اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط 13) ۔۔۔عباس سیال

اپنے بائیں کندھے پر پڑنے والے ہاتھ کے لمس نے مجھے واپس درگاہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ہم دونوں حضرت امیر خسرو کی درگاہ پر سلام کیلئے حاضر ہوئے ۔

دِلّی میں چوتھا دن

درگاہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ: انکل وِجے کمار نے پُوسا روڈ پر پھڑ پھڑ کرتے ایک رکشے کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور بتایا کہ ہمیں خواجہ نظام الدین کی درگاہ تک جانا ہے ۔ کڑوے تمباکو والاپان چباتے رکشہ ڈرائیور نے مخالف سمت منہ کرکے سڑک پر پچکاری ماری اور فوراً تصدیق چاہی، خاجہ نجا م الدین ؟ انکل کے منہ سے جی ہاں نکلنے کی دیر تھی کہ ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلایا اور یوں ہم رکشے پر چڑھ بیٹھے ۔اب ہم دھیرے دھیرے پرانی دلی کے قریب تر ہوتے جا رہے تھے ۔یہ رہی دِلی ، بائیس خواجگان کی چوکھٹ کہ جہاں اولیائے کرام، صوفیائے عظام صدیوں سے خاک کی رِدا اوڑھے آرام فرما رہے ہیں اور یقیناًیہ اُنہی مقدس ہستیوں کا اعجازہے کہ ہر بار لٹنے کے باوجود دِلّی کسی خزاں رسیدہ شجر کی سوکھی ٹہنی کی مانند بہار آتے ہی واپس اپنے اندر چھپی تازگی اور حسن کو ہر بار باہر پھینکتی رہی ہے ۔پرانی دلی میں زندگی آج بھی آب و تاب کے ساتھ رواںتھی۔کندھے سے کندھاچھیلتی عوام اور ان کے درمیان دلی کی عوامی سواری سائیکل رکشہ،جس کسی کو پرانے دلی والوں سے ملنے کا شوق ہو وہ منہ ہاتھ دھوئے بنا ،سر اُٹھائے یہاں چلا آئے۔

آٹو رکشے نے ہمیں بستی نظام الدین کے قریب اُتار دیا۔منسٹری آف ٹوراِزم اینڈ کلچر کی جانب سے ایک نیلے رنگ کے بورڈ کے ذریعے چونسٹھ کھمبا، عرس محل اور مزارِ غالب کی طرف جانے کیلئے زائرین اور سیاحوں کیلئے راستے کی نشاندہی کر دی گئی تھی۔ بستی کے دونوںجانب گلاب کے تازہ پھولوں کی پتیاں، درگاہ پر چڑھانے کیلئے کلمے سے مزین ریشمی چادریں،تسبیح، غلاف ،ٹوپیاں، رومال، انواع و اقسام کی مسواک اور چاندی کے برتن ہتھ ریڑھیوں پر سجا کر بیچے جا رہے تھے۔ درمیان میں بریانی،قورمہ، قصائی اورنان بائیوں کی ایک آدھ دکانیں، چند قدموں کی دور ی پر بائیں جانب غالب اکیڈیمی ، جس کے آگے سے گزرنے کے بعد ہم درگاہ نظام الدین کے داخلی دروازے کی چوکھٹ تک پہنچ گئے ،یہاں سے آگے جوتے پہن کر جانا ممنوع تھا۔ ایک زائرنے جیسے ہی جوتوں سمیت اندر گھسنے کی کوشش کی قریبی بیٹھے مجاور نے اُسے ایسے گھورا جیسے وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو اہو ۔ جوتے اتار کر باقی لوگوں کے ہمراہ ہم بھی آگے بڑھ گئے۔داخلی دروازے کے اندر بے شمار پھولوں ، عطریات ، بتاشے، چادریں، اگربتیاں بیچنے والوں نے پکارنا شروع کر دیا۔ اُ ن سب کی کوشش تھی کہ کوئی نذرانہ لئے بغیر درگاہ میں داخل نہ ہونے پائے۔اُن لوگوں سے بچ بچا کر ہم جیسے ہی درگاہ کے احاطے میں داخل ہوئے تو وہاں مختلف مجاور چلتے پھرتے دکھائی دئیے۔سر پر ٹوپیاں،بغل میں رجسٹر دبوچے یہ مخلوق خود کو خواجہ صاحب کا گدی نشین قرار دیتی ہے اور شکار کو دیکھتے ہی دبوچ لیتی ہے۔ کہاں سے آئے ہو؟ کیا نام ہے تمہارا؟ پتہ لکھواﺅ، نذرانے دو۔وِجے کمار نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور نام نہاد گدی نشین مجاوروں کی کھا جانے والی نظروں سے بچتے بچاتے ہم ایک کلیجی رنگ کے چھوٹے سے کمرے کے آگے آن کھڑے ہوئے۔کمرے کے اوپر”محبوب، محبوب الٰہی، شیریں سخن، ملک الشعرائ، طوطئیِ ہند حضرت خواجہ ابوالحسن امیر خسرو“ کا نام اور سب سے اوپر لکھا اطلاعی پیغام کہ پہلے یہاں سے زیارت کریں درج تھا ۔ایک قریبی بورڈ پر وارننگ لکھی ہوئی تھی کہ درگاہ کے اندر ننگے سر جانا منع ہے۔ پھول پتیوں سے بھری چنگیر سر پر اٹھائے، کلاسیکل موسیقی کے امام کی درگاہ کے سامنے کھڑا ایک نوجوان اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا، پہلے امیر کھسرو کا درشن کرتے ہیں، پھر نجام الدین پر منت مانیں گے۔ گلے میں منگل سوتر پہنے شلوار قمیص میں ملبوس شاید یہ اس لڑکے کی پتنی تھی جو اپنے قریب کھڑے پتی کی باتوں سے بے نیاز آنکھیں بند کئے ، ادب سے ہاتھ باندھے امیر خسرو کے مزار کے سامنے ستی ساوتری بنی کھڑی تھی۔یہ واقعی ایک خوبصورت منظر تھا اور بستی نظام الدین میں سوئے اللہ کے درویشوں کی بدولت اس قسم کی ملٹی کلچرل خوبصورتی زندگی میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہی تھی کہ جہاںسب دھرموں کے لوگ پھول، عطر، کیوڑہ،اگر بتیاں ، چادریں لیے کھڑے تھے۔کوئی درگاہ کی جالیوں پر منتی دھاگے باندھ رہا تھا تو کوئی اپنے اندر کے دکھ درد اولیائے اللہ کے حضور پیش کررہا تھا ۔

درگاہ امیر خسرو کے سامنے کھڑے ہو کر جیسے ہی ظاہری آنکھ کا پھاٹک بند کیا ،ایسے لگا جیسے میرے وجود کو کسی ٹائم مشین نے الٹی زقند بھرتے ہوئے اَسی کی دھائی والے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کسی جانے پہچانے مقام پر اتار پھینکا ہو۔ میں اپنی اماں کی گود میں بیٹھا ایک پرانی بس میں سوار ہوں اور محلے کی ساری عورتیں اکھٹی ہو کر شاہ حسین کے مزار پر سُکھ پہنچانے جا رہی ہیں۔پھٹی ایڑیوں والی عورتوں نے برقعوں سے منہ باہر نکال رکھے ہیں۔کسی کی بہو نے چہرے پر سرخی پوڈر تھوپ رکھا ہے تو کسی نے مساگ(دنداسے) سے ہونٹ لال کر رکھے ہیں۔ کوئی کجلا لگائے بیٹھی ہے تو کوئی پہاڑی مٹی (گانچی مٹی)سے سر دھو ئے اپنی طرف سے خوب سولہ سنگھار کرکے آئی ہے۔ کوئی شادو ،کوئی نوراں، کوئی امیراں، فاطمہ تو کوئی بختو اور کوئی ماسی زینب ۔ ہر چہرہ شاداں کہ انہیں اپنے اندر کے غموں، تکلیفوں اور تنگدستی سے وقتی نجات کا بہانہ چاہیے تھا، جو سُکھ کی صورت میسر آرہا ہے ۔اپنی تمنائیں اور آشائیںدلو ں میں چھپائے، اپنے کتھارسس کی خاطر، محرومیوں سے خالی من کی تاریکی دور کرنے کیلئے کوئی ایسی جگہ درکار تھی کہ جہاں اپنے دل کی بات شیئر کرکے اندر کی بے چینی ہلکی ہو سکے۔شاہ حسین کی درگاہ پر چادر چڑھائی جا رہی ہے،کوئی قبر پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہا ہے تو کوئی عورت آس لگائے کھڑی ہے۔کوئی ساس اپنی بہو کو درگاہ کے سامنے کھڑا کیے فریاد کر رہی ہے ۔ شاہ حسین! اللہ میکوں پوترا ڈیوے تاں میں آندی واریں بس بھر کے تیڈے در تے گھن آساں۔ قریب کھڑی ماسی فاطمہ پکار اٹھتی ہے ، شاہ حسین ! اللہ سونہڑا میڈے جمیل دی نوکری لواوے چا ۔ اللہ میڈے گھر آلے کوں شفا ڈیوے تاں میں وی سُکھ گھن آساں۔قریب کہیں چھولے چاولوں کی دیگ بانٹی جارہی ہے ، کوئی بھورے چنے والے کی دکان سے لائی گئی میٹھی ٹانگری(میٹھے سیﺅ)،توشہ،بتاشے، بالو شاہی، الا ئچی دانے اور چنے تقسیم کر رہا ہے تو کوئی درگاہ کے گرد منڈلاتے بندروں کو اس خیال سے کھانا کھلا رہا ہے کہ ”اے بھولنیاں وی اللہ سوہنے دی مخلوق ہن ، اِنہاں کوں کھویسوں تاں اے دُعاواں ڈیسن “۔

دامان کی چکنی مٹی سے گوندھے چلتے پھرتے ، سانسیں لیتے وجود کہ جو ایک قسم کی اَن دیکھی عقیدت ، عزت، احترام، عاجزی اور تکریم کے رشتوں سے بندھے ہوئے تھے ۔ وَبحمدک کو بابے حمدک بولنے والے ، جنہیں پوری طرح نماز پڑھنا نہیں آتی تھی مگر سجدہ کرنا ضرور آتا تھا۔ دامان کی پیاسی دھرتی میں سویا شاہ حسین ہو ، سخی سرور ہویا جمنا کنارے سوئے خواجگان ہوں، اِن سب کے سامنے کھڑے دکھی خلقت کا ایمان ہے کہ ان کا واحد رازق اللہ، خدا، گاڈ، ایشور نامی طاقت ہے جو مختلف ناموں سے کائنات کا نظام چلا رہا ہے ، مگر انہیں کوئی نہ کوئی وسیلہ درکار ہے،خصوصاً ہمارے جیسے معاشروں میں جب انسان آپس میں ایک دوسرے کو پڑھنا اور سمجھناچھوڑ دیتے ہیں تب انہیں ایک وسیلہ درکار ہوتاہے،کسی مرشد ، کسی گروکی صورت یا پھر کسی دیوتا کی مورت یہ اپنے اپنے پالن ہار کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔تلاشنے اور کھوجنے کی جستجو نے ہی اِس زمین کے باسی کو جینے کی اُمنگ ، آس، ڈھارس اور امید کی ڈوریوں سے باندھ رکھا ہے۔معاشرے تب تک شانت رہتے ہیں جب تک وہ اپنے اندر کے شاہ حسین، سخی سرور، امیر خسرو اور نظام الدین سے جڑے رہیں، جس دن آس و امید کی لڑی ٹوٹ گئی سمجھو اَ من و آشتی کے موتی بکھرگئے ،شانتی کا خاتمہ یقینی ہوگیا ۔ اپنے بائیں کندھے پر پڑنے والے ہاتھ کے لمس نے مجھے واپس درگاہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ہم دونوں حضرت امیر خسرو کی درگاہ پر سلام کیلئے حاضر ہوئے ۔ درگاہ کے اندرونی حالات تسلی بخش نہ تھے، وہاں پھول ، چادریں بیچنے والے اور رجسٹرڈ پکڑ کر نذرانے لکھنے والوں کا قبضہ تھا ۔اندر ایک سانولہ گائیڈ کسی غیر ملکی سیاحتی ٹولے کو امیر خسرو کے بارے میں بتا رہا تھا، میں بھی گائیڈ کے ساتھ چپک کر کھڑا ہو گیا تاکہ سامنے سوئی ہستی کے بارے میں کچھ جان سکوں۔

یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط12)۔۔۔ عباس سیال


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: