اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تخت سلیمان کا رومانس۔۔۔گلزاراحمد

انہوں نے کہا شیرانی قبائل کا یہ علاقہ ہے شیرانی انتہائی پرامن اور مہمان نواز اور اچھے لوگ ہیں اور درازندہ اس علاقے کا بڑا شہر ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان شھر کے مغرب میں کوہ سلیمان تقریبا ایک سو کلو میٹر پر واقع ہے جب ہم چھوٹے تھے تو آلودگی کم تھی اور یہ پہاڑ ہمارے گھروں سے صاف نظر آتے ۔سردیوں میں برف سے لدی چوٹیاں عجیب نظارہ پیش کرتیں ۔ پھر تخت سلیمان سے جڑی جنوں پریوں کی کہانیاں ہمارے رومانس کو بڑھاوا دیتیں۔ اس وقت ہمارے گاوں کے لوگ صرف کوہ سلیمان پہاڑ کا نام جانتے تھے۔ جب امریکی سپیس مشن چاند پر اترا تو ہمارے ملک میں بڑا ہنگامہ ہوا اور علما کرام نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

میں اس وقت Fsc میں پڑھتا تھا اور یوں سمجھیں گاوں کا بڑا سائنسدان تھا۔مجھے گاوں کے بڑے بزرگ نے بلا بھیجا اور پوچھا کہ سنا ہے تم اس بات کو مانتے ہو کہ امریکی چاند پر پہنچ گیے ہیں۔میں نے کہا جی میں مانتا ہوں۔پھر انہوں نے سوال کیا یہ بتاو کیا انسان اللہ سے مقابلہ کر سکتا ہے؟ میں نے کہا اللہ سے مقابلہ انسان نہیں کر سکتا۔ تو انہوں نے کہا پھر یہ بات ماننا چھوڑدو ۔ہاں البتہ اگر بہت زیادہ امریکی ترقی کریں تو کوہ سلیمان کی چوٹیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا جو نظر آ رہی تھیں

کہ امریکی اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے ہونگے۔میں نے ہاں جی کہا اور واپس آ گیا راستے میں سوچتا تھا کہ گاوں کے بزرگوں کو کوہ سلیمان کے علاوہ کسی پہاڑ کا بھی پتہ نہیں ورنہ امریکیوں کو کم از کم ماونٹ ایورسٹ تک تو پہنچا ہی دیتے۔۔بہت عرصہ پہلے میں چترال لواری ٹاپ سڑک کے ذریعے شندور کا پولو میچ دیکھنے جایا کرتا تھا اور لواری ٹاپ کی چوٹی پر کھڑا ہو کے سوچتا کہ یہ چوٹی تخت سلیمان سے کم بلند ہے مگر وہاں موسم تبدیل ہوجاتا ہے اور تیز ہوا۔

گلیشیر لواری ٹاپ کا حسین نظارہ پیش کرتے مگر تخت سلیمان کو کوئی نہیں پوچھتا۔پھر میں نے تخت سلیمان پر لکھنا شروع کیا تو یہاں کے دانشوروں اور مقامی لوگوں نے دلچسپ معلومات دیں۔ مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے حکومت اربوں روپے کرپشن اور بے کار منصوبوں پر سالانہ خرچ کرتی ہے اور productive منصوبوں کو صفر سے ضرب دیتی ہے جس کی وجہ سے ہم مسلسل قرضوں کے جہنمی دلدل میں گرتے جا رہے ہیں۔ چلیں چھوڑیں دل کو کیا اداس کریں آپکو تخت سلیمان کا اصل قصہ سناتا ہوں۔

تخت سلیمان ڈیرہ اسماعیل شھر کے مغرب میں درازندہ کے مقام پر ایک پہاڑ پر واقع ہے جس کی بلندی 11440 فٹ ہے۔ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفرنامے میں اس کا ذکر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کا اڑتا تخت یہاں اترا تھا اس لیے اس پہاڑ کا نام بھی ان سے منسوب ہوا۔سنا ہے ایران کے مغربی آذربائجان کا ایک مقام تخت سلیمان سے مشھور ہے جبکہ کرغستان میں بھی ایک کوہ سلیمان موجود ہے۔اس کے علاوہ ایک بزرگ سید محمد حمزہ گیسودراز اپنے خاندان سمیت یہاں دفن ہیں۔

لیکن بعض مورخ سید محمد حمزہ گیسودراز کی آخری آرام گاہ حیدر آباد دکن انڈیا بتاتے ہیں۔ مسلمان اس تخت کی جگہ چڑھ کر نفل بھی ادا کرتے ہیں۔ ہندووں کے ایک بھگت جس کا نام بھگت شری پرھلاد ہے بھی یہاں قریب رہے ہیں ۔اس طرح پارٹیشن سے پہلے ہندو اور مسلمان اکٹھے گرمیوں کے موسم میں تخت سلیمان پر زیارت کے لیے جاتے تھے۔ دو انگریزوں

major Maclvor and captain.AH Mcmohan

28 جون 1891 کو اس چوٹی پر گیے اور بعد میں 1909 تصاویر بھی بنائی گئیں۔تخت سلیمان کے سلسلے میں جب میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی تو پیر نمیر نے کافی معلومات مزید مجھے دیں۔انہوں نے کہا شیرانی قبائل کا یہ علاقہ ہے شیرانی انتہائی پرامن اور مہمان نواز اور اچھے لوگ ہیں اور درازندہ اس علاقے کا بڑا شہر ہے۔ یہاں مار خور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں

اور پٹھانوں کے جد امجد قیس عبدالرشید کا مزار بھی ہے۔۔قیس عبدالرشید کے متعلق قاضی جمیل صاحب جو PID کے ریٹائیرڈ سینیر افسر ہیں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوے لکھا کہ وہ صحابی تھے کیونکہ حضرت خالد بن ولید کے کہنے پر حجاذ جا کر اسلام قبول کیا تھا۔ پیر نمیر آگے لکھتے ہیں کہ تخت سلیمان پر صدیوں پرانے چلغوزے کے جنگلات ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے اگر آپ تخت سلیمان دیکھنے جانا چاہتے ہی تو اس کے بیس تک پہنچنے کیلئے تقریبا دو گھنٹے لگیں گے جو 105 کلومیٹر دور ہے اور آگے پھر روڈ نہیں ہے وہاں سیاپ کو اونٹ کرایہ پر پکڑ کے اوپر پہاڑ کی طرف جانا ہو گا

اور سات آٹھ گھنٹوں میں آپ اوپر چوٹی پر پہنچیں گے ۔ پانی اور خوردونوش کا سامان ساتھ لے جائیں گے ۔۔البتہ پانی کا ایک چھوٹا تالاب وہاں موجود ہے لیکن بارشوں کے سیزن میں اس میں پانی ہوتا ہے اس کے علاوہ نہیں ہوتا ۔ ایک چھوٹا کمرہ بھی بنا ہوا ہے اگر بارش ہو جا ے تو اس کے اندر جاکر بارش سے بچا جا سکتا ہے ۔ اس کمرے اور تالاب سے متعلق کلاچی سے محمد شعیب صاحب نے بتایا کہ صدر ایوب کے خلاف تحریک کے زمانے میں حق نواز خان شھید گنڈہ پور نے تخت سلیمان پر تین مہینے گزارے تھے اور کمرہ اور تالاب انہوں نے بنوایا تھا اور ان کے استعمال میں آنے والے برتن بھی اب تک وہاں رکھے ہیں۔

یہ وہی حق نواز ہیں جن کے نام پر ڈیرہ کا حق نواز پارک ہے۔۔۔تخت کے اوپر انتہائی خوبصورت نظارے ہیں اونچے اونچے چلغوزے کے صدیوں پرانے درخت ہیں جو مسحورکر دیتے ہیں لیکن اب بے دردی سے کٹ رہے ہیں۔ ۔بہت سے اور دوستوں نے اپنی آرا پیش کیں ان کا کہنا تھا کہ اگر اس تخت سلیمان پر سڑک بن جاے تو لوگ کاغان اور ناران جانا بھول جائیں گے اور سیاحوں کا رش اس طرف ہو جاے گا۔ڈیرہ اسماعیل خان سے یہ تقریبا 120 کلو میٹر فا صلہ بنتا ہے اور اب اس کے قریب CPEC بھی گزر رہی ہے۔ KPK کی حکومت ہر سال سیاحت کے فروغ کے لیے اربوں روپے مختص کرتی ہے لیکن اس رقم کا زیادہ حصہ شمالی اضلاع میں خرچ ہوتا ہے ڈیرہ اس طرح ہے جیسے پانی کے لیے ٹیل کا آخری زمیندار ہوتا ہے

جو بچا کھچا مل گیا غنیمت سمجھ لیا۔اسی بے رخی اور بے توجہی سے تنگ آ کر الگ سرائیکی صوبے کے مطالبات شروع ہوئے ورنہ ون یونٹ میں سب ٹھیک چل رہا تھا ۔ہمارے KPK کے حکمرانوں کو ان مسائل پر غور کرنا چاہیے اور ہر ضلع کا حق انصاف سے دینا چاہیے اور پسماندہ علاقوں پر توجہ دیں تاکہ لوگ محرومیت کا شکار نہ ہوں۔البتہ سٹی ایم پی اے فیصل امین خان گنڈہ پور نے شیخ بدین سڑک کے لیے دس کروڑ منظور کرواے ہیں۔اس پر کام بھی شروع ہے مگر تخت سلیمان سے متعلق ابھی تک خیر خیریت کی رپورٹ ہے۔

%d bloggers like this: