اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عورت اور سرائیکی وسیب ۔۔۔عامر درانی

ہم وسیب زادے اب اس شعور میں داخل ہورہے ہیں کہ ہم عورت کو اپنے برابر سمجھیں، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عورت کو برابر سمجھا جاتا ہے اور اسے ایک مرد کی طرح یکساں ہر جگہ موقع دیا جاتا ہے

عامر درانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ کی نسبت شاعری زیادہ فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے زیادہ توجہ چاہتی ہے، تاریخ لکھنے لیے وسیع مطالعہ چاہیے لیکن اگر آپ شاعری کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک نرم دل، بہترین لہجہ، اچھے الفاظ کا چناو، گراٸمر سے پہچان کے ساتھ عمومی مطالعہ لازمی ہے.
ایڈوینس کے مطابق” شاعری وہ محبوبہ ہے جو رات گٸے کالا لباس پہن کر شاعر سے ملنے آتی ہے” شاعر عموماً عوام کی نبض سمجھا جاتا ہے لیکن اگر شاعر تاریخ یا ادب کا طالب علم رہ چُکا ہو تو دوسرے شعراء کی نسبت الگ شناخت کی حامل شاعری کرتا ہے.
ڈیرہ غازی خان کی سرزمین علم و ادب کے حوالے سے ہمارا ایک معتبر حوالہ ہے، تاریخ شاہد ہے جس دھرتی پہ حملہ آوروں نے قبضے کیے، لوگوں کو غلام بنایا، اسی دھرتی کے لوگوں نے اپنی فصاحت اور بلاغت کی بنیاد پہ حملہ آور کا علمی مقابلہ کیا، دیرہ غازی خان شاعری اور نثر کے حوالے سے بہت مشہور ہے اور خاص طور پہ سرائيکی شاعری کے حوالے سے جتنی عزت اور مقام دیرہ کے حصہ میں آیا شاید کسی اور سرائيکی ضلع کے حصے میں آیا ہا، نور مُحَمَّد ساٸل، محسن نقوی، احمد خان طارق، عزیز شاہد، اقبال سوکڑی ، مُصطفی خادم، سرور کربلاٸی، فضل عباس ظفر، محبوب تابش، احسن واہگا ، غلام مُحَمَّد شاکر تونسوی، منظر تونسوی، شاہد تونسوی، بشیر غمخوار، فدا حسین جعفری، ریاض عصمت، عبدالرشید اشتر، عابد بلال، رمضان طالب، اور امجد بلوچ جیسے معتبر نام اس ضلع کی علمی روشنی کا ثبوت ہیں.
آج کل اسی ضلع کی رہاٸشی اور سرائيکی اردو کی شاعرہ صباحت عروج کی شاعری کا چرچا زبان زدہِ عام ہے.
روایتی سُستی کی وجہ سے میں اکثر و بیشتر شاعری پہ تنقید یا نثری ادب پہ راٸے دینے سے قاصر رہتا ہوں، دوست اور میں خود اکثر سستی کی وجہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ میری کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے کہ میں کچھ لکھ نہیں پاتا،
سرائيکی وسیب اور ایشیاٸی ممالک کے ساتھ عرب دنیا میں بھی عورت کو نصف اور ادھورا سمجھا جاتا ہے، برصغیر میں بھی یہی رواج ہے کہ مرد حاکم اور عورت محکوم ہی سمجھی جاتی ہے. اور یہاں تک کے بہت سے مذاہب بھی عورت کے احترام کے قاٸل نہیں،
ہندوازم ایک بڑا مذہب ہے، مگر آریاٶں کے اس مذہب میں یہ ستم عجیب ہے کہ ویدوں میں سندھ وادی کے زمین زاد کی گاٸے، گاٶ ماتا ہے لیکن عورت داسی ہے اور مرد راکشس ہے.
سرائيکی وسیب کی شاعری کا موازنہ دنیا کی بہترین شاعری سے کیا جاسکتا ہے، ہماری شاعری سماجی تاریخ سے ماورا ہمارے وسیب کے انسان کی تاریخ ہے.
گارشیا لورکا نے کہا تھا” شاعر فلسفے کی نسبت موت، ذہانت کی بجاٸے درد اور قلم کی سیاہی کی جگہ خون کی روشناٸی کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اسکی بات فلسفی کی بات سے زیادہ مستند ہوتی ہے.
شیلی (Shelley) شاعروں کو غیر تسلیم شدہ قانون ساز کہتا ہے اسی طرح عرب شاعر کو مجنوں کہتے تھے.
لیکن میرے خیال میں شاعر بناوٹ سے زیادہ اندرونی کیفیت بیان کرتا ہے،، جس طرح کے شاعر کے حالاتِ زندگی ہونگے اسی طرح اسکی شاعری ہوگی،
بقول میر:
؂ ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کٸے جمع تو دیوان کیا
سرائيکی وسیب میں عورتوں کے لیے وہی احترام ہے جو دنیا میں دوسری جگہ ہے، ہم نے آج تک عورت کو صرف ایک جنس (Gender) ہی سمجھا ہے، ہمارا معاشرہ چونکہ شروع سے ہی پدر سری نظام کا ہے اس لیے ہمیں عورت کسی صورت قبول نہیں، بےنظیر سے لیکر ملالہ تک ہماری سوچ کی عکاس ہیں کہ ہم کیا نظریہ رکھتے ہیں عورت کی ذات بارے.ہم نے عورتوں کو قتل کیا، کنیز بنایا یا ونی کیا ہے اور اسکی وجہ پدر سری نظام ہے جس میں مرد ایک آمر کا کردار ادا کرتا ہے.
شیکسپٸیر جیسا عظیم بندہ بھی عورت کو کمزوری کہتا ہے لیکن وہیں ایک ہندوستانی شاعر کہتا ہے کہ:
؂ تریا میں گن تین ہیں، اوگن لکھ ہزار
منگل گاوے، مل رچے، کوکھن اَنچن لال
ہم وسیب زادے اب اس شعور میں داخل ہورہے ہیں کہ ہم عورت کو اپنے برابر سمجھیں، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عورت کو برابر سمجھا جاتا ہے اور اسے ایک مرد کی طرح یکساں ہر جگہ موقع دیا جاتا ہے، جیسے مرد نوکری کرتے ہیں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکل ویسے ہی عورت کو آگے بڑھنے کے برابر حقوق حاصل ہیں. صباحت عروج ہمارے وسیب کی عزت اور شان ہے، اسی طرح رضوانہ درانی، شیما سیال، بنتِ احمدانی، اقبال بانو، بہارالنساء بہار، شاہین دیروی، سحر سیال، شبنم شاکر، ساجدہ راحت، سعیدہ افضل، زہرہ انجم، طاہرہ سوز، نسیم بلوچ، نسیم رُخسار، ناہید اعجاز، شکیلہ خان، عابدہ ملتانی، خوشنود جھنگوی، شہناز رازش، زبیدہ زید، افشاں رانا، شگفتہ الطاف، گل صنوبر، صاٸمہ چوہان، رابعہ خان، صاٸمہ خان، پروین عزیز، فرحت نواز، نوشی گیلانی، صفیہ ملک اور کومل جوٸیہ یہ سب ہماری دھرتی کا مان ہیں،
اب ہمیں "میل شاونزم” سے نکلنا ہوگا، یہ ایک طرح کی آمریت ہے، اور اب دنیا اور پڑھا لکھا سماج اس سے تنگ ہے، اب صنفی امتیاز ختم ہوچکا ہے، یہ انٹرنیٹ اور ساٸنس کا دور ہے، اب ملاٸیت نہیں چلنی، ہمیں روشن کل کی طرف جانا ہے. اب ہیر خود رانجھا بن گٸی ہے، اب ہمیں قیدو کی ضرورت نہیں، سماج اب قیدو کے نظریات کے خلاف ہوچکا ہے، ہمیں نہ ونی چاہیے نہ کالا کالی کا نظام چاہیے، اب بھاٸی کے جُرم کی سزا بہن کو نہیں ملنی چاہیے، اب ہمیں اپنی نسل کی بقاء کی جنگ لڑنی ہے، ہمیں برابری چاہیے ہر جگہ ہر معاملے میں تبھی ہمارا وسیب اور ہمارا سماج آگے بڑھے گا.
صباحت عروج نے ہمت کرکے پڑھاٸی کی ہے اور شاعری بھی کرتی ہیں. اب ہمارے وسیب پہ منحصر ہے کہ اسکی عزت و تکریم کرکے آنے والی لڑکیوں کے لیے راہ ہموار کریں کیونکہ صباحت جیسی لڑکیاں ہمارا روشن کل ہیں. سرائيکی شاعری میں "تریمتی شاعری” بہت کم ملتی ہے چند ایک خواتین ہیں جنہوں نے سرائيکی میں شاعری کی. صباحت عروج زیادہ تر اردو شاعری کرتی ہیں لیکن سرائيکی شاعری پہ بھی کافی کام کررہی ہیں، اللہ نہ کرے کہ یہ بھی محسن نقوی کی طرح ماں بولی چھوڑ کر اردو کی ہوکر رہ جاٸیں، صباحت عروج نے ایم فل کرلی ہے اور اب وہ PHD کی سٹوڈنٹ ہیں اور وہ اچھی طرح ماں بولی کی اہمیت اور افادیت کو جانتی ہیں۔
میں دعاگو ہوں کہ اللہ مہربان صباحت عروج کو مزید اعلی تخیل عطاء فرماٸے اور وسیب زادوں سے درخواست گزار ہوں کہ صباحت عروج کو جنس (Gender ) سے ہٹ کر ایک وسیب زادی کے روپ میں قبول کیجے.
آخر پہ صباحت عروج کی ایک غزل تمام احباب کے لیے:
؂ مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں
ذہین لوگ ہیں ،بس عاشقی کے قابل ہیں
جو اپنی مرضی کا سوچیں تم ان کو دفنا دو
کہ ایسی لڑکیاں کب رخصتی کے قابل ہیں
دکھی نہیں ہیں کہ ہم کیوں ہوئے نظر انداز
ہمیں پتہ ہے کہ ہم بے رخی کے قابل ہیں
ہمیں ڈرایا گیا، کب سکھایا ڈٹ جانا
ہم ایسے لوگ فقط عاجزی کے قابل ہیں
لڑائی ہم کو وراثت میں دی گئی ہے حضور
ہم اہل جنگ کہاں شاعری کے قابل ہیں

%d bloggers like this: