اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات(3)۔۔۔عباس سیال

یہ سب وصول کنندگان ایگری کلچرل ذاتوں سے نہ تھے بلکہ سخت گیر مذہی سکھ تھے جنہوں نے اپنی رجمنٹوں میں خدمات سر انجام دی تھیں

لوئر رچنا کالونی میں پنجابی آبادکاروں کو رچنا دوآب کے مقامیوں کے مقابلے میں ایک تہائی کی بجائے د وتہائی یعنی دگنی اراضی تفویض ہوئی۔مشرقی اور وسطی پنجاب سے لائے گئے یہ آبادکار انگریزی حکومت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند تھے، جن میں سے بیشتر کا تعلق لینڈ ہولڈرذ اور ہنرمند افراد سے تھا۔چونکہ وسطی پنجاب میں پہلے ہی آبادی کا بے ہنگم دباؤ تھا،اسی لیے آبادکاروں کو یہاں آکر معاشی اور اقتصادی سکون میسر آیا۔

لوئر رچنا کینال کالونی کے آباد کاروں کے تعین کیلئے برطانوی حکومت نے وسطی پنجاب کے سات اضلاع کا انتخاب کیا،جس میں انبالہ،امرتسر،گورداسپور،ہوشیارپور،جالندھر اور سیالکوٹ شامل تھے۔ان سات اضلاع میں سے زیادہ تر کا تعلق امرتسر سے تھا،جنہیں اڑھائی لاکھ ایکڑ اراضی گرانٹ کی گئی،جبکہ انبالہ کے سکھوں کو ایک لاکھ ایکڑ اراضی دی گئی۔اس میں وسطی پنجاب کے کئی ا ور بھی اضلاع شامل تھے جہاں کے آبادکاروں کو تھوڑی بہت اراضی ملی،لیکن 80فیصد اراضی ان سات اضلاع کے آبادکاروں میں تقسیم کی گئی،جو ساری کی ساری سکھ آبادی پر مشتمل تھے۔معاشی اور سماجی برتری قائم رکھنے کی خاطر برطانوی حکومت نے پہلے ہی ایگری کلچرل ذاتوں میں زمین کی تقسیم کو ممکن بنایا تھا۔

امیر غیر ایگری کلچرل اگرچہ بولی میں سرکاری زمین خرید سکتا تھا مگر غریب غیر ایگری کلچرل پرمکمل پابندی عائد تھی۔تقریباً675,000ایکڑ رقبہ جٹ آبادکاروں میں تقسیم ہوا جس میں 230,000ایکڑمسلم جبکہ باقی کا رقبہ ہندوؤں اور سکھوں میں تقسیم ہوا۔غیر مسلم آباد کاروں میں سب سے نمایاں کمبوہ،سیانی او رراجپوت ذات کے سکھ وہندو شامل تھے۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وسطی پنجاب سے سکھوں کی ایک بہت ہی معقول تعداد کو بطور آباد کار رچنا دوآب میں لا کر بسایا گیا تھا۔

مغربی پنجاب کے علاقوں میں کینال کالونیاں بننے کے دس سالوں کے اندر ہر ایک ضلع میں آبادی کا تناسب ستر فیصد بڑھا جب کہ باقی ماندہ برٹش پنجاب میں آبادی میں سات فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔انگریزوں کی آبادکاری پالیسی کے تحت نئے اور قیمتی اقتصادی وسائل تک رسائی کیلئے دیہی سوسائٹی کابالائی طبقہ مضبوط تر جبکہ غریب بے زمین ہاری معاشی طور پر کمزور کر دیا گیا۔ان سفاک طریقوں سے زمین کی منتقلی کا مقصد برطانوی سامراج کا خطے میں پہلے سے موجود غالب قوتوں کو مزید مضبوط کرنا تھا۔اس کے علاوہ وسطی پنجاب میں جن جن ذاتوں کو گرانٹس دی گئی تھی وہ سب ہندوستانی فوج میں بھی اپنے کام سرانجام دے رہے تھے۔

فوجی وابستگی کے باعث نو آبادیاتی نظام میں بھی ان افراد کا اثر رسوخ قائم ہو گیااور یہ ذاتیں برٹش آرمی میں ریڑھ کی ہڈی بن گئیں۔لوئر چناپ کالونی میں 15,000ایکڑ کوٹہ سابق فوجیوں کیلئے مختص تھا مگر گوگیرہ برانچ میں اسے بڑھا کر 70,000ایکڑ کر دیا گیا،اس طرح بعدمیں بننے والی کینال کالونیز میں فوجیوں کا حصہ بتدریج بڑھتا چلا گیا۔لوئر چناب کے تین دیہاتوں میں 23rd،22ndاور34thرجمنٹ کو زمینیں ملیں۔

یہ سب وصول کنندگان ایگری کلچرل ذاتوں سے نہ تھے بلکہ سخت گیر مذہی سکھ تھے جنہوں نے اپنی رجمنٹوں میں خدمات سر انجام دی تھیں۔1911 میں لائل پور اور گوجرنوالہ کے مذہبی آبادکاروں کو ایگری کلچرل ذات کی حیثیت دے دی گئی۔

لوئر جہلم کالونی: اس کے بعد ضلع شاہ پور کا لوئز جہلم کالونی پراجیکٹ لانچ کیا گیا جس میں فوجیوں کا کوٹہ پہلے سے کہیں زیادہ رکھا گیا۔یہ منصوبہ1902  کو شروع ہوا اور1906 کے درمیان پایہ تکمیل کو پہنچا جس کا ہیڈ کوارٹر سرگودھا تھا۔سابقہ منصوبوں کے برعکس اب کی بار شہری آبا دکاروں کو بھی بسانے کا فیصلہ کیا گیا جس کی خاطر شمال مغربی پنجاب کے مسلمان علاقوں کے آباد کاروں کا انتخاب کیا گیا۔

لوئر جہلم کالونی سے پہلے برطانوی حکومت کو ا س بات کا احساس ہو چکاتھا کہ بہت سا زرعی رقبہ وسطی پنجاب کے غیر مسلموں (زیادہ ترسکھوں) کو دیا جا چکاہے چنانچہ اب کی بار پنجاب کے مسلمانوں کو منتخب کیا جائے تاکہ عدم توازن کا خاتمہ کیا جا سکے۔جب لوئر جہلم کالونی کے لیے آباد کاروں کا انتخاب کیا جاچکا تو مرکز کی کولونائزیشن پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔

گھوڑے اور خچر کمیشن کی 1901ء کی رپورٹ کے مطابق نئے آباد کاروں کیلئے لازمی قرار دیاگیا کہ وہ برٹش فوج کیلئے نہ صرف گھوڑے اور خچر کی افزائش کو یقینی بنائیں گے بلکہ برطانوی فوج کیلئے اسے مہیا بھی کریں گے،تاکہ فوجی مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔

چنانچہ اس کے بعد آبادکاروں کیلئے برٹش فوج کے گھڑ سوار دستوں کیلئے گھوڑے پالنا اور مہیا کرنا لازمی قرار دیا گیا جس کے بعد زرعی ہنر مندی کو ثانوی درجہ مل گیا،مگر آباد کار ابھی بھی ایگری کلچرل ذاتوں سے ہی چنے گئے،جنہیں اپنی گزر اوقات قائم رکھنے کیلئے کم از کم55ایکڑ تک زمین دے دی گئی۔گھوڑا پال اسکیم کیلئے بڑے پیمانے پر گرانٹس دیہات کے با اثر حکمران کلا س کو دی گئیں اور بہت سے گھوڑے پالنے کیلئے انہیں 40ایکڑ فی گھوڑا زمین بھی دی گئی۔

سکھوں کو بھی اس ضمن میں کئی گرانٹس ملیں جبکہ پنجاب کے کئی اضلاع کے مسلمان زمیندار گھرانوں میں بھی کچھ حصہ بانٹا گیا۔لوئر جہلم کالونی کے گرانٹ شدگان کو گھوڑا پال مربعوں سے نوازا گیا اس میں ضلع راولپنڈی کے با اثر افراد بھی شامل تھے،مگر زیادہ تر گرانٹس گجرات،سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کو دی گئی اور ان علاقوں میں بھی سکھوں نے نمائندگی کی۔لوئر جہلم کالونی کئی موضعوں اوردیہاتوں پر مشتمل تھی جہاں پر سکھوں کو زمینیں دی گئیں۔لوئر جہلم کالونی کے آبادکار وں کو بھی مالکانہ حقوق نہیں دئیے گئے کیونکہ یہ زمینیں انہیں گھوڑا پال کیلئے دی گئی تھیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آباکاروں نے گھوڑا پال اسکیم کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا جس میں اکثریت سکھوں کی تھی،مجبوراً حکومت نے اس قانون کو 1940ء میں ہی ختم کر دیا۔گھوڑا پال اسکیم کے علاوہ برٹش ملٹری کو بھی سابقہ کالونیز کی طرح اس کالونی میں بھی کافی بڑا حصہ ملا۔

تقریباً4,45000ایکڑالاٹ شدہ زمین میں سے 75,000ایکڑ سابق فوجیوں کو پنشن کی مد میں ملا۔سکھوں کی موجودگی فوج میں زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر بھی ان کے ہاتھ بہت کچھ آیا۔جو سکھ فوج کی کیولری رجمنٹ میں تھے انہیں گھوڑا پال اسکیم کے تحت زمینیں بھی دی گئیں۔ان ملٹری گرانٹس کو وصول کرنے ولاے سا رے کے سارے پنجابی تھے جو ہندوستان کی مختلف رجمنٹوں (پنجاب،بنگال،بمبئی،برما اور مدراس وغیرہ) میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

اس کالونی میں رجمنٹ افسران کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے لیے گرانٹس کا انتخاب کریں،مگریہ چوائس زرعی آبادکاروں کو نہیں دی گئی بلکہ صرف فوجیوں کیلئے مخصوص تھی کہ وہ اپنی مرضی کی گرانٹ لیں۔اس کالونی میں مقامی جانگلیوں کو بھی60,000ایکڑ رقبہ الاٹ ہوا،اس کے علاوہ سول افراد کو بھی الاٹمنٹ ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے: مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات(2)۔۔۔عباس سیال

برطانوی سامراج کے دوران مغربی پنجاب میں سکھوں کی آبادکاری۔۔۔ عباس سیال

%d bloggers like this: