اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا فضل الرحمن کی سیاست بند گلی میں؟ ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

مولانا کے ناقدین بھی حیران ہیں کہ وہ یہ سب کیسے کرلیتے ہیں۔ مولانا کا ایک اور بڑا خاصہ یہ ہے کہ وہ ضرورت کے تحت سیاسی اورمذہبی کارڈاستعمال کرنے میں یکساںمہارت رکھتے ہیں

ملک عاصم ڈوگر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

19 جنوری کو پی ڈی ایم نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کی کال دی ہے۔ حکومت نے بھی دانشمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی ریلی کو نہ روکنے کا درست فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں تحریک کی سمت اور اہداف کے حوالے سے مختلف سوچ رکھتی ہیں۔

مسلم لیگ ن اور جمیعت علماء اسلام ف، پی ڈی ایم تحریک میں سخت گیر مؤقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں پی ڈی ایم کے پہلے اجلاس اور ن لیگ کے زیراہتمام گوجرانوالہ جلسے میں حکومت کو چھوڑ کر فوجی سربراہان کو ہدف تنقید بنا یا گیا۔

شاید اس کے بعد ہی پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس معاملے میں اپنا الگ مؤقف سامنے رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسی لئے پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام کراچی اور گڑھی خدا بخش کے جلسوں میں ن لیگ کے قائد نواز شریف کو تقریر کی زحمت نہیں دی گئی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اس حوالے سے واضح پوزیشن لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست فوجی سربراہان پر تنقید کو درست نہیں سمجھتے۔ لاہور میں ن لیگ کے زیر اہتمام پی ڈی ایم کے کمزو ر شو میں نواز شریف کی تقریر کے دوران عوام کا پنڈال سے نکل جانا اس بات کا اظہار تھا کہ عوام نے مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کا فوج مخالف بیانیہ مسترد کردیا ہے۔

2018 کے الیکشن میں پنجاب سے مسلم لیگ ن نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے ۔ پی ڈی ایم تحریک جس کا انحصار پنجاب سے "ووٹ کو عزت دو "کے نعرے پر کیا جا رہاتھا لیکن اسے بھی کوئی خاص عوامی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ اسے اگر شریف فیملی کا "کریڈ یبلٹی کرائسس” کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پی ڈی ایم تحریک کی رہی سہی ہوا پیپلزپارٹی کی جانب سے استعفوں سے انکا ر اور پارلیمنٹ واپسی کے اعلان نے نکال دی ہے۔

پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمن کو پہلی مزاحمت کاسامنا اس وقت کرنا پڑا جب اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتوں نے اجلاس کے دوران فوج مخالف بیانئے پر کھل کر مخالفت کی اور تحریک کو حکومت تک محدود رہنے کی تجویز دی۔  مولانا فضل الرحمن کو اب دوسری مزاحمت کا سامنا اپنی ہمنوا جماعت مسلم لیگ ن سے ہے۔

جس نے مولانا کی جانب سے دھرنے اور لانگ مارچ کا رْخ راولپنڈی کی جانب موڑنے کے اعلان کو ان کی انفرادی سوچ قرار دے دیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں سے بیک ڈور رابطوں کی تردید ،لانگ مارچ اور دھرنے کے لئے راولپنڈی آنے والوں کو چائے پلانے کے بیان کے بعد سازشی تھیوریاں دم توڑ گئی ہیں۔

اس سے قبل پاک فوج کے ترجمان نے ن لیگ اور دیگر جماعتوں سے رابطوں اور ملاقاتوں کی تفصیل سے بھی قوم کو آگاہ کیا تھا۔ استعفوں کے معاملے سے پیچھے ہٹنے کے بعد اب لانگ مارچ اور دھرنے سے پیچھے ہٹنا اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور جمیعت علماء اسلام ف کے لئے بہت مشکل مرحلہ ہوگا۔ پیپلزپارٹی پہلے ہی حالات بھانپ کر پی ڈی ایم کے اند ررہتے ہوئے اپنا راستہ الگ کر چکی ہے۔

مسلم لیگ ن بھی پنڈی میں سکستھ روڈ پر نواز شریف پارک سے آگے جانے کے لئے تیار نہیں۔لہٰذا مولانا فضل الرحمن کے پاس یوٹرن لینے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آرہا۔ لیکن یہ مولانا کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہو گی۔عورت کی حکمرانی کو ناجائز قراردینے کے باوجود 1988 اور 1993 میں وہ بینظیربھٹو کی وزارت عظمیٰ میں قائم حکومت کانہ صرف حصہ رہے بلکہ 93 میں قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امورکے چیئرمین بھی بنے۔ 90 کی دہائی میں مولانا فضل الرحمن، نوازشریف کے بہت بڑے ناقد تھے ۔

لیکن 2008 اور 2013 میں بالترتیب پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں حکومت کا حصہ رہے۔ کشمیرپراپناواضح سیاسی مؤقف نہ ہونے کے باوجود اس کے نام پر قائم چیئرمین شپ سنبھالے رکھی۔ پرویزمشرف کے ابتدائی دور میں مولانا فوج مخالف بیانات دیتے رہے لیکن مولانا کی قیادت میں ہی ایم ایم اے نے 2003 میں جنرل پرویزمشرف کی حمایت میں قومی اسمبلی سے17ویں ترمیم منظور کرائی۔ جس کے بعد پرویزمشرف باوردی صدر بنے۔

مولانا کے ناقدین بھی حیران ہیں کہ وہ یہ سب کیسے کرلیتے ہیں۔ مولانا کا ایک اور بڑا خاصہ یہ ہے کہ وہ ضرورت کے تحت سیاسی اورمذہبی کارڈاستعمال کرنے میں یکساںمہارت رکھتے ہیں۔ وہ اکثرسیاسی مخالفین کیخلاف مذہبی کارڈاستعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔

اس بار بھی سیاسی مخالفین پر جلسوں میں قادیانیت اور اسرائیلی لابی جیسے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کبھی بھی مذہبی کارڈ کے حق میں نہیں رہی جبکہ مسلم لیگ ن بھی اس سے اجتنا ب برتے گی۔ بادی النظر میں متحدہ اپوزیشن کی تحریک کا وہی حال ہوتا نظر آرہا ہے جیسا مولانا کے آزادی مارچ کا ہوا تھا۔ پی ڈی ایم تحریک کی ناکامی مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو بند گلی میں دھکیل سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو ا تو اس کی ذمہ دار مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہوں گی۔

اگلامیدان پنجاب۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

’’بد زبانی‘‘ کا کلچر ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

بچوں کے وزیر اعظم ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

میڈیا اور وراثتی سیاست کا گلیمر۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

 

%d bloggers like this: