مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی قومی تحریک کا نیا موڑ(3)۔۔۔حیدر جاوید سید

مکرر عرض ہے اس وقت جب وفاق گیری کی بھیانک شکل سب پر عیاں ہے تو کم از کم قوم پرستوں اور خصوصاً سرائیکی قوم پرستوں کو ازسرنو صف بندی کرنا ہوگی۔ حالات مشترکہ جدوجہد کے متقاضی ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نصف صدی سے زائد کا سفر طے کرکے سرائیکی قومی تحریک آج جہاں ہے اس موڑ پر یقیناً گزرے ماہ و سال کے سفر، معاملات اور دیگر امور کے تجزیہ کی ضرورت ہے۔ فرد، طبقہ یا قومیں خوداحتسابی سے سیکھتے ہیں۔ یہ دیکھا جانا ہوگاکہ یہاں تک کے سفرمیں کہاں کس سے غلطی ہوئی اور کیا اصلاح احوال کےلئے سنجیدہ کوشش ہوئی یا نہیں۔
انٹرنیشنل سرائیکی کانگریس کے امریکہ میں مقیم سربراہ اور ہمارے عزیز دوست عبید خواجہ نے کالم کی پہلی قط کی اشاعت پر سرائیکی قومی رابطہ کمیٹی کے قیام اور پھراس کی ناکامی کی وجوہات پر سوال اٹھایا۔ ان کا سوال یا یوں کہہ لیجئے کہ سوالات سوفیصد درست ہیں۔
سرائیکی قومی رابطہ کمیٹی کا قیام بھی اسی جذبہ کی مرہون منت تھاکہ سب مل کر متحد ہوکر کام کریں ایک فیصلہ سازادارہ دوستوں کی رہنمائی کرے۔ یہ تجربہ ناکام کیوں ہوا؟ میری دانست میں منفی و مثبت انفرادی جذبات تو تھے مگر سیاسی جماعتوں اور دوسری تنظیموں نے اس کے وجود کو اپنی آزادی کے خلاف سمجھا۔
اچھا یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا غالباً سال 2003ء میں ملتان کے سندباد ہوٹل میں پہلی بار سیاسی و غیرسیاسی 40 تنظیموں نے مل کر سرائیکی قومی رابطہ کونسل قائم تھی مرحوم صوفی تاج محمد خان گوپانگ اس کے چیف آگرنائزر منتخب ہوئے۔ یہ تحریر نویس جنرل سیکرٹری اور ارشاد امین کوآرڈی نیٹر تھے۔
یہ اتحاد مشکل سے سال بھر کا سفر طے کرسکا بہت سارے زندہ اورکچھ اب مرحوم دوستوں کو اتحاد کے عہدیداروں کی شکلیں پسند نہیں تھیں۔ کچھ وہ لوگ تھے جو عہدہ نہ ملنے پر ناراض ہوئے۔ دونوں طرح کے دوستوں کی ذاتی انا اس اتحاد کو کھاگئی۔
ہم نے وقت سے یہی سیکھا کہ کام کرتے اور آگے بڑھتے رہناچاہیے کسی کام یا مرحلہ پر ہوئی ناکامی کا بوجھ لے کر بیٹھ جانا یا مستقل ’’کُٹی‘‘ کرکے بیٹھ جانے سے نقصان تحریک کو پہنچے گا یہی وہ سوچ تھی جس نے بالآخر سرائیکی قومی رابطہ کونسل کو تحلیل کروانے کے ذمہ دار دوستوں کو اگلے برسوں میں معذرت پر مجبور کردیا۔
2018ء میں بننے والی سرائیکی قومی رابطہ کمیٹی وسیع تر اتفاق رائے کے باوجود ناکام کیوں ہوئی۔ یا یہ کہ اسے ناکام بنوانے والوں کے مقاصد کیا تھااب صرف ان لکیروں کو پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
سیاسی اختلافات یا بعض دیگر امورپر مختلف آراء ہر دو کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کافائدہ کوئی نہیں۔ پچھلے دو تین دنوں سے دوستوں اور عزیزوں کی خدمت میں یہی عرض کررہاہوں کہ آیئے ماضی کو بھول کر آگے بڑھتے ہیں۔
ماضی میں چند مہربانوں نے بدترین زبان استعمال کی مگر کیا ذاتی انااہم ہے کہ قومی مفاد؟
مجھ ناچیز کی رائے میں قومی مفاد اہم ہیں۔
یہی درخواست مختلف وجوہات کی بناپر مختلف دوستوں سے شدید ناراض احباب سے بھی ہے۔ یہ وقت ذاتی غصہ نکالنے کانہیں قومی تحریک کو آگے بڑھانے کا ہے جو بھی اس وقت غصے اور نفرت کو دفن کرکے آگے بڑھے گا وہ وسیب زادہ ہونے کا حق ادا کرے گا۔
اچھا اگر آپ یا میں کسی سے ذاتی مراسم نہیں رکھنا چاہتے تو نہ رکھیں کوئی زور زبردستی نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ہمارا فرض کیا ہے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ ہر وسیب زادے کا فرض یہ ہے کہ وہ قومی تحریک میں اپنے حصہ کا کام کرے۔ جو گزر گیا وہ ماضی ہے جو ہے وہ حال ہے اور ہمیں مستقبل کے لئے پرعزم جدوجہد کرناہے اس کے لئے اتحاد، احترام، برداشت لازمی ہے۔ یقیناً حقائق بہت تلخ ہیں اس سے تلخ ماضی کے تجربات اوربعض دوستوں کے رویے مگر کیا کریں اس ناکامی، کج اور تلخی پر لاٹھیاں برساتے رہیں؟
میرا جواب نفی میں ہے۔ مناسب ترین عمل یہ ہے کہ درگزر کے جذبہ کا مظاہرہ کیا جائے۔ جو وقت گزرگیا وہ پلٹنے کا نہیں جو ہے اسے بہتر بنانے اور اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے میں پہل کرنے کی ضرورت ہے۔
سرائیکی تحریک باہمی لڑائیوں، نفرتوں اور عداوتوں کی متحمل نہیں ہوسکتی فی الوقت ضرورت یہ ے کہ تخت لاہور کے ایجنٹوں اور سازشی ٹولے سے تحریک کو بچایا جائے اور یہ کہ الزامات سے رزق پانے والوں اور ان کے آقائوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔
تقسیم پہلے ہی بہت ہے اس تقسیم کو ختم کرنے اور سیاسی و سماجی وحدت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے یہ اسی طور ممکن ہے جب ہر شخص ماضی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ بھول جانے کی قربانی دے۔ ہم لڑتے رہے تو دشمنوں کا مقصد پوراہوگا۔
سرائیکی قومی تحریک کے دشمن تو چاہتے ہیں کہ ہم لڑتے مرتے رہیں اور ان کا تام جھام چلتا رہے۔
موجودہ حالات میں کامل عصری شعور کے ساتھ اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بہت احترام کے ساتھ عرض کروں کل کسی کے یا خود میرے سانحہ ارتحال کے بعد نماز جنازہ میں معاف کرنے سے بہتر ہے کہ زندہ دوستوں کی غلطیوں کو معاف کرکے انہیں سینوں سے لگایا جائے
اس عفورودرگزر کا فائدہ قومی تحریک کو ہوگا۔
وسیب کے لوگوں کو قوم پرستوں سے بھی امیدیں ہیں اور اہل دانش سے بھی، دونوں قومی سرمایہ ہیں۔
مکرر عرض ہے اس وقت جب وفاق گیری کی بھیانک شکل سب پر عیاں ہے تو کم از کم قوم پرستوں اور خصوصاً سرائیکی قوم پرستوں کو ازسرنو صف بندی کرنا ہوگی۔ حالات مشترکہ جدوجہد کے متقاضی ہیں۔
وقت کے تقاضوں کو نظرانداز کردیاگیا تو تاریخ نہیں تاریخ کا کوڑے دان مقدر ہوگا، یہی تلخ حقیقت ہے، ہم نیک و بد سمجھائے دیتے ہیں۔
(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: