموں میں جینز پہنیں تو یہ پینٹ باغیوں اور انقلابیوں کا پسندیدہ ملبوس بن گئی۔ سندھ وادی کے راج مزدور اور راجے کا قدیم کاٹن اب دنیا بھر کے مزدور، باغی اور بانکے پہنتے ہیں۔ بھادوں کی ایک شام سندھ حیدر آباد کی تِلک چاڑھی پر ایک یاتری نے نیلی جینز کی صورت صدیاں اوڑھ رکھی تھیں۔

کاٹن سندھ کا لباس تھا تو تِل اور جَو اناج تھے۔ سندھی کا تَر سنسکرت کے تِل سے آیا معلوم پڑتا ہے۔ تَر کا مطلب چکنائی والا ہے اور لفظ تیل بھی تِل سے نکلا ہے۔ تِلک، پیشانی پہ تِل برابر سیندور کا نشان ہے اور اس کے معنی چھوٹے تِل کے ہیں۔ سندھ کی سسیوں، سوہنییوں، مارویوں اور رانیوں کے ماتھے پر تِل برابر نشان کو تِلک کہتے ہیں۔ پھر کہیں جا کر کالا تِل دولتِ حسن کا دربان ہوتا ہے۔ حافظ شیرازی نے تِل پر عجب شعر کہا:
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ما را
بخالِ ہندو اش بخشم سمر قند و بخارا را

حافظ محبوب کے تِل پر سمرقند و بخارا قربان کرتے تھے۔ امیر تیمور ظالم تھا مگر شعراء کا قدردان بھی تھا۔ یہ شعر سن کر اس نے حافظ کو بلایا اور کہا میں نے سمرقند و بخارا فتح کرنے کے لئے ہزاروں جانیں قربان کر دیں اور تم اپنے محبوب کے گال کے ایک تِل پر یہ سب بخش رہے ہو۔ حافظ نے برجستہ کہا کہ یا امیر انہی فضول خرچیوں کی وجہ سے ہی تو سے یہ حال ہے!”… ہمارے پاوں میں سفر کا ایک پیدائشی تِل ہے اور کوئی تدبیر مانعِ دشت نورودی نہیں۔ فرید رح کی روہی کے آبلہ پا کو تھر کی مسافت درپیش ہے!
تِلک چاڑھی حیدر آباد کا ماتھا ہے جس پر ”سندھی ادبی بورڈ” کا تِلک لگا ہے۔ 1940 کی بات ہے۔ جی ایم سید تعلیم کے صوبائی وزیر تھے۔ تو سندھ کی تاریخ کی حفاظت اور سندھی ادب اور ثقافت کے فروغ کے لئے ایک مرکزی بورڈ بنایا گیا۔ سید میراں شاہ پہلے چیئرمین اور علامہ آئی آئی قاضی، علی محمد راشدی، ڈاکٹر عمر داودپوتہ، بھیرو مل مہرچند، ڈاکٹر گربخشانی، مولانا دین محمد وفائی اور عثمان علی انصاری جیسے کوئی پندرہ دیدہ ور بورڈ کے رکن تھے۔ تخلیقِ پاکستان کے بعد تنظیمِ نو ہوئی تو سید میراں شاہ چیئرمین، ڈاکٹر عمر داودپوتہ وائس چیئرمین اور عثمان علی انصاری سیکرٹری بنائے گئے۔ 1951ء میں مرکزی مشاورتی بورڈ ختم کر کے سندھی ادبی بورڈ کے نام سے تشکیلِ نو ہوئی اور بورڈ کا نیا آئین بنایا گیا۔ ایوب کھوڑو پہلے چیئرمین تھے۔ مخدوم طالب المولی جیسے سیاستدان اور ادیب بورڈ کے چئیرمین رہے اور اب ان کے فرزند مخدوم سعیدالزماں بورڈ کے سربراہ ہیں۔ سندھ کے لئے دوسری گراں قدر خدمات کے علاوہ بورڑ نے سندھی، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں پانچ سو سے زیادہ مستند کتابیں چھاپی ہیں۔ سب زبانوں کی خوب صورتی پر یقین بورڈ کی پالیسی کا حصہ ہے۔ پابلو نرودا نے بہت بعد میں کہا تھا کہ زمین ہزار رنگوں کا باغ ہے۔ خدا کی زمین پر قومیں اور زبانیں رنگ برنگے پھولوں کی طرح کھلتے ہیں۔ سندھ وادی کو یہ راز صدیوں سے معلوم تھا کہ قوم اور زبان سے نفرت انسان سے نفرت ہے۔ "سندھی ادبی بورڈ” سے جی بھر کے کتابیں لیں کہ سندھ کی قدامت اور حسن کو کھوجیں اور نظر کی یاترا ہو۔ ایک بات کا اندیشہ ہوا کہ بورڈ کے ارکان اب کتاب گھر نہیں آتے کہ تِلک چاڑھی پر کتاب نگر کے سامنے بہت سا کچرا تھا جو کتاب پڑھنے والوں کو دوکان جانے سے روکتا تھا۔ غلام شاہ کلہوڑا نے 1768 حیدر آباد، حیدرِ کرار کے نام سے آباد کیا تھا۔ آج حیدر آباد کے کسی حیدر کے بازو میں شہر کو صاف رکھنے کی طاقت نہ تھی۔ تِلک چاڑھی کے قریب نانک پنتھیوں کا گرودوارہ اور چرچ نہ دیکھ سکنے کی ہوس باقی ہے۔ یہ بھادوں کی ایک سندر شام تھی۔ ٹھنڈی ہوا چلتی تھی مگر اس میں شراب کی تاثیر نہ تھی۔ ہم نے باد پیمائی کی تھی۔ تِلک چاڑھی سے حیدر چوک اور ریشم گلی کا پھیرا لگا کر ہم حاجی کی مشہور ربڑی کھانے گئے۔ اس سے پہلے ہم تِلک چاڑھی پر کوزی حلیم کھا چکے تھے۔ حلیم کو اچھے نمبروں اور ربڑی کو رعایتی نمبر دے کر پاس کیا۔ یہ ایک سیاح نہیں، یاتری کی گواہی تھی جو سندھ کی زیارت کو بار بار پلٹتا ہے۔ ہمدمِ دیرینہ اور پروبھرے ایک شہر کا شاعر، رفعت عباس ساتھ تھا۔ شہر میں یاتری کو رات بھر ٹھہرنا تھا! مظفر نظام اور بشیر خان کی میزبانی نے سفر کے قیام کی تھکن دور کر دی تھی کہ روشن دماغ دوست سفر میں سایہ دار شجر ہوتے ہیں! کچھ دیر میں ڈاکٹر اسحاق سمیجو اور علی دوست عاجز آئے تھے۔ دونوں خوب صورت شاعر ہیں۔ہند کے مقدس وید رشیوں نے لکھے تھے۔ دریاوں کے کنارے بسے وید لکھنے والے رشیوں کو کَوِی یا شاعر کہا جاتا تھا۔ سندھ کنارے آباد حیدرآباد شہر کے وسط میں یاتری شاعروں میں گھرا مہابھارت کے ویاس جی اور رامائن کے والمیکی کا سوچتا تھا۔ جنھوں نے جنگ کو ایسا معتبر کیا کہ سلامتی اور اسلام کے نام پر بنے پاکستان کے بڑے اخبار کا نام ہمارے ہاں "جنگ” ہے۔ ثقافتی جبر نے جنگ اور قتلِ عام کو عزت اور عظمت سے وابستہ کر کے معتبر کر دیا ہے ! ہمارے شاعر، ویاس جی اور والمیکی سے مختلف ہیں، روشن دماغ ہیں اور وہ جنگ کے نہیں، امن کے گیت لکھتے ہیں۔ خوشبو جیسے لوگ محبت کے شاعر ہیں۔رفعت عباس، اسحق سمیجو اور علی دوست مہابھارت کے دھارمک جنگی پیراڈائم کی بجائے انسانیت اور امن کے شاعر ہیں۔ کچہری ختم ہوئی اور ہم نے سونے سے پہلے بستر پر کتابیں بکھیر کر ان کی ورق گردانی شروع کر دی جیسے صبح تک ہمیں کتابوں کے کھو جانے کا خطرہ ہو۔ پیاری چیزوں کے کھو جانے کا دھڑکا رہتا ہے کہ میں پیاروں کو ملکیت سمجھ کر ان کی حفاظت نہیں کرتا اور آزادی سے خوف آتا ہے! نیند سے پہلے علامہ اقبال رح کا شعر ذہن کے افق پر blink کرتا تھا:

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے
قانھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے

روزنامہ خبریں
18 ستمبر، 2020

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: