اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رمضان علیانی

انسانیت کا جذبہ۔۔۔ رمضان علیانی

ہمیں بس سٹینڈ پر قائم واش رومز میں حوا کی بیٹیوں کی نیلامی کے اشتہار نظر آتے ہیں جہاں موبائل نمبر لکھتے ہوئے ہمارے ہاتھ نہیں کانپتے.

گراؤنڈ میں ہزاروں افراد موجود تھے میچ شروع ہونے والا تھا کہ بین الاقوامی کھلاڑی میدان میں اترے اور ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ جس کے پاؤں مصنوعی لگے ہوئے تھے اور بازو بھی نہیں تھے اس معذور بچے نے میدان میں فٹ بال کے کک لگانا شروع کی اور پورا گراؤنڈ تالیوں سے گونج اٹھا ۔

کھلاڑی بار بار اس کی طرف بال پھینکتے رہے اور یہ بچہ کھیل میں مشغول رہا اسے چند لمحے اپنی معذوری بھول گئی اس کو خوش دیکھ کر والد خوشی سے آنسو پونچھتا رہا. نہیں معلوم اس بچے کا مذہب کیا تھا اس کے جسم کے یہ اہم اجزاء کیسے کاٹے گئے تھے لیکن میدان میں جو اس بچے کو عزت اور احترام ملا یہ اہم اور ناقابل بیان محبت تھی

سوشل میڈیا پر وائرل اس چند منٹوں کی ویڈیو نے مجھے بہت حیران اور سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم پاکستان میں کبھی اسلام آباد میں اسی بچہ کا ہم عمر بچہ عمر کو اغوا کر کے پھر اس کی لاش پھنک دیتے ہیں کسی زینب کو اپنی حواس کا نشانہ بناتے ہیں اور اس کو بے گناہ اپنی درندگی کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سلا دیتے ہیں ۔

کبھی معلوم ہوتا ہے خیبر پختوں خواہ کے ایک مدرسے میں کم سن بچے کو دینی معلم نے اپنی حواس کا نشانہ بنا ڈالا.

کبھی پتا چلتا ہے 2018 میں پاکستان میں جنسی ہراساں کرنے کے 3832 کیس سامنے آئے تھے 2019 کے اعداد و شمار بھی اتنے ہی کم و بیش ہوں گے مردان کی حسینہ گل 2019 میں اس دنیا سے جنسی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد قتل کی گئی تھی ۔

ہمیں نہ دین کا پتہ ہے خوف خدا ہے اور نا اس گناہ پر کوئی پشیمانی ہوتی ہے چند دن گزرنے کے بعد ہمارے معاشرے کے لوگ ہی مجرموں کی حمایت کرتے ہوئے ان کو سزا دلوانے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں

بنت حوا آج پاکستان میں سب سے زیادہ مجبور زندگی گزارنے پر مجبور ہے. ہمیں پاکستان میں بس سٹینڈ پر قائم واش رومز میں حوا کی بیٹیوں کی نیلامی کے اشتہار نظر آتے ہیں جہاں نام اور موبائل نمبر لکھتے ہوئے ہمارے ہاتھ نہیں کانپتے.

ہمارا معاشرہ اب اس حد تک گر گیا ہے کہ ایسی برائی کو فخر سے بیان کرتے ہیں جو کہ قابل افسوس ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جنسی زیادتی کے کیس کی پولیس میں رپورٹ کرواتے ہیں ۔

لیکن جب میڈیکل رپورٹ اتی ہے تو وہاں اکثر جرم ثابت نہ ہوتا ہے اگر جرم ثابت ہو بھی جائے تو لوگ اتنا دباؤ بڑھاتے ہیں کہ سوائے صلح کر کے معافی تلافی ہو جاتی ہے.

ہمارے اندر انسانیت ختم ہو چکی ہے ورنہ ایسے جرم نہ ہوتے اور نہ ہی ایسے کردار معاشرے میں رہتے.

%d bloggers like this: