مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات(5)۔۔۔عباس سیال

کوئی ایسا ترقیاتی عمل جو اس خطہ کی ڈیموگرافی،وہاں کی لسانی ثقافت شناخت کو بدلتا ہو اس عمل کو ریڈ انڈین نائزیشن سے تعبیر کیا جاتا ہے-

نیلی بار کالونی:                 نیلی بار کالونی جو 1925ء میں بنائی گئی اس میں بھی 37,000ایکڑ رقبہ کچھ ا س قسم کے لوگوں میں انعام کے طور پر تقسیم کیا گیا۔لوئر باری دوآب ا ور بعدمیں لوئر چناپ کالونی کی توسیع کے دوران بھی اس مد میں حصہ رکھا گیا۔یہ گرانٹس سیاسی تحریکوں کے خلاف انگریز حکومت کی معاونت اور مدد کرنے کے صلے میں وفاداروں تقسیم کی گئیں۔مثال کے طور پر1920میں کالونی گرانٹس ان لوگوں کیلئے منظور ہوئیں جنہوں نے اکالی تحریک کے خلاف کام کیا تھا۔یہ مراعات مختلف رقبوں پر مشتمل تھی جو13سے100ایکڑ تک تھے اور جو عموماً انگریز حکومت کے مخبروں،جاسوسوں،پولیس اور سول افسران،مقامی اشرافیہ اور ان مخصوص خاندانوں کیلئے تھیں جو اکالی دل تحریک کے دوران انگریز حکومت کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے یا پھر زخمی ہوئے تھے۔ان گرانٹس کا حجم13-100 ایکڑ تھا جو مخبر، پولیس، سول حکام اور مقامی شخصیات اور افراد کی ہلاکت یا شدید زخمی ہونے کے بعد ان کے خاندانوں کو الاٹ کیے گئے تھے۔

                        برطانوی حکومت کا سب سے آخری منصوبہ نیلی بار دوآب تھا۔اس اسکیم کے تحت تقریباً آٹھ لاکھ ایکڑ زرعی رقبہ جدید نہری نظام کی وجہ سے قابل کاشت بنایاگیا جبکہ اس کا 260,000(دو لاکھ ساٹھ ہزار ایکڑ) رقبہ سیلابی نہروں اور بارانی تھا۔سیلابی نہری اور بارانی زمینوں پر مشتمل حصہ زیادہ تر ساہیوال اور ملتان کے مقامی جانگلیوں میں تقسیم ہوا۔نیلی بار میں آباد کاری کی ابتداء1925 ء میں ہوئی جو1940ء کے لگ بھگ پایہ تکمیل کو پہنچی۔اس اسکیم میں گھوڑے پال اسکیم کو ختم کر دیاگیا،مگریہاں پر بھی زرعی ذاتوں کو اولیت دی گئی تھی۔اس میں 75,000 ایکڑرقبہ سابقہ فوجیوں کیلئے مختص تھا۔

اس اسکیم کے تحت بھی زیادہ تر گرانٹس لینے والے افراد کا تعلق وسطی پنجاب کے اضلاع امرتسر،فیروزپور،گورداسپور،جالندھراورلدھیانہ سے تھا جبکہ مغربی پنجاب کے اضلاع سے بہت کم لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔نیلی بار کالونی کی سب سے منفر دبات یہ تھی کہ پہلی بار 360,000ایکڑ (45فیصد رقبہ)سرکاری نیلامی کیلئے پیش کیا گیا۔اس نیلامی سے انگریز حکومت کو بہت جلد خطیر رقم حاصل ہوئی،بعد میں آبادکاروں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق بھی دے دئیے گئے۔

اس نیلامی کے نتیجے میں امیر سرمایہ دار پنجابیوں نے زمینیں حاصل کیں،جن کا تعلق اگرچہ زرعی ذاتوں سے نہ تھا،مگر اس قسم کی خرید و فروخت کے نتیجے میں ایک کمرشل اور پیشہ ور گروہ ابھر کر سامنے آیا۔نیلی بار کالونی کی نیلامی کا منصوبہ کئی سالوں تک کیلئے پلان کیا گیا تھا۔حکومت نے شروع میں ہر سال 15,000ایکڑ رقبہ نیلام کرنے کا منصوبہ بنایا،جس کے مطابق سارا رقبہ بیس سے پچیس سالوں کے اندربیچنا تھا۔نیلی بار کالونی کی نیلامی کا عمل1926کے آخر میں شروع ہوا اور اسی دوران تقریباً 40,000ایکڑ رقبہ فروخت کر دیا گیا،مگرچند سال بعد اقتصادی بحران نے برٹش حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،جس کے باعث زمینوں کی قیمتیں گر گئیں اور اس بحران نے ڈرامائی شکل اختیار کر لی،مجبوراً حکومت کو نیلامی کا عمل کچھ عرصے کیلئے روکنا پڑا۔انگریز سرکار نے نیلی بار کالونی کی نیلامی کو 1938کے بعددوبارہ شروع کیا اور 1940 تک 5000 ہزار ایکڑ سالانہ زمین نیلام کی گئی مگر زمین کی قیمتیں 1930سے پہلے کے گراف سے بھی نیچے رہیں۔

 نیلامی کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اقتصادی بحران سے قبل سکھوں نے زیادہ تر زمینیں خریدکیں۔سکھوں نے نیلی بار کالونی کا 30 فیصد(36,000ایکڑ) جبکہ مسلمانوں نے 33,000ایکڑ اورہندوؤں نے49,000ایکڑ رقبہ خرید کیا۔

                        برطانوی حکومت کا دور ا س بات کا گواہ ہے کہ اُس دور میں نہ صرف اقتصادی تبدیلیاں رونما ہوئیں بلکہ برٹش پنجاب کی ڈیموگرافی کو جان بوجھ کر تبدیل کر دیا گیا اور مشرقی پنجاب کی آبادی کا ایک بہت ریلا مغربی پنجاب کی طرف منتقل کیا گیا۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ تقسیم سے قبل مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیوں میں غیر مسلم سکھوں اور پنجابیوں کو ایک بڑا حصہ ملا جبکہ مقامی سرائیکیوں کو نہ صرف اپنی زمینوں اور وسائل سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ سرائیکی خطے کے وسائل کو مشرقی پنجاب اور بعد میں شمالی پنجاب کے لوگوں میں بانٹ دیا گیا۔

پنجابیوں کو نہ صرف زیادہ سے زیادہ مراعات دی گئیں بلکہ انہیں انفرادی طور پر بھی خوب نوازا گیا۔ ہزاروں ایکڑ اراضی بابا سر کھیم سنگھ بیدی اور سردار جوگندرا سنگھ کو تفویض ہوئی،جس سے جاگیردارانہ نظام کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوئیں۔

            برٹش پنجاب فوجی اعتبار سے بھی کافی اہمیت کا حامل تھا،اسی لیے اس صوبے میں بننے والی ہر کینال کالونی میں فوج کیلئے زمینیں مختص کی گئیں۔دونوں قسموں کے مراعات یافتہ افراد کاتعلق دیہی اشرافیہ اور زمیندار گھرانوں سے تھااور ان دونوں گروہوں کو سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط کرنے کا مقصد پنجاب کی اقتصادیات کوبڑھانا،خطہ پنجاب میں قوم پرستی کو ختم کرنا،انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی بغاوتی اور انقلابی تحریکوں کو دبانا اور برٹش سرکار کی حمایت یافتہ جاگیردارنہ پارٹی (پنجاب نیشنل یو نینسٹ پارٹی) کو سیاسی طور پر مضبوط کرناتھا۔

            ایگری کلچرل کو لو نائزیشن سسٹم کے تحت کینال کالونیز میں کمرشل گروہوں کو نیلامی کے زریعے جو زمینیں ملیں ان سے انہیں بھی کئی قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔جن سے ان کے کاروبار میں نہ صرف غیر معمولی اضافہ ہوا بلکہ بلکہ انہیں ایگرو پروسیسنگ اور زرعی کریڈت بھی ساتھ ملا،اس کے علاوہ سرکاری ملازمت کے مواقع اور سرکار کی خدمت کے عوض دیگر مراعات میں بھی اضافہ ہوا۔ان مراعات یافتہ افراد میں سے اکثر یت غیر مسلم سکھوں کی تھی جو آزادی کے بعد دوبارہ اپنے علاقے مشرقی پنجاب کو ہجرت کرگئے۔ہجرت کے دوران جب پنجاب کی تقسیم ہوئی تو اس وقت بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور کئی خاندانوں نے مصائب کا سامنا کیا،اس کے پیچھے سب سے اہم عنصر اپنے وسائل سے محرومی تھا۔

کوئی ایسا ترقیاتی عمل جو اس خطہ کی ڈیموگرافی،وہاں کی لسانی ثقافت شناخت کو بدلتا ہو اس عمل کو ریڈ انڈین نائزیشن سے تعبیر کیا جاتا ہے-

کینال کالونیز انہی علاقوں میں بنی تھیں جن کو سرائیکی بیلٹ کہا جاتا ہے-ور پھر جب یہ کالونیز بن گئیں تو ان کالونیوں میں انگریز کی آشیرباد سے مشرقی پنجاب سے بہت زیادہ ہجرت ہوئی-

یہ بھی پڑھیے:

مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات(3)۔۔۔عباس سیال

مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات(2)۔۔۔عباس سیال

برطانوی سامراج کے دوران مغربی پنجاب میں سکھوں کی آبادکاری۔۔۔ عباس سیال

%d bloggers like this: