اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صوفی شاعر سچل سرمت کے199ویں عرس پرآن لائن انٹرنیشنل سچل کانفرنس

ڈاکٹر جاوید چانڈیو نے کہا کہ سندھ یا سرائیکی علاقے کی ادبی سیاسی اور سماجی تاریخ میں سچل نام کا کوئی کردار میری نظر سے نہیں گذرا۔

اسلام آباد :صوفیاء کے افکار اور پیغام کے ذریعہ پاکستان میں امن، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیاء کے پیغام کوعام کرکے پاکستان کے سوفٹ امیج کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔

ان خیالات کا اظہار اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام ہفت زبان صوفی شاعر سچل سرمت کے 199ویں عرس کے موقع پر انٹرنیشنل سچل کانفرنس سے شفقت محمود، وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت اور قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن نے سچل کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔

صدارت مہتاب اکبر راشدی نے کی۔ وجیہہ اکرم پارلیمانی سیکرٹری وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت اور انعام اللہ خان وفاقی سیکرٹری قومی ورثہ و ثقافت نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔

ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین، اکادمی نے ابتدائیہ پیش کیا۔

کانفرنس کا آغاز سچل سرمست کی درگاہ سے براے راست فقیر ایاز ملاح اور ساتھی کی آواز میں کلام سے ہوا۔

ویڈیو لنک کے ذریعہ پورے ملک اور دنیا بھرسے سچل شناس اسکالرز نے مقالات پیش کیے۔ نظامت ڈاکٹر حاکم علی برڑو اورڈاکٹر سعدیہ طاہرنے کی۔

شفقت محمود نے کہا کہ سچل نے اپنی شاعری کے ذریعے مذہبی رواداری کا پیغام دیا اور وبا کے ان دنوں میں مذہبی روا داری کی جتنی اشد ضرور ت ہے شاید ہی اس سے پہلے کبھی رہی ہو۔ اس وبا کے اثرات اپنی جگہ لیکن اس نے بنی آدم کو ایک لڑی میں پرو دیا ۔ ہمیں اس نوع کی آسمانی آفات کا مقابلہ کرنا ہے تو سچل سرمست اور دیگر صوفیا کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا صوفیاء نے اپنے اپنے دور میں اخوت کا پیغام عام کیا۔ ان کے عقیدت مندوں میں صرف مسلمان کی نہیں دیگر مزاہب کے لوگ بھی متاثر ہوئے۔ سچل سرمست نے بھی اپنی شاعری میں یہی پیغام دیا جس پر آج بھی عمل کرکے ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں۔

شفقت محمود نے کہا وادی سندھ میں صوفیاء نے اپنی شاعری کے ذریعے روحانی بیداری اور پورے خطے میں شعور و آگہی کو فروغ دیا، سندھ میں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سچل سرمست کا نام نمایاں ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی شاعری کو وجدانی اور الہامی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

انہوں نے کہا سچل سرمست کے روحانی اور علمی فیضان سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد لامحدود ہے۔ ہم اگر صوفیاء کے کے پیغام کو عام کریں تو بہت سی مشکلوں نمرد آزما ہوسکتے ہیں اکادمی ادبیات پاکستان کوبامقصد اور کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ ڈاکٹر یوسف خشک کی سربراہی میں اکادمی احسن طریقہ سے آگے بڑھے گی اور ادب کے ذریعہ امن اور محبت کے پیغام کو عام کر سکے گی۔

مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ سچل سرمست کا دور سندھ کے کلہوڑہ اور تالپورحکمرانوں کا دور تھا جہاں انتہا پسندی و مذہبی نفرتیں اپنے عروج پر تھیں۔ ایسے میں سچل سرمست نے اپنی شاعری کے ذریعےسندھ کوامن کا گہوارہ بنایا۔

انہوں نے ارد گرد کے ماحول کو شدت سے محسوس کیا اور اس کا اثر قبول کیا اور ان کی طبیعت میں سوز و گداز پیدا ہوا۔ ان کی شاعری میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا رنگ نمایاں ہے۔ کلہوڑوں کے دور میں فقیہی اختلافات عروج پر تھے اور سچل سرمست بخوبی واقف تھے کہ اس منافرت کے پس منظر میں درباری عالموں کا عمل دخل ہے لہٰذا انہوں نے علماء کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے تحریک چلائی۔

انہوں نے کہا یہ موضوع سندھ کی شاعری میں نیا تھا۔ اس لئے بہت جلد مقبولیت حاصل کر گیا۔ اس صورتحال نے ان کے فکر واحساس میں فلسفہ تصوف کو انتہائی مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔

ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ تصوف سچل سرمست کے نزدیک محض ایک نظریہ نہیں بلکہ زندگی کا ایک تجربہ اور رویہ بن کر سامنے آیا ہے وہ کائنات کو ایک صوفی کے نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ صوفی دہلی کا ہو یا دکن کا یا پھر درازہ سندھ کا محسوسات ایک ہی ہیں۔ سچل سرمست، خواجہ میر درد اور ولی دکنی ہم عصر تھے لیکن ہم زبان نہیں تھے۔ یہ سچل کے علمی عرفان کا کمال ہے کہ جو شخص تمام عمر اپنے علاقے سے باہر نہیں گیا پھر بھی نہایت سادگی، صفائی، لطافت اور شگفتگی کے ساتھ درازہ جیسے دور دراز قصبے میں بیٹھ کر آفاقی پیغام دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا اکادمی ادبیات پاکستان لاک ڈان میں صوفی شعرا کے دن کی مناسبت سے آن لائن کانفرنسز منعقد کرے گی۔ جبار مرزا نے کہا کہ سچل سائیں کا نام میاں عبد الوہاب فاروقی تھا مگر ہمیشہ سچ بولنے کی وجہ سے سچل، سچو اور سچیو مشہور ہوئے۔

ڈاکٹر مہر خادم نے کہا کہ سچل سرمست کی اردو شاعری کا اپنا لب و لہجہ ہے، اس میں کسی اور کی تقلید شامل نہیں ہے. ان کی شاعری کا اپنا ترنم اور اپنی پہچان ہے.

ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے کہا کہ سچل سرمست کی شاعری انسانوں کے درمياں زبان، نسل،علاقه اور مذهبی سرحدوں کی قائل نھیں ہے بلکه وہ آفاقی نظريے کے تحت معاشرے کی تشکيل اور فلاح کے داعی هيں-

تاج جویو نے کہا کہ سچل سرمست کو منصور ثانی اورعطار سندھ کہا جاتا ہے لیکن ان کی فکری سرچشمہ کا مطالعہ کیا جائے تو سچل پر حافظ شیرازی کا بھی گہرا ثر ہے۔

ڈنمارک سے نصر ملک نے کہا کہ سچل سرمست کا کلام ڈینش صوفی درویشوں کے حلقے میں 1291 سے متعارف ہے اور وحدت الوجود و روحانیت اور سکون قلب کے متلاشیوں کے لیے مینارہ نور کا کام کر رہا ہے ۔

خضر نوشاہی نے کہا کہ سچل نے فارسی کلام میں عطار نیشاپوری کے فکر فلسفہ کو موضوع تحقیق بنایا ھے بلکہ شاعری میں ان کے اوزان، قافیہ، ردیف، اور بحر تک بھی استعمال کئے ھیں۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ انسانوں سے محبت تمام صوفیہ کرام کا مسلک ہے لیکن سچل کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ اپنی مادری زبان سندھی کے علاوہ اس خطے میں بولی جانے والی تمام زبانوں سے واقفیت تھے۔

امر اقبال نے کہا کہ سچل سرمست کی شاعری فکری و فنی حوالے سے جدید سندھی شاعری پر اثرانداز ہوئی ہے اور یے سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ڈاکٹر جاوید چانڈیو نے کہا کہ سندھ یا سرائیکی علاقے کی ادبی سیاسی اور سماجی تاریخ میں سچل نام کا کوئی کردار میری نظر سے نہیں گذرا۔ یہ نام عبد الوہاب نے خود منتخب کیا اور خود کو سچل اور سچو کہا۔ یعنی صرف اور صرف سچ اور سچ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

الطاف اثیم نے کہا کہ سچل سرمست نے اپنے پُر آشوب دور، بیرونی حملہ، مقامی قبائل کی کشمکش ، عدم رواداری و مذہبی منافرت کے عوامل کی بیخ کنی کے لیےفارسی، سندھی، سرائیکی اور اُردو میں ذی شعور اور حساس دل اشعار کہے تاکہ عالم انسانیت کے لیے کوئی آمن وسکون کا راستہ نکلے۔

ممتاز بخآری نے کہا کہ سچل سرمست کو بھی سندھ کا وہی سیاسی و سماجی ماحول ملا جو شاہ لطیف کے وقت میں تھا اس لیئے سچل سرمست کے سرمارئی کے متن پہ اثر ہوا۔

ڈاکٹر فاخرہ نورین نے کہا کہ سچل سرمست کی شاعری میں خطے کی تمام رومانی داستانوں کا بیان کسی رسم یا روایت کی پاسداری نہیں بلکہ اپنے افکار و نظریات کے اظہار کے لئے مناسب پیرایہ اظہار کی تلاش کا عمل ہے۔ انٹرنیشنل سچل کانفرنس سچل شناس ادیبوں اور دانشورں میں ڈنمارک سے نصیر ملک “فکر سچل سرمست اور ڈنمارک”، اسلام آباد سے جبار مرزا “سچل سرمست ولی اللہ”، ڈاکٹر عبدالعزیزساحر“سچل سرمست کی شاعری میں وحدت الوجودی عناصر کی جلوہ آرائی”، ڈاکٹر فاخرہ نورین“سچل سر مست کی شاعری میں رومانی پروٹو ٹائپس کا ارتقاءایک مطالعہ”، پنجاب سے ڈاکٹر نبیلا رحمان (لاہور) “سچل رنگ پنجاب میں”، ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو (بہاول پور) “سرائیکی وسیب وچ سچل سرمست دی پذیرائی”، سید خضر نوشاہی(منڈی بہاءالدین) “سچل کی شاعری پر عطار نیشاپوری کے فکری اثرات”، سندھ سے ڈاکٹر در محمد پٹھان (لاڑکانہ) “سچل کی شاعری کا مطالعہ ان کے وقت کے تناظر میں”، ڈاکٹر فاطمہ حسن(کراچی) “حلاج کا تصور عشق اور سچل”، ڈاکٹر ادل سومرو(سکھر) “سچل سرمت کی فکر میں عالمی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا تصور”، تاج جویو(حیدرآباد) “حافظ شیرازی اور آشکار دار راز”، پروفیسر الطاف اثیم(رانی پور) “سچل کی شاعری اپنے دور کی عکاس”، ممتاز بخاری(سکھر) “سچل سرمت کی شاعری کے جدید سندھی شاعری پر فنی و فکری اثرات”، ڈاکٹرمہرخادم (خیرپور) “سچل سرمست کی اردو شاعری : اہمیت اور انفرادیت”، امر اقبال (خیرپور ) “سچل سرمت کے یہاں ماروی کے بارے میں شاہ لطیف والے اشارے”، خیبر پختونخوا ہ سے ڈاکٹر اباسین یوسفزئی (پشاور ) “سچل سرمست، انسانیت کی روایت کا شاعر” اور بلوچستان سے ڈاکٹر واحد بخش بزدار( کوہ سلیمان) “سچل سرمست وحدت الوجودی شاعر” کے موضوعات پر آن لائن مقالات پیش کیے۔

%d bloggers like this: