مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اگلامیدان پنجاب۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

مسلم لیگ ن اورمولانا کی مشکل دْہری ہے۔ مسلم لیگ ن نے قومی اداروں کے خلاف جس نام نہاد بیانیے کو’’ووٹ کو عزت دو" سے جوڑ رکھا ہے

ملک عاصم ڈوگر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلگت بلتستان میں  جاری انتخابی مہم کے باعث اپوزیشن کے حکومت گراؤ اتحاد پی ڈی ایم کے جلسوں میں تعطل آیا ہے۔ جس میں 22 نومبر سے پھر تیزی آنے کا امکان ہے۔ بظاہر اپوزیشن کے بڑے اور کافی حد تک کامیاب جلسے بھی حکومت کے لئے کسی پریشانی کا باعث نہیں بنے۔

اسکی بڑی وجہ  20 ستمبر سے پی ڈی ایم کے اجلاس اور جلسوں میں کی گئی سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی قومی ادارے کے خلاف تقاریر ہیں۔ البتہ کراچی جلسہ میں پیپلز پارٹی نے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ نواز شریف کو تقریر کی زحمت نہ دی جائے۔

مزار قائد کے احاطے  میں مریم نواز کے شوہر نامدارکیپٹن صفدر کی نعرے بازی سے بابائے قوم کی جو بے حرمتی کی گئی اور پھر اس پر پیش آنے والے واقعات کے تسلسل نے پی ڈی ایم کی تحریک  اور خصوصاً مسلم لیگ ن کو سندھ میں غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ بظاہر اس سارے تماشے کی بییفشری پیپلز پارٹی دکھائی دی۔ سندھ میں امکانی طور پرآئندہ بھی ایسے تنازعات کھڑے کئے جاسکتے ہیں۔

عجب تضاد ہے کہ ایک جانب اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو ماننے سے انکاری ہیں، ایک دن بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب اس حکومت اور اداروں کے خلاف اپنی تحریک کو التوا میں ڈال کر گلگت بلتستان کا انتخابی میدان فتح کرنے چل نکلی ہیں۔ دراصل اس میں بھی پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں کی رائے منقسم تھی۔ مسلم لیگ ن اور جمیعت علماء اسلام ف کی بھرپور کوشش تھی کہ فی الحال حکومت مخالف اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی ترویج پر توجہ برقرار رکھی جائے جبکہ پیپلزپارٹی کی رائے مختلف تھی۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور جے یوآئی ف کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں۔

لہٰذا یہ دونوں جماعتیں اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کی پوزیشن مختلف ہے،سندھ حکومت کے ساتھ اگر گلگت بلتستان میں بھی کامیابی حاصل کر لیتی ہے تواس کا سسٹم میں وزن بڑھ جائے گا۔ آصف زردای معاملات طے کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ جس طرح سے بلاول گلگت بلتستان میں مہم چلا رہے ہیں اس سے ان کے عزائم کا اندازہ لگنا چنداں مشکل نہیں۔

مسلم لیگ ن اورمولانا کی مشکل دْہری ہے۔ مسلم لیگ ن نے قومی اداروں کے خلاف جس نام نہاد بیانیے کو’’ووٹ کو عزت دو” سے جوڑ رکھا ہے اسے اب تک عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ سابق سپیکر ایاز صادق کی جانب سے قومی اسمبلی میں متعصابہ آبزرویشن پر مبنی بیان نے مسلم لیگ ن کے بیانیے کو عوام میں مزید غیر مقبول بنا دیا ہے۔ قومی دائروں میں سیاسی جماعتوں کی آپسی مخالفت پالیسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ چہ جائیکہ ان میں اداروں کا تقدس پامال کیا جائے بلکہ ملکی حمیت اور غیرت کو بھی داؤ پر لگا دیا جائے۔اس پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے یہ کہنا کہ مزید ایسے بیانات بھی سامنے آسکتے ہیں۔ دراصل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ بیان سہواً نہیں دیا گیا بلکہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت لانچ کیا گیا۔

اب یہ صاف نظرآرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن قومی اداروں کیخلاف مزید ہرزہ سرائی کا ارداہ رکھتی ہے۔ جس میں مولانا بھی نپے تلے انداز میں ن لیگ کے ہمنوا ہوں گے۔ البتہ پیپلزپارٹی وکٹ کے درمیان کھیلنے کو ترجیح دے گی۔جبکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کا پنجاب میں ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستان میں سیاسی  تبدیلی کی لہر تب کامیاب ہوتی ہے جب اسے پنجاب میں کامیابی ملے۔

پی ڈی ایم کے اگلے فیز میں لاہور اور ملتان کے جلسے اہمیت کے حامل ہیں۔ لہٰذا یہ ساری گیم پنجاب کے میدان کو گرمانے کے لئے کی جا رہی ہے۔ لیکن یاد رکھیں  بھارتی مفادات سے ہم آہنگ کوئی بھی بیانیہ عوامی حمایت محروم رہے گا۔ تحریک انصاف حکومت نے اپوزیشن کے عزائم کو بھانپتے ہوئے بزدار سرکار کی ٹیم  میں ایک تگڑا کھلاڑی میدان میں اتار دیا ہے۔ فیاض الحسن چوہان کی جگہ مرکز میں سابق مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو وزیر اعلیٰ پنجاب کی مشیر اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا ہے۔جہاں اپوزیشن کے لئے فیاض الحسن چوہان کا وزارت اطلاعات سے جانا خوشی کی خبر تھا وہیں فردوس عاشق اعوان کا آنا دگنی بری خبر ثابت ہو گا۔

فردوس عاشق اعوان اپنے ٹریک ریکارڈ کے مطابق سیاسی مخالفین کو مردانہ وار ہینڈل کرنے کا کافی تجربہ رکھتی ہیں۔ فیاض الحسن چوہان کی نسبت میڈیا فردوس عاشق اعوان کو زیاددہ سنجیدگی سے لیتا ہے۔ نئی مشیر اطلاعات کے آنے سے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی ٹیم مضبوط ہوئی ہے۔ جہاں ایک طرف سیاسی مخالفیں سے تگڑے طریقے سے نمٹنے کا ٹاسک پورا ہوگا وہیں بزدار حکومت کے عوامی اقدامات کی بہتر تشہیر بھی کی جائے گی۔ لیکن پنجاب حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ میڈیا پر دفاع کے لئے عوام کو بنیادی ریلیف دینے کے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ ورنہ بھوک اور بے روزگاری کے ستائے عوام جلسے جلوسوں میں شرکت کو ترجیح دیں گے شاید اس طرح دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہو جائے۔

%d bloggers like this: