اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا دستوری اصلاحات ضروری ہیں؟۔۔۔حیدر جاوید سید

اصولی طورپر یہ بات درست ہے کہ ریاست اور آئین سیکولر ہی ہونے چاہئیں۔ ایک مذہبی فہم کی ریاست اپنے ہی بنیادی مذہب کے مختلف فرقوں کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بحث یہ تھی کہ
’’سیکولر آئین کے بغیر معاملات کا آگے بڑھنا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جائے گا‘‘۔
اصولی طورپر یہ بات درست ہے کہ ریاست اور آئین سیکولر ہی ہونے چاہئیں۔ ایک مذہبی فہم کی ریاست اپنے ہی بنیادی مذہب کے مختلف فرقوں کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتی۔
ہم اپنے چار اور کی جن ریاستوں کے مذہبی چہروں کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں ان میں مذہبی پاپائیت، ملوکیت یا پاپائیت بذریعہ انتخابات قائم ہے۔
آپ حیران ہوگے کیا انتخابات کے ذریعے بھی مذہبی پاپائیت قائم کی جاسکتی ہے۔ جی بالکل کی جاسکتی ہے اگر وہ ریاست اپنے بنیادی فہم سے متصادم نظریات کےلوگوں کو انتخابی عمل میں حصہ ہی نہ لینے دے تو ظاہر ہے کہ یک طرفہ نظام پاپائیت ہی قرار پائے گا۔
خیر ہم ابتدائی سطور والی بات پر آتے ہیں۔
پاکستان کے دستور میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تبدیلیاں اب کسی عمرانی معاہدہ کے تحت ہی ہوسکتی ہیں۔
عمرانی معاہدہ کیسے اور کون کرے؟ سادہ سا اصول ہے وہ یہ کہ اولین طور پر یہ تسلیم کیا جائے کہ پاکستانی فیڈریشن پانچ اقوام کی فیڈریشن ہے۔ ریاست غیرمذہبی ہوگی۔ دستور ریاست کی جغرافیائی حدود میں آباد لوگوں کے مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔
ثانیاً یہ کہ قوموں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
ثالثاً قوموں کو فیڈریشن کی اکائی سمجھا جائےگا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمرانی معاہدہ ریاست میں آباد قوموں کے درمیان ہی ہوگا اس کے ذریعے دستور کے خدوخال درست کئے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گاکہ مستقبل میں دستور میں ترامیم قوموں کی رضامندی سے ہوں گی۔
جہاں تک نئے دستور کی تشکیل کی بات ہے تو ایک طالب علم کے طور پر میری رائے یہ ہے کہ یہ مشکل ہوجائے گا۔ ہم 1973ء سے آگے بلکہ بہت آگے بڑھ آئے ہیں۔
نئی دستور سازی سے بہتر راستہ عمرانی معاہدہ ہے اسی کے ذریعے ان خامیوں کو دور کیا جاسکتا ہے جن پر تحفظات ہیں یا ان کی وجہ سے شدت پسندی کو تقویت ملتی ہے۔
دستور کے حوالے سے بحث اٹھانے والے دوستوں خصوصاً کامریڈ بشیر حسین شاہ کی آراء قابل احترام اور قابل توجہ ہیں۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم (فیڈریشن) نئی دستور سازی کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ جذباتیت کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ دستور کو شدت پسندی کی چھتری بناکر ہی وہ کام ہوئے جو نہیں ہونے چاہئیں تھے۔
اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کیا ریاست کو مذہبی معاملات میں اجتہاد کا حق ہے؟
اجتہاد کے حامی ہمیشہ سے یہ کہتے آرے ہیں کہ ریاست ہی ایسے قانون و ضوابط کے اطلاق کی ذمہ دار ہے وہ اس حوالے سے سختی بھی کرسکتی ہے۔
ایک رائے اس کے برعکس ہے وہ یہ کہ سماجی ارتقاکے خلاف قانون سازی اور مذہبی امور میں اجتہاد ریاست کا حق نہیں ریاست کا فرض یہ ہوتاہے کہ اعتدال پر مبنی سماج کی قدروں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی ریاست کو مذہبی اجتہاد کا حق تھمادیا جائے تو وہ خود اپنے اساسی مذہب کے مختلف فرقوں کےدرمیان کیسے توازن رکھ پائے گی؟
ہم جب دستور سازی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں خدشات و امکانات دونوں مدنظر رکھنا ہوں گے۔
مکرر عرض کروں گا1973ء کے دستور میں عمرانی معاہدہ کے ذریعے تبدیلیاں یقیناً ناگزیر ہیں۔ ایک حقیی عوامی جمہوری فلاحی ریاست، دستور کی مذہبی ساخت کے ساتھ تشکیل نہیں پاسکتی۔
یوں بھی ہم پچھلے 73 برسوں سے تجربے کررہے ہیں یا فتوے اچھال رہے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ دستور تجربوں اور فتووں کے مانع نہیں ہوپایا۔
اس کی دو جوہات ہیں اولاً سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ جس کی اجارہ داری ہی مذہب کی بنیاد پر قائم ہے ظاہر ہے وہ کیسے چاہے گی کہ پاپائیت کا سر چڑھ کر بولتا جادو اپنا اثر کھودے کیونکہ بے اثری کا مطلب یہ ہوگا کہ خود اسٹیبلشمنٹ بے توقیر ہوجائے۔
جس بنیادی معاملے کو ہم نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر عصری شعور کے ساتھ معاملات کو سمجھنے اور آگے بڑھنے کے ضوابط وضع نہ کئے گئے تو پھر کیا ہوگا؟
جس بات کو ہمارے سیاستدان اور ’’مالک اشرافیہ‘‘ کے ساتھ مذہبی رہنما مسلسل نظرانداز کرتے آرہے ہیں وہ یہ ہے کہ شدت پسندی نے ہماری سماجی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ دستور کے عدم توازن بارے رائے رکھنے والے دوست اور اہل دانش کی آراء پر ناک چڑھانے اور فتوے کھڑکانے کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
دستوری عدم توازن کی وجہ سے شدت پسندی اور مخصوص فہم کو ریاستی بیانیہ بنانے سے جو عدم تحفظ پایا جاتاہے اس کا تدارک ضروری ہے۔
بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو ان معاملات پر توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ حالانکہ سوچا یہ جانا چاہیے کہ کمزور بنیادوں پر پائیدار عمارت تعمیر ہوتی ہے نا عدم تحفظ کا شکار لوگوں اور ریاست کے درمیان اعتماد مستحکم ہوتاہے۔
یہ وہ نکات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے محض ضرورت ہی نہیں بلکہ یہ بھی دستوری اصلاحات کے لئے پارلیمان کے اندر اور باہر وسیع بنیادوں پر مکالمہ ہونا چاہیے۔
مکالمہ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو حتمی نتیجہ اخذ کرنے میں معاون بن سکتاہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جو کام دس بیس برس بعد ہونے ہیں کیوں نہ ان پر آج سوچ سمجھ لیاجائے اور اگر غوروفکر کے بعد اب یہ کام کرلئے جائیں تو ان مشکلات سے بچا جاسکتا ہے جو تیزی سے بڑھتی چلی آرہی ہیں۔

%d bloggers like this: