اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پارو( قسط۔2 ) ۔۔۔گلزار احمد

نوٹ: 1958 میں آنے والے سیلاب کے دنوں میں ایک خانہ بدوش لڑکی اور ڈیرہ شہر کے ایک لڑکے کی سچی محبت کی کہانی. اس کہانی کے تمام کردار سچے لیکن نام فرضی ہیں.

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

۔………………………
شام کو پارو کا بابا "شیرو” شہر میں چقیں بیچ کر واپس اپنے گھر آیا۔ ہاتھ میں پکڑا کاغذی لفافہ جس میں دال ٹانگری اور میٹھے لچھے تھے، پارو کے سر پہ بوسہ دیتے ہوئے اس کے ہاتھ میں پکڑا کر کہنے لگا، پارو بیٹا ایک گلاس پانی کا دے دو، بہت پیاس لگی ہے۔۔
پارو گھڑے کی طرف پانی لینے کی خاطر دوڑی۔ قدرت نے“باپ”کے روپ میں ایسی صفت وجدان کی ہے جو اپنی سانس تک اولاد کی سانسوں میں شامل کر کے اسکی زندگی بڑھانے کا حوصلہ رکھتا ہے.۔گلیوں میں کڑی دھوپ میں چھابڑی فروش, مزدور,غبارے و چقیں بیچنے والے اور ہر طرح کا کام کرنے والی یہ ہستیاں ملازم نہیں بلکہ "باپ” ہوتے ہیں۔
جن کو کسی نا کسی طرح اپنی اولاد کی خاطر سارا سارا دن,رات, سردی,گرمی ہر موسم ہر تکلیف ہر دکھ اور پریشانی کے باوجود یہ سڑکوں پر,بازاروں میں ہر جگہ لوگوں کی باتیں سنتے, طعنے سنتے, بے عزت ہوتے ہیں مگر وہ مسلسل کام جاری رکھتے ہیں مرتے دم تک کیونکہ ان کو اپنی اولاد اور خاص کر بیٹیوں کو خوشیاں دینی ہوتی ہیں۔
باپ تمام عمر اولاد کے لئے جیتا ہے۔اپنی تمام ضرورتوں اور محبتوں کو پسِ پشت ڈال کر وہ صرف جوان ہوتی اولاد میں اپنا بچپن اپنی جوانی دیکھتا ہے اور اسی خوشی سے سرشار رہتا ہے۔ بیٹی بھی جانتی ہے کہ اس دنیا کی تمام پریشانیاں دور کر کے اس کا باپ اس کے لئے خوشیاں خرید لائے گا۔
بیٹی جانتی ہے کہ اس کا باپ اس کی زندگی میں آنے والے حالات کی آندھی,طوفان,گرج چمک,گرم سرد ہوا اور ہر قسم کی آفت سے اس کو محفوظ رکھے گا، اسی وجہ سے بیٹی اپنے باپ کی آغوش کو اپنی پناہ گاہ سمجھتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ دنیا میں باپ جیسی ہستی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ پارو اپنے باپ شیرو کو پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہنے لگی، بابا میں پاؤں دبا دوں؟
نہیں پارو بیٹا بس تجھے دیکھ لیا ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔پارو کا باپ شیرو ان غیور، نیک فطرت اور خوددار انسانوں میں سے ایک تھا جو حالات کے بھنور میں گِھر کر بھی اپنے انسانی شرف اور غیرت و خود داری کی لاج رکھے ہوئے تھا۔ اپنے عزیز و اقارب اور گھروں کی سائبانی سے محروم یاس اور مایوسی کی تصویر اور کسی کی مدد کے انتظار میں رہے بغیر اپنی محنت کے بل پوتے پر امید کا چراغ روشن رکھے ہوئے تھا۔
فضا میں میں اڑتے آزاد پرندوں کا راج تھا، سامنے میدان کے درخت پر ہری دم والے طوطے کبھی ایک ٹہنی پہ کبھی دوسری پہ چہک رہے تھے. مینا آنکھیں موندے مست کو کوکو کا ورد کر رہی تھی، غٹر غوں کرتے کبوتر الگ مستیاں کر رہے تھے۔ پارو اپنے بابا کے سامنے چونکی پر آلتی مار کہ بیٹھ گئی۔ اپنے کرمچی رنگ کے پَلو کو سر پر اوڑھتے ہوئے کہنے لگی۔۔ بابا صبح کو کوئی ہیرا نامی لڑکا آیا تھا۔
وہ آپ کے فن کی بڑی تعریف کر رہا تھا۔ ہے تو وہ شہری اور سکول بھی پڑھتا ہے، لیکن وہ چاہتا ہے کہ میں چاچے شیرو سے چقیں بنانے کا فن سیکھنا چاہتا ہوں۔ بابا ویسے بھی آپ اکیلے ہوتے ہیں سارا دن کانے چھیلتے، کاٹتے، سنبھالتے اور سیتے سیتے آپ کافی تھک جاتے ہیں۔ اگر اس کو اپنا شاگرد بنالیں تو آپ کو مدد بھی مل جائے گی اور کام بھی جلدی ختم ہوجایا کرے گا۔
بابا میں نے اسے کہا کہ کل صبح آپ آ کر بابا کو مل لینا۔ ٹھیک ہے بیٹا پارو! جس طرح تم کہتی ہو واقعی میں تھک جاتا ہوں۔ چلو کل صبح دیکھ لیں گے۔ ابھی جلدی جاؤ ماں کے ساتھ رات کا کھانا بنانے میں ہاتھ بٹاؤ ورنہ رات کو کھانا نہیں ملے، دونوں ہنسنے لگے۔
پارو کی ماں عارضی صحن میں ایک موڑھے پر بیٹھی مرغیوں کے آگے باسی روٹی توڑ توڑ کے ڈال رہی تھیں۔ ماں مرغیوں کو دانہ چھوڑو، آؤ کھانا بناتے ہیں۔کھانا کھانے اور بابا سے باتیں کرنے کے بعد ماں نے آواز دیتے ہوئے کہا، پارو! بس بہت دیر ہوگئی ہے،
لالٹین بجھا دے اور آ میرے پاس سو جا۔ پارو ماں کے ساتھ لیٹتے ہوئے کہنے لگی ماں! دنیا کی ساری خوبصورتیاں، سارے رنگ، سارے کیفیتیں اور سارے ذائقے اس پانی کی وجہ سے ہی ہیں لیکن پھر بھی یہ بے رنگ اور بے ذائقہ کیوں ہوتا ہے،
زندگی دینے کے ساتھ ساتھ نقصان کیوں کرتا ہے؟ ہم اپنے کچے گھر میں کس طرح خوش تھے کہ اس پانی نے ہمیں اجاڑ کے رکھ دیا۔ کچے مگر پُرسکون کمرے میں رہنے والے آج ہم اس پانی کی وجہ سے عارضی سائبان کے تلے سونے پر مجبور ہیں۔۔ بس کر پگلی ! چل سو جا۔ اتاڑ میں موجود عارضی خیمہ بستی کے لوگ اپنے خیموں میں لالٹین اور دیئے بجھائے پرلطف نیند کی وادیوں میں محوسرور تھے اور ایسے عالم میں پارو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔
ہر کروٹ پر بے چینی بڑھتی جا رہی تھی،مضطرب ہو کر آنکھیں موندھے سونے کی کوشش کر رہی تھی۔ بار بار سوچتی کہ آخر وجہ کیا ہے؟ نیند کیوں نہیں آ رہی ؟ بار بار اسے "ہیرا”کا خٰیال کیوں آ رہا ہے۔ نہ جانے کب یہ باتیں سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس وقت اس کو جبراً نیند سے اٹھنا پڑا جب ماں آوازیں دے دے کر تھک گئی اور آکر اس کے مونڈھے کو جھنجھوڑنے لگی۔۔
پارو اٹھ بھی جا! دیکھ سورج کب کا نکل آیا ہے۔ پتہ نہیں پارو کے ذہن میں کیا آیا، فورا اٹھ بیٹھی اور دوڑ کہ گھڑے سے پانی نکال کر منہ پر چھینٹے مارنے لگی۔ ٹوٹے ہوئے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر ہنسنے لگی اور کنگھی کرنے لگی۔ جس طرح دنیا کی ساری خوبصورتیاں، سارے رنگ، سارے کیفیتیں اور سارے ذائقے اس پانی کی وجہ سے ہی ہیں۔
اسی طرح ساری کیفیتیں اور زندگی کی ساریاں خوشیاں اور رونقیں اس کے کناروں پر بسنے والوں میں نمایاں نظر آتی ہیں، پارو بھی ان میں سے ایک تھی۔ پارو ظاہر بین نگاہوں میں حسن کی ایسی دیوی معلوم ہوتی تھی جو تاج پہن کر درشن لینے نکلے تو زمانہ اس کی پوجا پاٹ کے لیے چشم براہ ہو۔
لیکن دنیا ایسا نمکین سمندر ہے جو محبت کے پیاسے کی چندگھونٹ سے تشنگی نہیں مٹا سکتا۔آنکھ میں نظر آنیوالی تڑپ و جذب کی کیفیت کا ایسا خالی پن ہے جو خلاء کی ایسی وسعت رکھتا ہے جہاں اندر داخل ہوتے جاؤ تو وسعتیں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ محبت کی دنیا وہ مقام ہے جو نظر سے قرب سے، حسن سے دل تک رسائی پا کر آئینہ میں خود میں اچھا لگنے،
زیر لب مسکرانے اور کن آکھیوں سے شرمانے تک ہے۔ مگر عشق کی دنیا کی تشنگی ذات آدم سے مٹ نہیں سکتی۔ پارو کے ہاتھوں مکمل ہونے والے چھڑکاؤ نے عارضی آنگن کی مٹی کو مہکا دیا۔ جھلمل جھلمل کرتی چوڑیوں نے اک لے میں بجنا شروع کر دیا۔ چوڑیوں کی کھنک میں کسی کا انتظار پنہاں تھا۔
کھنک میں ایک کسک تھی جس کو صرف پارو محسوس کر رہی تھی اور بار بار نگاہیں باہر کی طرف اُٹھ جاتیں۔ پارو کی آنکھیں کسی کا راہ تک رہی تھیں۔ پارو کا دل مدہم سروں پر دھک دھک کر رہا تھا۔ پارو اس بات سے بے خبر تھی کہ جن چیزوں میں مبتلا ہونے سے زمان و مکاں کی حدود و قیود؛وجودِ انساں پر؛ اپنی اثر انگیزی سے محروم ہو جایا کرتی ہیں،
ان میں ” محبت "سرِ فہرست ٹھہرتی ہے۔ پارو اپنے صحن کی آخری حد پر بکری کا چھوٹا میمنا سینے سے لگا کے بیٹھی تھی۔ شیرو عارضی صحن میں کانے چھلنے اور دھاگوں کو لپیٹنے میں مصروف تھا۔
جاری ہے

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: