اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ڈی ایم بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ۔۔۔۔ زلفی

ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی صفوں کو درست کر کے ایک نئے سیٹ اپ کو استوار کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور وہ اپنی بقا کیلئے اپنے مُہرے بدل رہی ہے۔

ذلفی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سیاست کی منڈی میں اپنے اپنے حصص کی قیمت کو مستحکم کرنا اور اسے بیچنا اس سرمایہ دارانہ سماج کا وطیرہ رہا ہے۔

اس مقصد کیلئے مارکیٹنگ کو ایک اہم ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ اپنی اپنی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔

آج کی دنیا میں ٹھوس(Material) کاروبار کے پیچھے ایک اہم ہتھیار بیانئے کا ہوتا ہے اور ان بیانیوں کو نظریات کی اوڑھنی اوڑھ کر لوگوں کی نبض کو مد نظر رکھتے ہوئے مارکیٹ میں بیچا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں سیاست کے پیٹرن بدل رہے ہیں۔ جمہوری حقوق کی باتیں ہو رہی ہیں، پراکسی وارز کے پیچھے چھپے مقاصد کو لوگوں کے سامنے لایا جا رہا ہے، جمہوریت کو بہترین نظام حکومت کا درجہ دیا جا رہا ہے، شدت پسندی اور صنفی امتیاز کو ڈسکس کیا جا رہا ہے، ماحولیات اور سائنس کے کردار کو ہمارے سامنے لایا جا رہا ہے، ایسی صورتحال میں پسماندہ سیاسی نظریات اور نظام حکومت پوری دنیا میں چیلنج ہو رہے ہیں۔

سعودی عرب اور ایران سے لیکر چائنا اور روس جیسی ریاستوں کو بھی اب ” گھن گھیر” میں اپنے بیانئے اور پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

یہی اجتماعی فضا ہمارے ملک پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے ۔ دنیا ایک ایسے نیو ورلڈ آرڈر کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں پر پُرانی سیاست کے پیٹرنز کو تبدیل کرنا ضروری ہو گیا ہے ورنہ بہت ساری ریاستوں کو اپنی بقا کے مسائل کا شدت سے سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے بیانئے کی اس جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور میڈیا ہاوسسز کا اعلان بھی کیا تھا مگر وہ گھسا پٹا طریقہ اس ریشنل دنیا میں زیادہ کارگر نہیں ہے اس کیلئے سب سے ضروری بات اپنے ملک کے اندر موجود سیاسی بیانئے اور انفراسٹرکچر کو بدلنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

اس پریشر ہے تناظر میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی صفوں کو درست کر کے ایک نئے سیٹ اپ کو استوار کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور وہ اپنی بقا کیلئے اپنے مُہرے بدل رہی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو لانے کا مقصد یہی تھا مگر تحریک انصاف میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اتنی بڑی اُکھاڑ، پچھاڑ کر سکتی۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے نئے سیاسی چہرے (پی ٹی آئی) نے اپنے تئیں ادارہ جاتی پریشر کا آخری حد تک استعمال کر کے نئے اور پرانے سیاسی مخالفین کو نیست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی مگر کمزور معیشت اور عالمی طاقتوں کی عدم دلچسپی کے باعث ان کو مطلوبہ کامیابی مل نہیں سکی جس کی وجہ سے طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنی صفوں کو نئے سرے سے ترتیب دینے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے حصول کیلئے اسے پُرانے اثاثہ جات کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ کافی سوچ بچار اور بحث کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو موجودہ سیاسی حکومت سے آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے اپنے راستے الگ کرنا شروع کر دئے اور زیادہ توانائیاں پرانے وفاداروں کے ساتھ جوڑنا شروع کر دی ہیں۔

جس کی جھلک دو دن پہلے عمران خان کی طرف سے اپنے اتحادیوں کے اعزاز میں دئے گئے ظہرانے سے با خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں ان کی اہم اتحادی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کی وفادار ق لیگ نے شرکت ہی نہیں کی ۔ایم کیو ایم سمیت ، پیر پگارا، اختر مینگل اور بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلی تک نے اس حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور شکایات کے انبار لگا دئے۔ یہ سیاسی شعور رکھنے والوں کیلئے بہت بڑی نشانیاں ہیں۔

ان نشانیوں سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ اپنی نئی ٹیم تشکیل دینے میں سنجیدہ ہے اور وہ اپنے پتے پس پردہ بخوبی کھیل رہی ہے۔

جس طرح مشرف دور میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی بقا کی خاطر مشرف حکومت کو منظر سے ہٹانے کیلئے وکلا تحریک کو لانچ کرنا پڑا تھا اسی طرح اب پی ڈی ایم کے اندر سے وہ اپنے ” اثاثہ جات” کو نئے سرے سے استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے پنجاب کی سر زمین ہی استعمال ہوتی رہی ہے اور اب بھی پنجاب اپنی مطلق طاقت کا استعمال کرتے ہوئے آخری تجزئے میں وہاں کا کر کھڑا ہو گا جو اس کا پرانا مسکن ہے۔ اس لئے بلاول کے موجودہ بیان کو جس طرح تروڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی نئی پارٹی بن کر سامنے ائیگی۔

میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ کسی بھی جماعت کے اجتماعی شعور اور اس کی بنیادوں میں شامل وزڈم کو آپ مصنوعی طور پر سنب نہیں کر سکتے۔ اس لئے ایسا کرنا اسٹیبلشمنٹ کی اپنی بقا کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہوگا۔ میرے خیال میں وہ یہ رسک یا خطرہ کبھی بھی مول نہیں لے گی۔

اب اس نازک سیاسی صورتحال میں سیاسی لیڈرشپ کا بہت بڑا امتحان ہو گا۔ وہ کس طرح اس نئی سیاسی صورتحال میں اپنے آپ کو پیش کرتی ہے اور کس طرح اس پیچیدہ صورتحال سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتی ہے۔ اس کا ایک ٹیسٹ بلاول بھٹو کے کل کے انٹرویو میں سامنے آ چکا ہے جس میں وہ اپنے بیانات میں وہ وزڈم نہیں دیکھا پائے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑے گا کیونکہ اب حملہ ہر طرف سے کیا جائیگا اور یہ چو مکھی لڑائی بہت ” اٹکل” اور سمجھداری سے لڑنی پڑے گی ورنہ چھوٹی سی غلطی بھی پیپلز پارٹی کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گی۔

%d bloggers like this: