مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بایاں بازو کمرشل لبرل مافیا کی پیروی سے جان چھڑائے۔۔۔ عامر حسینی

پاکستان میں افغان طالبان کا خود کو حامی بتانے والا دایاں بازو بھی سیاسی طور پر موقعہ پرست اور کھوکھلا ثابت ہوا ہے

افغان طالبان نے امریکہ سے امن معاہدہ تنہائی میں نہیں کیا- اس معاہدے سے قبل افغان طالبان کی قیادت کے پاکستان، ایران، چین، روس، ترکی سمیت کئی اور ممالک سے کافی مرتبہ مذاکرات اور بات چیت ہوئی اور خاص طور پر چین، ایران، روس اور پاکستان وہ ممالک ہیں جنھوں نے افغان طالبان کی قیادت کو اپنے ہاں مشکل دنوں میں ٹھہرایا بھی بلکہ اُن کو لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی-

افغان طالبان کے مذکورہ ممالک سے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں افغان طالبان کے اندر سے القاعدہ، داعش کے حامی بڑی تیزی سے الگ ہوئے اور انھوں نے القاعدہ برصغیر اور داعش افغانستان تشکیل دی- پاکستان میں تحریک طالبان کے دھڑے اور خاص طور پر لشکر جھنگوی، جند اللہ اور جماعت احرار الھند نے اپنے آپ کو داعش اور القاعدہ برصغیر کے ساتھ جوڑا اور وہ پہلے دن سے افغان طالبان کی امریکہ سے بات چیت کے خلاف تھے –

یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ افغان ڈی این ایس، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی راء اور امریکی ایجنسی سی آئی اے کے عقابی عناصر اپنے ایجنٹوں کے زریعے سے ٹی ٹی پی کے دھڑوں اور لشکر جھنگوی کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے رہے-

اس دوران پاکستان، امریکہ، یورپی ممالک، ہندوستان اور افغانستان کا ایک بڑا لبرل سیکشن یہ بیانیہ پیش کرتا رہا کہ ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی، جماعت احرار اور یہاں تک کہ داعش بھی پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی پراکسیز ہیں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے دراصل فوجی ودری ہے-

کمرشل لبرل مافیا کا یہ بیانیہ اور کلامیہ گزشتہ ایک عشرے میں اس لیے بھی نقائص سے بھرا ہوا تھا کہ اگر تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے، لشکر جھنگوی، داعش، جند اللہ، القاعدہ برصغیر پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی پراکسی ہیں تو یہ پراکسی افغان طالبان، پاکستان کی فوج، پولیس، انٹیلی جنس اداروں، پاکستان کی اہم تنصیبات کو نشانہ کیوں بنارہی ہیں؟ اور پاکستانی فوج نے فاٹا و سوات میں اسقدر بڑے فوجی آپریشن کیوں لانچ کیے؟

پاکستانی کمرشل لبرل بیانیہ افغان طالبان اور اُن سے الگ ہوکر داعش افغانستان بنانے والوں، لشکر جھنگوی العالمی، تحریک طالبان پاکستان کو ایک ہی رنگ اور ایک ہی سٹروک سے پینٹ کرنے پر مصر تھا اور یہ اصرار پہلے پہل امریکی انتظامیہ کا بھی تھا-

لیکن پاکستان، ایران، چین اور روس افغان طالبان کو داعش افغانستان، القاعدہ برصغیر، لشکر جھنگوی اور ٹی پی پی سے الگ کرکے دیکھ رہے تھے – اور افغان طالبان سے رابطے میں بھی تھے-

پاکستانی لبرل کمرشل مافیا کی مایوسی اور غصہ تو سمجھ آتا ہے لیکن مجھے اُن لوگوں کی سمجھ نہیں آرہی جو اچھے سے جانتے ہیں کہ امریکہ – افغان طالبان میں یہ معاہدہ کم از کم پانچ ممالک یعنی چین، روس، ایران، پاکستان اور قطر کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا اور وہ ان پانچ ممالک کے افغان طالبان سے سٹریٹجک پارٹنر شپ اور گہرے تعلقات کو فراموش کرکے یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ امریکہ افغان طالبان کو خطے میں اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرے گا-

یاد رہے کہ امریکہ ایک مرحلے پر یہ چاہتا تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات دوحہ کی بجائے سعودی عرب میں ہوں- جبکہ افغان طالبان نے ایسا کرنے سے بالکل انکار کردیا تھا-

افغان طالبان بطور ایک اسلامی تحریک کے تکفیری تنظیموں سے اپنے آپ کو الگ کرچکے ہیں قطر میں اُن کی موجودگی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ اخوان، حماس، حزب اللہ جیسی تنظیموں کے خود کو قریب سمجھتے ہیں- اور ایک نیشنلسٹ اسلامی تنظیم کے طور پر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں- آنے والے دنوں میں اُن کی سیاسی قیادت اور سیاسی ڈھانچہ اس بات کو اور اجاگر کرے گا کہ اُن کے ہاں سیاسی قیادت اور سیاسی ڈھانچہ اُن کے عسکری ڈھانچے کو کنٹرول کرتا ہے ناکہ عسکری ڈھانچہ……

افغان طالبان نے گزشتہ پانچ سالوں میں فرقہ اور نسل کی بنیاد پر ہوئے افغانستان میں خودکُش حملوں سے اعلان لاتعلقی کیا اور انہوں نے افغان عام شہریو‍ں کو حکومتی تنصیبات اور اداروں سے دور رہنے کی وارننگ جاری کیں تاکہ عام شہری اُن کے حملوں کی زد میں نہ آئیں – اسے آپ
Smart moves
Clever political tactics
Moderate approach
جو بھی کہیں اس نے بہرحال دوسرے ممالک میں اُن کی بلوغت کا تاثر پیدا کیا-

افغان طالبان نے 18 سال 8 ماہ کے دوران ایک عالمی طاقت سے جنگ کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے اور عالمی سیاست کے میکنزم کی بھی اُن کو سمجھ آئی ہے اور اسی لیے اُن کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ خطے میں امریکہ یا کسی اور ملک کے ایما پر اپنے آپ کو ایک
Powerful militant machinery on rent

میں بدل ڈالیں گے- احمقانہ بات ہوگی –

افغانستان، پاکستان کے جو لبرل ہیں اُنہوں نے اپنے آپ کو عوام کے اندر کمرشل اور برائے فروخت ثابت کیا ہے- وہ امریکہ اور یورپ کی خصی لبرل اسٹبلشمنٹ کے سامنے مراعات، سکالر شپ، فنڈنگ کے لیے سربسجود رہے اور این جی او لبرل لیفٹ نے اُن کے پیچھے لگ کر اپنی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کرڈالی-

پاکستان میں افغان طالبان کا خود کو حامی بتانے والا دایاں بازو بھی سیاسی طور پر موقعہ پرست اور کھوکھلا ثابت ہوا ہے وہ اخوان، حزب اللہ، ایرانی پولیٹیکل اسلام، حماس، حوثی انصار الاسلام کی طرح عوام میں پاپولر جڑیں بنانے میں ناکام رہا ہے-

لیکن دوسری جانب پاکستان میں بایاں بازو کا انقلابی رحجان ایک تو سائز میں کافی چھوٹا ہے، دوسرا وہ کئی حصوں میں تقسیم ہے تیسرا پاکستان کا لبرل پریس جس پر کمرشل لبرل مافیا مسلط ہے اُسے پروجیکٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے-

افغانستان میں بائیں بازو کا انقلابی رجحان امریکی اور افغان طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں زیرزمین کام کرنے پر مجبور رہا ہے – مستقبل کے افغان سیاسی سیٹ اپ میں بھی اُسے آزادی کے ساتھ کُھلا کام کرنے کی اجازت ملتی نظر نہیں آتی –

پاکستان اور افغانستان میں بائیں بازو کے انقلابی رجحانات کے بطور متبادل سیاسی قوت کی تعمیر میں کافی لمبا سفر طے کرنا ہوگا- اور اس کا سب سے بڑا چیلنج سرمایہ داری کے حامی لبرل ازم سے الگ اپنی پہچان بنانا ہے-

لیفٹ اگر کمرشل لبرل مافیا کے پیچھے چلے گا اور اپنے حریف ریڈیکل پولیٹکل اسلام کی علمبردار تنظیموں کے بارے میں امریکی و مغرب نواز لبرل کمرشل کے کلیشوں کو لیکر چلے گا تو کبھی بھی عوام میں اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش نہیں کرسکےگا-

%d bloggers like this: