اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملاح اور چراغی(قسط 6)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

معروف کالم نگار، محقق و مورخ جناب گلزار احمد خان اور محقق و ادیب وجاہت علی عمرانی کی ثقافتی، سماجی، روایتی اور تاریخی یادوں پہ مبنی افسانوی و ادبی طرز کی مشترکہ تحریر ملاح اور چراغی جو کہ 11 اقساط پر مبنی ہےنذر قارئین ہے۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں انہیں سوچوں میں چلا جا رہا تھا کہ ایک بیڈ فورڈ ڈالا مجھے کراس کر کے تھوڑی دور جا کے رُک گیا۔ میں اپنی مگن میں چلتا جا رہا تھا۔ چند لمحوں بعد ڈیرہ سے ایک خصوصی لانچ آتی دکھائی دی جو اس بیڈ فورڈ ڈالے کے سامنے کنارے لگ گئی۔اس لانچ میں سے ایک کالے برقعے میں ملبوس خاتون اپنے تین بچوں کے ساتھ اتری اور تیز قدم بھرتی اس ڈالے میں جا کہ بیٹھ گئی۔ ڈالے کے ڈرائیور نے لانچ سے سامان اتار کر ڈالے کی پچھلی کھلی جگہ پر رکھ دیا۔ یہ ڈیرہ کے کسی بڑی شخصیت کی فیملی تھی جو پنجاب جا رہی تھی۔ میں ڈالے کو کراس کر کے تھوڑا آگے نکل چکا تھا۔
جب ڈالا میرے نزدیک آیا تو ڈرائیور نے ڈالے کو بریک لگائی اور اندر ہی سے مجھ سے مخاطب ہوا کہاں جانا ہے؟ میں نے کہا دریا خان! تو ڈرائیور نے کہا بی بی صاحبہ نے کہا ہے کہ اگر دریا خان جانا ہے تو پیچھے کھلی جگہ پر سامان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ واقعی وہ بہت نیک خاتون تھیں،شاید ان کو معلوم تھا کہ اس بیٹ پر مجھے بس نہیں ملنی، اس لیے مجھے انہوں نے بٹھا لیا۔ اب میں ڈالے میں ٹرک کی طرح بنی جگہ پر بیٹھ گیا اور ڈالا ہچکولے کھاتا ہوا رواں دواں تھا۔ہمارے راستے میں ایک اور بڑا دریا اور دو ” وہیرے ” آئے جن کے اوپر پل موجود تھے۔
اسی طرح فطرت کے نظارے کرتا دریاخان پہنچ گیا۔ بی بی صاحبہ اور ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا۔ جب میں پہنچا تو اس وقت دریاخان میں گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور لگتا تھا کہ چند لمحوں بعد بارش آ جائے گی۔ زیادہ تر لوگ بارش کا لطف یا تو آپ بھیگ کر لیتے ہیں یا بالکنی میں بیٹھ کر گرتی ہوئی بوندوں اور چمک دار آسمان کو دیکھ کر۔ لیکن میں چاہتا تھا کہ بارش سے پہلے دریا خان کے ریلوے سٹیشن پہنچوں۔
کیونکہ دریا خان ریلوے سٹیشن کی عمارت پر جو پرنالے لگے ہیں وہ شیر کے منہ کی شکل کے ہیں۔چونکہ میں لاہور آتے جاتے اکثر دریاخان سے گزرتا تھا تو وہ پرنالے مجھے بہت اچھے لگتے اور میں چاہتا تھا کہ ان شیر کے منہ والے پرنالوں سے بارش کا پانی بہتا دیکھوں۔
میں جلدی جلدی قدم اٹھاتا ہوا ریلوے اسٹیشن سے پہلے اپنے پسندیدہ ہوٹل پر چائے پینے لگا تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ جلدی سے چائے ختم کر کے ہوٹل والے کو پیسے ادا کرنے کے بعد تیزی سے قدم اٹھاتا ریلوے سٹیشن کے اندر داخل ہو گیا۔ ایک چھپر کے نیچے بنے بنچ پر بیٹھ کر سامنے والی چھت کے بنے پرنالے کی طرف نظریں گاڑ دیں۔
بارش کی تیزی کے ساتھ شیر کے منہ والے پرنالے سے پانی نکلنے لگا۔ اس وقت مجھے شیر کے منہ والے پرنالوں سے چھاجوں پانی گرتے دیکھ کر دل کو بہت سکون اور نظروں کوتازگی و سرور میسر ہوا اور بارش رک گئ۔ پورے پندرہ منٹ یہ منظر دیکھتا رہا۔ یہ سچ ہے کہ گرجتا بادل، برستی بارش اور سہانا موسم کتنے دلوں کا امتحان لیتا ہے۔ لیکن میں بارش کو دیکھ کر بچپن میں کھو جاتا ہوں اور دل کرتا ہے کہ زور زور سے کہوں۔۔۔۔۔؎
جسے بارش کے پانی میں بہا کر مسکراتے تھے۔۔
مجھے کاغذ کی وہ کشتی زرہ پھر سے بنا دینا۔۔
جاری ہے

%d bloggers like this: