اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"شجرہ نسب لکھنے کی ضرورت نہیں رہی”۔۔۔خضرجسکانی

اگرچہ سائنسدان ابھی تک ڈی این اے کو مکمل طور پر ڈی کوڈ (Decode) کرنے میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن اب تک ناقابل یقین حد تک معلومات حاصل کر چکے ہیں۔

خضرجسکانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بلوچ اور چند دیگر قبائل میں اپنا شجرہ نسب لکھ کر رکھنے کی بہت اہمیت ہے۔ کچھ دنوں پہلے مجھے ایک مہربان نے میرے جسکانی(بلوچ) قبیلے کا لکھا ہوا شجرہ نسب عنایت فرمایا جو بلوچ قبیلے کی ابتداء سے میرے داد ابو تک پہنچتا تھا۔ لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں بھی شجرہ نسب لکھنے کی ضرورت موجود ہے؟
سائنس کہتی ہے کہ ہمارا ڈی این اے(DNA) صرف ایک مائیکرو آرگن ہی نہیں، بلکہ یہ انسان کی زندگی کی مکمل کتاب (Book of life) ہے یا اسے آپ میموری چِپ (Memory Chip) کی طرح بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ پیدائش سے موت تک جو کچھ بھی کرتے ہیں، وہ اس میں محفوظ (Save) ہوتا جاتا ہے۔
ڈی این اے نا صرف ہماری معلومات محفوظ کرتا ہے بلکہ یہ اپنے اندر، آپ کے وہ والدین جو لاکھوں سال پہلے گزر چکے ہیں، ان کے بارے میں بھی معلومات محفوظ رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ حال ہی میں نیشنل جیوگرافک کے سائنسدانوں نے ایسا ٹیسٹ متعارف کرایا، جس سے وہ آپ کے ڈی این اے سے دو قسم کی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔
پہلی تو یہ کہ پچھلے دو لاکھ سال سے لے کر اب تک آپ کے جتنے بھی والدین گزر چکے، انکا سفری نقشہ (Travel History) اس ڈی این اے میں محفوظ ہوتا ہے کہ آپ کے اجداد کن کن علاقوں اور براعظموں میں رہتے رہے اور کہاں سے ہوتے ہوئے یہ لڑی آپ تک پہنچی۔
دوسرا یہ کہ آپ کے اندر کن کن براعظموں کا خون شامل ہے۔
مثلاً آپ کتنے فیصد ایشیئن ہیں، کتنے فیصد عرب ہیں، کتنے فیصد یورپی ہیں، کتنے فیصد امریکی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اگرچہ سائنسدان ابھی تک ڈی این اے کو مکمل طور پر ڈی کوڈ (Decode) کرنے میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن اب تک ناقابل یقین حد تک معلومات حاصل کر چکے ہیں۔

علم مسلسل آگے کی طرف اپنا سفر کر رہا ہے، کائنات کی پرتیں کُھلتی چلی جا رہی ہیں۔ دیکھیے یہ سلسلہ کہاں تک پہنچتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: