مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان کے تعلیمی ادارے آگ کی لپیٹ میں۔۔۔عزیز سنگھور

انہوں نے ابتدائی تعلیم بلیدہ میں حاصل کی۔ بلیدہ کے لوگوں کو تعلیم کے ثمرات کے بارے میں اچھی طرح علم ہے۔ انہیں یہ ثمرات ڈاکٹر یارجان کی شکل میں ملا ہے

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں ایک بار پھر تعلیمی اداروں کو جلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یکے بعد دیگرے اسکولوں کو نذرآتش کیا جارہا ہے۔ یہ واقعات بلوچستان کے مکران ڈویژن میں رونما ہورہے ہیں۔ جس سے علاقے میں ایک خوف اور ڈر کا سماں ہے۔ سیاسی اور سماجی حلقوں نے ان واقعات کو تعلیم دشمن عمل قراردیا اور کہا کہ ان عناصر کو سرپرستی حاصل ہے۔

بغیرسرپرستی کے ایسے واقعات ممکن نہیں۔ حال ہی میں بلیدہ کے علاقے الندور میں نامعلوم افراد نے گورنمنٹ ہائی سکول کو نذر آتش کردیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعہ سے قبل بلیدہ کے علاقے چیرمین عبدالرحمن بازار میں ایک نجی اسکول کو آگ لگادی گئی۔

تاہم ان واقعات میں ملوث کسی بھی شخص کی گرفتاری ابتک عمل میں نہیں آئی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس عمل کے پیچھے ایک نامعلوم گروہ سرگرم ہے۔ جو معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم ہے۔ جو اس گروہ کی طاقت اور دہشت کی عکاسی کرتا ہے۔

ماضی میں بھی تعلیمی اداروں کو نشانہ بناناگیا۔ تاہم اس دفعہ بلیدہ کو خاص کر ٹارگٹ کیاگیا۔ اس پر سماجی اور سیاسی حلقے ایسے واقعات کو بلیدہ سے اٹھنے والی انسداد منشیات تحریک کو جوڑتے ہیں۔ اس تحریک نے بلیدہ سے سر اٹھایا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے تربت، پنجگور، پسنی، گوادر، مند، تمپ، مند، جیونی، پشکان، اور دیگر علاقوں میں پھیل گئی۔ ڈرگ مافیا کے خلاف ریلیاں اور مظاہرے پھوٹ پڑے۔

بلیدہ میرے دو قریبی دوستوں کا آبائی علاقہ ہے۔ جن میں نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل میر جان محمد بلیدی اور بلوچستان کے سینئر منسٹر میر ظہور بلیدی شامل ہیں۔ تاہم بلیدہ کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ اس علاقے نے ایک عالمی شہرت یافتہ سائنسدان بھی پیدا کیا۔ بلیدہ سائنٹسٹ ڈاکٹر یارجان عبدالصمد کا آبائی علاقہ بھی ہے۔ وہ برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی کے گرافین سینٹر میں بطور سینئیر سائنس دان کام سرانجام دے رہا ہے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم بلیدہ میں حاصل کی۔ بلیدہ کے لوگوں کو تعلیم کے ثمرات کے بارے میں اچھی طرح علم ہے۔ انہیں یہ ثمرات ڈاکٹر یارجان کی شکل میں ملا ہے۔ ڈاکٹر یارجان یہاں کے بچوں کا رول ماڈل ہے۔ ہر بچہ اپنے آپ کو ڈاکٹر یارجان کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے۔

تعلیم کی اہمیت سے کسی بھی طرح انکار ممکن نہیں۔ یہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم پر صرف قوم کی تعمیر و ترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس و شعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی ہے۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر ایک نظر ڈالیں۔ تو خود بخود احساس ہو جائے گا کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا میں بالادستی قائم رکھنے والے ممالک امریکہ، لندن،آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی وغیرہ کی جہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے،

جب میرے محترم دوست ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ جب وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو ان کے آبائی علاقہ کیچ سمیت پنجگور اور گوادر میں بھی اسکولوں کو جلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسکولوں کے باہر اور علاقوں میں پمفلٹس بھی پھینکے گئے۔ لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں انگلش پڑھنے کے لیے بھیجنے سے باز رہیں

پمفلٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’’انگلش کی تعلیم کے لیے لوگوں کو اپنے بچوں کو اسکولوں یا انگلش لینگویج سینٹرز میں نہیں بھیجنا چاہیٔے۔‘‘

والدین کو بھی دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو نجی اسکولوں اور انگلش لینگویج سینٹرز بھیجنا بند کردیں۔ مسلح افراد نے بعض اسکولوں پر حملہ کیا تھا اور ان گاڑیوں کو آگ لگادی تھی، جولڑکیوں کو ان اداروں تک لاتی اور لے جاتی تھیں۔ پنجگور ضلع میں تقریباً دو درجن نجی انگلش میڈیم اسکول اور لینگویج سینٹرز تین مہینے تک بند بھی رہے تھے۔

بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ تعلیم کو فروغ دینے والے اساتذہ کو ٹارگٹ کیاگیا۔ انہیں سرِعام گولیوں سے بھون دیاگیا۔

ایک بلوچ استاد زاہد آسکانی کو اس وقت شہید کیاگیا، جب وہ بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر میں اپنی گاڑی میں گھر سے اسکول کی جانب سفر کررہے تھے۔ اسکول کے قریب پہنچتے ہی اس پر فائر کھول دیا گیا۔انکے جسم میں سات گولیاں پیوست ہوگئیں اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔

زاہد آسکانی کا بنیادی تعلق بلوچستان کے علاقے پنجگور سے تھا۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس بلوچستان آئے اور بلوچ نوجوانوں میں معیاری تعلیم کو عام کرنے کے غرض سے انہوں نے اویسس پرائمری اسکول سسٹم ‘‘ کی بنیاد رکھی ، وہ نہ صرف اس اسکول کے بانی تھے بلکہ وہ ساتھ ساتھ ایک استاد اور ہیڈ ماسٹر کے فرائض بھی سر انجام دے رہے تھے ۔

انکا مشن بلوچ نسل کو معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا ، وہ جلد ہی اپنے اس مشن میں کامیاب ہوئے اور معیاری تعلیم مہیا کرنے والے اسکول سسٹم ’’ اویسس‘‘ کو عام کرنے اور معروفیت دلوانے میں کامیاب ہوئے ۔ زاہد آسکانی بلوچ کی شہادت نہ صرف ’’ اویسس‘‘ کیلئے ایک جھٹکا ثابت ہوا بلکہ پورے بلوچ قوم کیلئے ایک نا قابلِ تلافی نقصان ثابت ہوا ۔ زاہد بلوچ کے قتل کی وجہ تعلیمی میدان میں انکی روشن خیالی اور عملی اقدامات بنے ۔

انکی شہادت کے بعد پورے بلوچستان میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور گوادر میں ہزاروں طلباء احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے ۔ بلوچ تحریک کی بنیادیں روشن خیال اور سیکیولر اقدار پر مبنی ہیں اور یہی وہ اقدار ہیں جو بلوچ کو خطے کے باقی اقوام سے مختلف کرتی ہیں۔ نامعلوم قوتیں ایک طویل عرصے سے بلوچ قومی تحریک کے ان بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہیں،

تربت میں بھی کئی پرائیوٹ تعلیمی اداروں پر چھاپے مار کر کئی اساتذہ گرفتار اور کئی سینٹر بند کردیئے گئے۔ تربت کے عطا شاد ڈگری کالج پر چھاپہ اور وہاں طلباء کے غیر نصابی کتابوں کو دہشتگردانہ مواد ظاہر کرکے ہاسٹل کو سیل کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔

اس سے پہلے بلوچستان کے علاقے خضدار میں بھی ایک بلوچ استاد رزاق بلوچ کو اسلئے شہید کیا گیا تھا کہ وہ جھالاوان اکیڈمی کے نام سے خضدار میں جدید ، روشن خیال اور مخلوط تعلیم نظام کو عام کررہے تھے ۔

اسی طرح پروفیسر صبا دشتیاری ،ماسٹر علی جان ، ماسٹر سفیر، ماسٹر نذیر اور ماسٹر حامد سمیت کئی بلوچ اساتذہ کو شہید اور درجنوں اسی بنیاد پر لاپتہ کردیئے گئے۔ ان اساتذہ نے بلوچستان میں تعلیمی سہولیات کی محرومی کے خلاف آواز اور مثبت اقدامات اٹھائے۔

کیونکہ بلوچستان میں 36لاکھ بچوں میں سے صرف 13لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں جن میں اکثریت لڑکوں کی ہے۔ کیونکہ بلوچستان میں اب بھی لڑکیوں کی تعلیم کو شجرِ ممنوعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 65فیصد دیہی لڑکیاں کبھی اسکول گئی ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ پورے صوبے میں لڑکیوں کے لیے صرف درجن بھر ڈگری کالجز ہیں، جبکہ 11اضلاع میں لڑکوں کے لیے بھی ڈگری کالجز نہیں ہیں۔

صوبے میں 86فیصد بچے گورنمنٹ اور16فیصد پرائیویٹ اسکولز میں پڑھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی زبوں حالی پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ 36فیصد اسکولز میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جبکہ 56فیصد اسکولوں میں بجلی کی فراہمی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اگر صوبے کے کالجز اور یونیورسٹیز کی بات کی جائے، تو یہاں پر بھی حالت قابلِ تشویش ہے۔ جن جن مشکلات کا سامنا طلبہ کو کرنا پڑتا ہے اُن میں سب سے بڑا مسئلہ فیسوں میں مسلسل اضافہ، ہاسٹلز کی عدم موجودگی، ٹرانسپورٹ کے مسائل، اساتذہ کی کمی، غیر منظم سمسٹر سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔

مذکورہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھانے کے بجائے نامعلوم گروہ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جو ایک افسوسناک عمل ہے۔ ایسے واقعات سے بلوچستان اس سائنسی دور میں بھی پتھر کے زمانے میں چلاجائیگا۔ اور لاکھوں بچوں کا مستقبل تاریک ہوجائیگا۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ

%d bloggers like this: