مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی قومی تحریک کا نیا موڑ(آخری قسط)۔۔۔حیدر جاوید سید

چند برس قوم پرستی کی عملی سیاست میں بسر کئے۔ ان برسوں میں وسیب زادوں نے بے پناہ محبت سے نوازا اور کچھ مہربانوں نے میری والدہ مرحومہ اور بہنوں تک کو معاف نہ کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض ہے، وسیب زادوں کے حقوق اور قومی شناخت کے حامل صوبہ کے قیام کے لئے جدوجہد میں حصہ ڈالیئے یا ذاتی نفرتوں، عداوتوں کے قصے لے کر بیٹھے رہیئے فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔
ہمارے دوست حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ نے دو سلگتے ہوئے پیغام تحریر کئے۔ جواب ان کی خدمت میں عرض کرچکا۔ تحریر نویس بنیادی طورپر قلم مزدور ہے یہی حصول رزق کا وسیلہ بھی ہے۔
چند برس قوم پرستی کی عملی سیاست میں بسر کئے۔ ان برسوں میں وسیب زادوں نے بے پناہ محبت سے نوازا اور کچھ مہربانوں نے میری والدہ مرحومہ اور بہنوں تک کو معاف نہ کیا۔
یہاں تک کہ سرائیکی قومی سیاست پر محمد عامر حسینی نے ایک کالم لکھا تو انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا۔
زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے دو طریقے ہیں۔ اولاً یہ کہ قوم اور وسیب کے لئے سب کچھ بھلادیا جائے۔
دوسرا یہی کہ زخموں کو کھرچتے رہیں۔
مجھے پہلا طریقہ اچھا لگا اس لئے زخموں کو کھرچتے رہنے کی بجائے اپنی بساط کے مطابق قلم کے ذریعے وسیب کی خدمت کرتا ہوں۔
ہم اور آپ (یہاں آپ سےمراد پورا وسیب ہے) نے وسیب کی خدمت کے لئے جان جوکھم میں ڈالی۔ باتیں طعنے اور گالیاں سنیں۔ وقت گزرگیا، دوستوں کو بھی برادرانہ مشورہ یہی ہے کہ بھول جایئے ماضی کے ستموں اور بدزبانیوں کو۔ ابھی بہت کام پڑا ہے۔
سرائیکی قومی تحریک کو آپ کی ضرورت ہے اپنی اپنی جگہ کام کرتے رہیں ناراض اور مایوس ہوکر تنہائی کو خود پر مسلط نہ کیجئے، میں یہی عرض کرسکتا ہوں۔
ہم آگے بڑھتے ہیں۔ پچھلے تین کالموں پر وسیب بھر سے موصول ہونے والے پیغامات میں تحسین اور محبت بھی ہے اختلاف اور تنقید بھی۔
ہمیشہ عرض کیا اختلاف ہو تو مکالمہ کیجئے۔ اب بھی یہی عرض کروں گا کہ مکالمہ کیجئے اور یہ دروازہ بند کرکے بیٹھ جانے سے کہیں بہتر ہے۔
سرائیکی تحریک کی نصف صدی میں انگنت دوستوں نے اپنی اپنی بساط سے بڑھ کر اس میں حصہ لیا۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کی خدمات کا اعتراف کریں۔ دو تین دن ادھر برادرم انجینئر شاہنوازخان مشوری کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ سوجھل دھرتی واس کے سالانہ کنونشن کے موقع پر ایک سیشن ان مرحوم سیاسی قائدین، ادیبوں، دانشوروں، سیاسی کارکنوں اور سماج سدھاروں کے لئے مختص کیجئے۔
ہمیں اپنے مرحوم بزرگوں اور دوستوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق، عمر کمال خان ایڈووکیٹ، سید زمان جعفری، مولانا نور احمد خان فریدی۔ مرید حسین خان رازجتوئی، تاج محمد خان لنگاہ، حمید اصغر شاہین، سید حسن رضا بخاری، صوفی تاج محمد خان گوپانگ، شمیم عارف قریشی، سرائیکی صوبہ محاذ کے بانیوں ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ اور سیٹھ عبیدالرحمن کے علاوہ منیر احمد دھریجہ،عمر علی خان بلوچ، منظور بوہڑ، ریاض احمد خان کورائی اور دوسرے بہت سارے بزرگ اور دوست جو پچھلی نصف صدی میں تحریک کا چہرہ بنے جدوجہد کی اور دنیا سرائے سے وقت مقررہ پر رخصت ہوئے۔
اگر سوجھل دھرتی واس کی سالانہ کانفرنس کے ایک سیشن میں انہیں یاد کرلیاجائے، ان کی خدمات کا تذکرہ کیا جائے تو وسیب کی نئی نسل کی تاریخی و شعوری رہنمائی ہوگی۔
سرائیکی قومی تحریک میں سرگرم عمل جماعتوں کو اپنی اپنی جماعتوں میں کارکنوں کی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اسی طرح وسیب بھرمیں سرگرم ادبی و سماجی تنظیمیں اگر کوشش کریں تو اپنے اپنے ہاں ایک یاد دو ماہ بعد ایک تقریب کا اہتمام کریں اور سرائیکی دانش کے کسی نمائندے کو بلاکر ان سے قومی شعور، تاریخ اور سیاسی جدوجہد پر گفتگو کروائیں، سوال و جواب کا سیشن ہو۔ ایسی تقاریب سے بھی نئی نسل قوم پرست سیاسی کارکنوں اور دوسرے دوستوں کی تربیت ہوسکتی ہے۔
امریکہ میں مقیم دوست عبید خواجہ کی خدمت میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ نوجوانوں کی تربیت کے لئے ادارہ قائم کرنے کے اپنے منصوبے کو اب عملی شکل دینے کے لئے قدم اٹھائیں تاکہ ادھورے خوابوں کی تعبیر حاصل کی جاسکے۔
اسی طرح وسیب میں موجود سرائیکی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں تربیتی پروگراموں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ سیاسی تربیت کے بغیر نتائج کا حصول زیادہ مشکل ہوگا۔
یہ عرض کردوں کہ ہم سب کے لئے اولین ترجیح سرائیکی وسیب قومی شناخت پر مبنی صوبہ اور وسیب زادوں کے حقوق ہیں۔
تمام دوستوں کو بھرپور انداز میں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے۔ وسیب میں مقیم آبادی دوسرے طبقات سے بہترین سیاسی و سماجی روابط استوار ہوں تاکہ سبھی مل کر اپنے حقیقی دشمن کے خلاف جدوجہد کرسکیں۔
یہ بجا ہے کہ سیاسی جدوجہد ہو یا تربیتی پروگراموں کا انعقاد، ہر دو کے لئے وسائل درکار ہوں گے۔ قومی شعور پر مبنی تحریکوںکو ہمیشہ وسائل کے مسائل لاحق ہوئے بلاشبہ یہ سرائیکی تحریک کے ساتھ بھی ہیں مگر ہمارے سامنے متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں کہ دوستوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بے سروسامانی کے باوجود پرعزم جدوجہد کی۔
لیاقت پور کے لالہ اقبال بلوچ اور اظہر بلوچ زندہ مثال ہیں۔ سفید پوش طبقے کے ان قوم پرست کارکنوں نے وسیب کو کبھی مایوس نہیں کیا۔
آخری بات، گو یہ پچھلے تین کالموں میں عرض کرچکا ہوں پھر بھی بارِدیگر توجہ دلانا ضروری ہے کہ اختلافات اور دیگر معاملات کو الگ سے اٹھارکھیئے۔ وسیب کو آپ جیسے فعال دوستوں کی ضرورت ہے۔ تجربات کی تلخیاں اپنی جگہ لیکن اس مشکل وقت میں وسیب آپ کی طرف دیکھ رہا ہے اسے مایوس نہ کیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: