اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رحمان ڈھیری ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

صدیوں سے جنوبی ایشیاء ،جنوبی افغانستان ، مشرقی ایران ،بلوچستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر واقع سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی اہمیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے۔دریائے سندھ کے سینے پر آباد اس علاقے میں دنیا کی قدیم ترین انسانی تہذیبیں پروان چڑھیں جن کے کے آثار آج بھی بلوٹ،حسام ڈھیری،گمل ڈھیری، رحمان ڈھیری اور پروآ کے قریب بھڑکی کے قدیم قبرستان کی شکل میں سر اٹھائے مہذب دنیا کو اپنے تہذیبی ارتقاء کے قصے سنا رہے ہیں۔حسام ڈھیری اور گمل ڈھیری میں انسانی آباد کاری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ہڑپائی تہذیب پرانی ہے۔ 1971 ء میں جب محکمہ آثار قدیمہ کو ڈیرہ اسماعیل خان سے 22 کلو میٹر جنوب کی جانب کسی قدیم بستی کے آثار ملے تو وہاں کی باقیات کا پتہ چلانے کیلئے کھدائی کا آغاز کر دیا گیا ۔جیسے جیسے کھدائی گہری ہوتی گئی مٹی کی آغوش میں صدیوں سے سانسیں روکے بیٹھی انسانی تہذیب کے مٹیالے خدوخال نمودار ہونا شروع ہونے لگے ۔ 1976ء سے 1982ء تک کے درمیانی عرصے میں پورے زور و شور سے کھدائی کا کام جاری رہا،جس کے آخر میں ایک مستطیل شکل کی ٹیلہ نما بستی کا سراپا ابھر کر جدید دنیا کے سامنے آیا،جسے رحمان ڈھیری کا نام دیا گیا۔ ماہرین آثار قدیمہ کے ایک محتاط اندازے کے مطابق رحمان ڈھیری سے ملنے والی باقیات تقریباً چار سے چھ ہزار سال پرانی ہیں،جسے پری ہڑپن دور کہا جاتا ہے،جبکہ ہڑپہ کی تہذیب وادی سندھ میں 1700 سے 2600 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں پروان چڑھی تھی ۔یادوں کی اس ڈھیری میں مدفن تہذیب کو متفقہ طور پر دنیا میں تانبے کی سب سے پہلی ترقی یافتہ تہذیب کے علاوہ جنوبی ایشاء کی سب سے پہلی شہری آبادی کی باقیات کے طور پر بھی تسلیم کر لیا گیاہے ۔ اپنے اردگرد مٹی کی اینٹوں سے بنی ایک مضبوط فصیل کے اندر 22 ہیکٹرز کے وسیع رقبے پر مستطیلی شکل میں پھیلی یہ شہری بستی ایک اندازے کے مطابق اپنے وقتوں میں دس ہزار سے پندرہ ہزار جیتے جاگتے انسانوں کا مسکن ہوا کرتی تھی ۔بستی میں جگہ جگہ ابھرے بلندٹیلے اور ان ٹیلوں کے اردگرد ترتیب سے بنائی گئی گلیاں، ڈیرہ سے بنوں جاتے ہوئے بنوں روڈ سے صاف دکھائی دیتی ہیں ۔مٹی کی انیٹوں سے بنائی گئی حفاظتی چار دیواری،دیواروں پر کندہ کی گئی مختلف جانوروں مثلاً پہاڑی بکرے ، بچھو اور مینڈک کی تصاویر اور مخصوص فاصلے پربنائے گئے حفاظتی واچ ٹاور نما برج نمایاں ہیں ۔کھدائی کے دوران ملنے والے مختلف پتھر،اینٹیں اور مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن جن پر نقش و نگاراورآڑھی ترچھی لکیریں کھینچی ہوئی ملی ہیں۔گھریلو استعمال کی اشیاء کے علاوہ اس وقت کی زراعت کے آلات،گندم کے دانے اور پالتو جانوروں کی ہڈ یاں بھی دریافت ہوئی ہیں، یہ سب نتائج اس بستی کی قدامت اور شاندار تاریخ کے ثبوت مہیا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے چپے چپے پر گمشدہ اور گزری تہذیبوں کے آثار وافر موجو د ہیں، جو اس خطے کی عظمت کی دلیل ہیں ان میں سے زیادہ تر کو غیر ملکیوں نے آکر دریافت کیا اور انگریزی میں کتابیں تحریر کیں۔آج بھی آسٹریلیا اور برطانیہ کی لائبریریا ں سرائیکی وسیب کے لٹریچر اور ریسرچ سے بھری پڑی ہیں،جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کسی بھی بڑ ی تہذ یب کے مقابلے میں ہماری تہذ یب بڑی زورآور ہے،لیکن افسوس کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان کو سامنے لائے۔ رحمان ڈھیری کو ہی لے لیجئے کہ جہاں اب ٹھیکریاں باقی بچی ہیں۔سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث جس کے جی میں آیا وہ یہاں سے نادر اشیاء نکال کر لے گیا۔کاش اس شہر کے صاحبان علم و ادب اپنے ”اوریجن“ کی طرف متوجہ ہو ں اور وقت کے حکمرانوں کے گوش گزار کریں کہ اس خطے کی تاریخی اہمیت کے سبب گومل یونیورسٹی میں آرکیالوجی ڈیپا رٹمنٹ کھولا جائے اور ا سکے ساتھ ہی ان سارے علاقوں کی دریافت شدہ باقیات کیلئے علیحدہ سے ایک میوزیم قائم کیا جائے۔رحمان ڈھیری، بھڑکی کا قبرستان کو سرکاری تحویل میں لے کر اسے محفوظ بنایا جائے اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور آثار قدیمہ سے متعلقہ افراد خصوصاً طلباء کو اس خطے کی تاریخ سے آگاہی دی جائے۔

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدیوں سے جنوبی ایشیاء ،جنوبی افغانستان ، مشرقی ایران ،بلوچستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر واقع سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی اہمیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے۔دریائے سندھ کے سینے پر آباد اس علاقے میں دنیا کی قدیم ترین انسانی تہذیبیں پروان چڑھیں جن کے کے آثار آج بھی بلوٹ،حسام ڈھیری،گمل ڈھیری، رحمان ڈھیری اور پروآ کے قریب بھڑکی کے قدیم قبرستان کی شکل میں سر اٹھائے مہذب دنیا کو اپنے تہذیبی ارتقاء کے قصے سنا رہے ہیں۔حسام ڈھیری اور گمل ڈھیری میں انسانی آباد کاری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ہڑپائی تہذیب پرانی ہے۔
1971 ء میں جب محکمہ آثار قدیمہ کو ڈیرہ اسماعیل خان سے 22 کلو میٹر جنوب کی جانب کسی قدیم بستی کے آثار ملے تو وہاں کی باقیات کا پتہ چلانے کیلئے کھدائی کا آغاز کر دیا گیا ۔جیسے جیسے کھدائی گہری ہوتی گئی مٹی کی آغوش میں صدیوں سے سانسیں روکے بیٹھی انسانی تہذیب کے مٹیالے خدوخال نمودار ہونا شروع ہونے لگے ۔
1976ء سے 1982ء تک کے درمیانی عرصے میں پورے زور و شور سے کھدائی کا کام جاری رہا،جس کے آخر میں ایک مستطیل شکل کی ٹیلہ نما بستی کا سراپا ابھر کر جدید دنیا کے سامنے آیا،جسے رحمان ڈھیری کا نام دیا گیا۔ ماہرین آثار قدیمہ کے ایک محتاط اندازے کے مطابق رحمان ڈھیری سے ملنے والی باقیات تقریباً چار سے چھ ہزار سال پرانی ہیں،جسے پری ہڑپن دور کہا جاتا ہے،جبکہ ہڑپہ کی تہذیب وادی سندھ میں 1700 سے 2600 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں پروان چڑھی تھی ۔
یادوں کی اس ڈھیری میں مدفن تہذیب کو متفقہ طور پر دنیا میں تانبے کی سب سے پہلی ترقی یافتہ تہذیب کے علاوہ جنوبی ایشاء کی سب سے پہلی شہری آبادی کی باقیات کے طور پر بھی تسلیم کر لیا گیاہے ۔
اپنے اردگرد مٹی کی اینٹوں سے بنی ایک مضبوط فصیل کے اندر 22 ہیکٹرز کے وسیع رقبے پر مستطیلی شکل میں پھیلی یہ شہری بستی ایک اندازے کے مطابق اپنے وقتوں میں دس ہزار سے پندرہ ہزار جیتے جاگتے انسانوں کا مسکن ہوا کرتی تھی ۔
بستی میں جگہ جگہ ابھرے بلندٹیلے اور ان ٹیلوں کے اردگرد ترتیب سے بنائی گئی گلیاں، ڈیرہ سے بنوں جاتے ہوئے بنوں روڈ سے صاف دکھائی دیتی ہیں ۔مٹی کی انیٹوں سے بنائی گئی حفاظتی چار دیواری،دیواروں پر کندہ کی گئی مختلف جانوروں مثلاً پہاڑی بکرے ، بچھو اور مینڈک کی تصاویر اور مخصوص فاصلے پربنائے گئے حفاظتی واچ ٹاور نما برج نمایاں ہیں ۔کھدائی کے دوران ملنے والے مختلف پتھر،اینٹیں اور مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن جن پر نقش و نگاراورآڑھی ترچھی لکیریں کھینچی ہوئی ملی ہیں۔
گھریلو استعمال کی اشیاء کے علاوہ اس وقت کی زراعت کے آلات،گندم کے دانے اور پالتو جانوروں کی ہڈ یاں بھی دریافت ہوئی ہیں، یہ سب نتائج اس بستی کی قدامت اور شاندار تاریخ کے ثبوت مہیا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے چپے چپے پر گمشدہ اور گزری تہذیبوں کے آثار وافر موجو د ہیں، جو اس خطے کی عظمت کی دلیل ہیں ان میں سے زیادہ تر کو غیر ملکیوں نے آکر دریافت کیا اور انگریزی میں کتابیں تحریر کیں۔آج بھی آسٹریلیا اور برطانیہ کی لائبریریا ں سرائیکی وسیب کے لٹریچر اور ریسرچ سے بھری پڑی ہیں،جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کسی بھی بڑ ی تہذ یب کے مقابلے میں ہماری تہذ یب بڑی زورآور ہے،لیکن افسوس کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان کو سامنے لائے۔
رحمان ڈھیری کو ہی لے لیجئے کہ جہاں اب ٹھیکریاں باقی بچی ہیں۔سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث جس کے جی میں آیا وہ یہاں سے نادر اشیاء نکال کر لے گیا۔کاش اس شہر کے صاحبان علم و ادب اپنے ”اوریجن“ کی طرف متوجہ ہو ں اور وقت کے حکمرانوں کے گوش گزار کریں کہ اس خطے کی تاریخی اہمیت کے سبب گومل یونیورسٹی میں آرکیالوجی ڈیپا رٹمنٹ کھولا جائے اور ا سکے ساتھ ہی ان سارے علاقوں کی دریافت شدہ باقیات کیلئے علیحدہ سے ایک میوزیم قائم کیا جائے۔
رحمان ڈھیری، بھڑکی کا قبرستان کو سرکاری تحویل میں لے کر اسے محفوظ بنایا جائے اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور آثار قدیمہ سے متعلقہ افراد خصوصاً طلباء کو اس خطے کی تاریخ سے آگاہی دی جائے۔

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط24)۔۔۔ عباس سیال

 پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

%d bloggers like this: