مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات۔۔۔عباس سیال

رچنا دوآب کالونی:اگلا منصوبہ رچنا دوآب پر چناب کالونی تھی جو پنجاب کی کولونائزیشن کی تاریخ میں کافی اہمیت کی حامل ہے ۔

سَدھانی کالونی:کینال کالونیز کے اولین منصوبوں میں ضلع ملتان کی سِدھانی کالونی سب سے پہلی کالونی تھی، جس میں امرتسرکے بدیچھا ذات کے سکھوں کو 1886 ء میں ملتان میں لا کر بسایا گیا ۔ جب ملتان کی سدھانی کینال کالونی کا تجربہ کامیاب ہوا تو مستقبل میں اس قسم کی دیگرکالونیاں بنانے کی طرف توجہ دی گئی ۔ سدھانی کالونی میں کم از کم پچاس ایکڑ زمین کسی ایک فردِ واحد کو گرانٹ کی گئی جو رقبے کے لحاظ سے بعد میں بسائی گئی کسی بھی کینال کالونی سے چار گنا بڑی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سدھانی کالونی کا علاقہ سیلابی نہروں پر مشتمل تھا اور اس علاقے کو سیراب کرنے کیلئے گرانٹ شدگان کو کچھ رقم اپنی جیب سے انوسٹ کرنا پڑتی تھی تاکہ وہاں کنوئیں کھدوا کر کھیتی باڑی کو یقینی بنایاجا سکے ۔ چونکہ ان آبادکاروں کا تعلق وسطی پنجاب کے امیر طبقے سے تعلق تھا اسی لیے ان کے لیے سرمایہ کاری کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا ۔ سدھانی کالونی کیلئے جو مسلمان کاشتکارتھے ان کا تعلق ملتان،لاہور اور امرتسر سے تھا،جس میں 20فیصدہندو اور سکھ شامل تھے ۔ سدھانی کالونی کی 57,000 بیگھہ زمین کو تقریباً تیس سو افراد میں تقسیم کیا گیا تھا ۔

سوہاگ پار کالونی:اگلے مرحلے میں ضلع منٹگمری(ساہیوال) کی سوہاگ پار کالونی تھی،جسے 1886-88کے دوران تیار کیا گیا ۔ سدھانی کالونی کے مقابلے میں یہ رقبے کے لحاظ سے چھوٹی تھی ،جس کا کل رقبہ 90,000ایکڑ تھا ۔ یہ کالونی بھی سیلابی اور طغیانی کے زریعے بہنے والی نہروں کی مرہون منت تھی ۔ یہاں پر اوسطاً ہر ایک آبادکار کے حصے میں ساٹھ ایکڑ زمین آئی،جسے انہوں نے خود سے قابل کاشت بنایا ۔ 484جٹ سکھوں کو اس کالونی کا38 فیصد حصہ ملا جو تقریباً29,000ایکڑ بنتا ہے ۔ جس میں ضلع راولپنڈ ی کے 37کھتری سکھ بھی شامل تھے جنہیں 3,500 ایکڑ رقبہ تفویض کیا گیا تھا،جو کل حصے کا 45فیصدبنتا ہے ۔ اس طرح ہر ایک آباد کار کی ملکیت میں اوسطاً 95ایکڑ حصہ آیا ۔ اس میں سب سے بڑی گرانٹ 7,800ایکڑ تھی جو دس فیصد بنتی ہے،جسے سر کھیم سنگھ بیدی کو الاٹ کیا گیا ۔ کھتری سکھ کھیم سنگھ بیدی کا تعلق راولپنڈ ی سے تھا اور وہ سکھوں کے پیشوا بابا گرونانک کی لڑی میں سے تھا ۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ مذ ہبی رہنماءوں کو زمینیں الاٹ کرنے سے نہ صرف انہیں سیاسی اثر رسوخ حاصل ہو گا بلکہ 1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران حکومت کی مدد کرنے والے افراد کا بھی حوصلہ بلند ہو گا ۔ مذہبی حوالے سے زمینوں کی ا س طرح کی بند ربانٹ ایگری کلچرل کولونائزیشن کی تاریخ میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے،جس سے نہ صرف سیاسی مقاصد حاصل ہوئے بلکہ پنجاب کے با اثرطبقے کا جھکاءو نینشل ازم(قوم پرستی) کی بجائے سامرج کی طرف ہوا اور وہ ان کے پہلے سے زیادہ وفادار بن گئے ۔

چُنیاں کالونی:اگلا پراجیکٹ ضلع لاہور کے جنوب میں واقع چُنیاں کالونی تھا،جو 1896-98اور 1904-06کے دو مرحلوں میں مکمل ہوا ۔ یہ منصوبہ ایک لاکھ تین ہزار ایکڑ پر مشتمل تھا ۔ اس منصوبے میں باری دوآب سے نکلنے والی نہر سب سے نمایاں تھی جس سے مرتسر اور لاہو رکی زمینیں سیراب ہوتی تھیں ۔ چنیاں کینال کالونی 80فیصد کاشتکار طبقے کو الاٹ کی گئی،جن میں سے زیادہ تر کا تعلق لاہور کے سکھ جاٹوں سے تھا ۔ کاشتکاروں کے علاوہ چنیاں کالونی میں کچھ اورقسم کی بھی الاٹمنٹیں ہوئیں ،مثلاً ً 12000ایکڑ رقبے کی سرکاری نیلامی کی گئی ۔ سرکاری نیلامی سب سے زیادہ موثر اور سرمایہ کاری پرفوری فائدہ حال کرنے کا بہترین اور موثر زریعہ بن کرسامنے آئی ،لیکن اس طریقے کا سب سے بڑ انقصان یہ تھا کہ اس پر صرف امیر طبقہ ہی آگے آ سکتا تھا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت کو سیاسی فوائد حاصل نہیں ہو سکتے تھے ۔ اس کے علاوہ 5,000 ایکڑ سول گرانٹس کی مد میں بھی ز مینیں تقسیم کی گئیں جس میں ہر ایک کو کم از کم 50سے 250 ایکڑ حصہ ملا ۔ سول گرانٹس کی مد میں مستفید ہونے والے انگریز سرکار کے ریٹائرڈ ملازمین تھے،جنہیں انتظامی خدمات کی بنیاد پر الاٹمنٹیں کی گئیں ۔ اس کے علاوہ 2,000 ایکڑ رقبہ ہندوستانی فوج میں خدمات سرانجام دینے والے سابق ریٹائرڈ فوجیوں کو پنشن کی مد میں دیا گیا ۔ سابق فوجیوں کا حصہ بعد میں بننے والی کینال کالونیوں میں بڑھا دیا گیا ۔

رچنا دوآب کالونی:اگلا منصوبہ رچنا دوآب پر چناب کالونی تھی جو پنجاب کی کولونائزیشن کی تاریخ میں کافی اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ کینال کالونیز کی سب سے بڑی کالونی تھی جس کا رقبہ د وملین (2,000,000 ) ایکڑ تھا اور جسے 1892اور1905کے عرصے میں کولونائزڈ کیا گیا،جبکہ بعد میں 1910 اور1930 میں مزید توسیع بھی کی گئی ۔ یہ کالونی اُس وقت کے ضلع لائل پور( فیصل آباد) پر مشتمل تھی،جو جھنگ،گوجرانوالہ اور لاہور کے اضلاع کے علاوہ کئی دیگر علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی ۔

چناب کینال تین شاخوں ( راکھ،جھنگ اور گوگیرہ) پر مشتمل تھی ،جو ترتیب وار کولونائیز ڈ کی گئیں ،بعد میں پرانا صدر مقام گوگیرہ بدل کر کینال کالونیز کا نیا ہیڈ کوارٹر لائل پور بنایا گیا ۔ لائل پور نہ صرف ایک اہم تجارتی منڈ ی بنا بلکہ کینال کالونیز کے علاقوں میں ریجنل منڈیاں بنا کر انہیں مرکزی منڈی (لائل پور)سے جوڑ دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لائل پور نے جھنگ اورچینیوٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ۔

رچنا دوآب میں مقامی افراد(جانگلیوں )کے مالکانہ حقوق کو غصب کرکے انہیں نہ صرف وہاں سے دھکیل دیا جا چکا بلکہ سارے علاقے کو سرکاری زمین کا درجہ دے کر انگریز سرکار نے اس کالونی میں اپنی مرضی و منشا سے تقسیم کی ۔ اس بنیادی گرانٹ میں درج ذیل تقسیم کی گئی ۔ آبادکار کیلئے(40-45ایکڑ)،سفید پوش کیلئے(50-150ایکڑ) اور سرمایہ دار رئیس کیلئے(150-600ایکڑ) رقبہ مختص ہوا ۔ کاشتکار کو اس میں سے 80فیصد ملا جبکہ سفید پوش اور سرمایہ دار طبقے کو پانچ سال کے بعد مالکانہ حقوق بھی مل گئے ۔ اس کالونی میں کسانوں کو پہلے پہل صرف قبضہ دیا گیا جس کے مالکانہ حقوق انگریز سرکار کے پا س ر ہے ۔ مالک اور کرایہ دار کے درمیان اس طرز کا زرعی معاہد ہ شہری قواعد و ضوابط کی طرز پر مبنی تھا اور باضابطہ وراثت کی طرح آبادی کی دیکھ بھال،زمینوں کی حد بندی اور پانی کی فراہمی سرکار کے مکمل کنٹرول میں تھی ۔ آبادکاروں کیلئے یہ ’’شرائط و ضوابط‘‘ غیرقانونی اور بلا جواز تھیں اور یہ سب ظلم ونا انصافی پر مبنی تھا ۔ اس قانون کو کاشتکار آبادکاروں پر لاگو کرنے میں مقامی بیوروکریسی بھی ملوث تھی ۔ رچنا کینال کالونیز کے دیہاتوں میں چند سالوں کے بعد ہی آبادکاروں کی طرف سے مالکانہ حقوق کیلئے سیاسی تحریک چلائی گئی،جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کرایہ دارانہ قانون کو ہٹا کر آبادکاروں کو مکمل مالکانہ حقوق دیئے جائیں ۔ انگریزسرکار آبادکاروں سے لا تعلقی اختیار نہیں کرسکتی تھی چنانچہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیاگیا جس نے آبادکاروں کے مطالبات تسلیم کر تے ہوئے کولونائزیشن آف لینڈ ایکٹ1912 ء میں چند ضروری ترامیم کرنے کے بعد آبادکاروں کو مالکانہ حقوق تفویض کر دئیے ۔

یہ بھی پڑھیے:برطانوی سامراج کے دوران مغربی پنجاب میں سکھوں کی آبادکاری۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔

%d bloggers like this: