مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تختی،سلیٹ کا خاتمہ،پرائیویٹ ایجوکیشن سسٹم؛ والدین پر اضافی بوجھ

تختی اور سلیٹ بار بار لکھنے کی مشق کا ایک سستا ترین اور موثر ذریعہ تھے بلکہ ہیں جس سے ایک طالبعلم میں چھپی صلاحتیں اجاگر کرنے کے مواقع کیساتھ لکھائی کو مزید بہتر کرنے میں بھی مددگار و معاون ثابت ہوتے ہیں اور اخراجات میں بھی واضح کمی کے اسباب ہیں۔

تحریر :ملک خلیل الرحمٰن واسنی حاجی پورشریف

تعلیم کا حصول کسی بھی مہذب معاشرے کا عکاس ہے اور بحیثیت مسلمان علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے مگر بدقسمتی کہیں یا المیہ آنیوالے وقت اور گزرتے لمحوں کیساتھ ساتھ جدت پسندی اور روشن خیالی نے جہاں سہولیات فراہم کی ہیں وہیں ہماری بنیادی تعلیم کے حصول کا بیڑہ بھی غرق کیا گیا ہے اور پاکستان میں چاہے وہ جمہوری طرز حکمرانی ہو یا فوجی آمریت کا دور ہو شعبہ تعلیم کیساتھ نئے نئے تجربے اور کھلواڑ کیا گیا اور تعلیمی نظام کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا گیا۔

اگر یہ کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ پہلے والا دور مشکل مگر آسان تھا اور موجودہ آسان ترین ہونیکے باوجود مشکل ترین ہوچکا ہے اور ہماری آنیوالی نسل بجائے ترقی کے تنزلی کی طرف خدانخواستہ گامزن ہے جس کے من الحیث و القوم ہم سب شاید ذمہ دار ہیں اور دور جدید کی روشن خیالیوں نے ہم سے ہمارا وہ سب چھین لیا ہے جس سے ہم بہتر طور پر دوسری قوموں کا احسن انداز میں مقابلہ کرسکتے ہیں یا کر سکیں گے ۔

پہلے مرحلے میں تختی اور سلیٹ کا خاتمہ اگر آج کے اور ماضی کے لوگوں میں تحریر کا موازنہ کریں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ جوکہ بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں ایک بنیادی شرط ہے اور ایک خوبصورت اور اچھی تحریر دیکھنے اور پڑھنے والے کو اپنی طرف راغب کرنے کیساتھ ساتھ مزید انسیت بھی پیدا کرتی ہے جوکہ اب بلکل معدوم ہوتی جارہی ہے۔

کیونکہ تختی اور سلیٹ بار بار لکھنے کی مشق کا ایک سستا ترین اور موثر ذریعہ تھے بلکہ ہیں جس سے ایک طالبعلم میں چھپی صلاحتیں اجاگر کرنے کے مواقع کیساتھ لکھائی کو مزید بہتر کرنے میں بھی مددگار و معاون ثابت ہوتے ہیں اور اخراجات میں بھی واضح کمی کے اسباب ہیں۔مگر اسکی جگہ پینسل اورکاغذ نےلیکر جہاں طالبعلموں کی لکھائی کا بیڑہ غرق کردیا ہے وہاں غریب و متوسط اور سفید پوش طبقہ والدین کے مسائل اور بوجھ میں مزید اضافہ کردیا ہے اور تعلیم کا حصول مشکل کیساتھ ساتھ ناممکن ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔

سب سے بڑھ کر ظلم حکومتی عدم دلچسپی اور کمیشن مافیا نے شعبہ تعلیم میں بار بار کے تجربات،مار نہیں پیار،اساتذہ کی بے توقیری کبھی مردم شماری،خانہ شماری،الیکشن ڈیوٹی،امتحانی ڈیوٹی،پولیو ڈیوٹی اور پتہ نہیں کیا کیا میں مصروف رکھ کر اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لاکر پرائیویٹ سکولز اور اداروں کی حوصلہ افزائی کیساتھ ساتھ پیف سکولوں کا قیام عمل میں لاکر تعلیم نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

آج ہر گلی محلے میں قائم پیف یا پرائیویٹ سکول جہاں تعلیم کی پیشہ ورانہ ڈگری اور مہارتوں سے محروم مڈل،میٹرک اور ایف اے پاس کم تنخواہ کے لالچ میں اساتذہ نے بچوں کو رٹہ سسٹم پر لگا کر ذہنی اور اجاگر کرنے والی صلاحیتوں سے محروم کر کے نفسیاتی مریض بنادیا ہے اور مستقبل کے معماروں کی بجائے بیماروں کی فوج تیار کی جارہی ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے نظام تعلیم کا تھیوری اور پریکٹیکل ایک متصادم شکل اختیار ہوئے ہے اور ہم نے اپنے طلباء و طالبات کو گھوڑا ،گدھا سمجھ کر بس ان پر وزن ڈالنے اور بوجھ لادنے پر گویا اکتفاء کیا ہوا ہے ہمیں انکی زندگی اور مستقبل سے کوئی سروکار نہیں اور نہ کوئی اخلاقیات اور معاشرتی زندگی کے اصولوں کی پرواہ ہے۔

اس لئے محکمہ تعلیم کے وفاقی اور صوبائی اداروں اور حکام و افسران اقتدار و با اختیار سے پر زور مطالبہ اور اپیل ہوگی کہ نئی تعلیمی سال اور نئی تعلیمی پالیسی کے آغاز پر طلباء و طالبات اور والدین کی سہولت اور بہتری کے لیئے تختی اور سلیٹ کو دوبارہ اہمیت دی جائے اورپیف سکولوں کو ختم کر کے سبسڈی کی مد میں اربوں روپے کی قومی دولت کے ضیاع کو روکا جائے ۔

پرائیویٹ سکولز کو قومی اور سرکاری دھارے میں لاکر اساتذہ کے عزت ووقار کو بحال کیاجائے اور پرائیویٹ سکولز مالکان کو پابند کیاجائے کہ وہ بھی ہائی کوالیفائڈ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے حامل ڈگری یافتہ اور مہارتوں کے قابل اساتذہ کو تعینات کریں۔

حکومت وقت جوکہ ریاست مدینہ کا اپنے آپکو ماڈل بنانے کی کوشش میں ہے تو دست بستہ اپیل ہوگی کی ہر ویلج اورنیبر ہڈ کونسل کیساتھ ہر قصبے اور دیہات میں بنیادی تعلیم کے حصول کے لیئے گرلز اوربوائز سکول حکومتی سرپرستی میں قائم کرے جہاں فنی تعلیم و تربیت کو بھی بنیادی تعلیم کے حصول کیساتھ ساتھ لازمی قرار دیا جائے تاکہ ٹاٹ سکولوں کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے اور میرے معاشرے کاہر بچہ اور بچی زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر بہتر طور پر ملک وقوم کی خدمت کر سکے اور طبقاتی نظام تعلیم کا بھی خاتمہ ہوسکے اور تعلیم کاحصول ہر پاکستانی شہری کا مقدر بن سکے ناکہ ایک خواب کی صورت میں صرف خواب ہی رہ جائے۔

کیونکہ مختلف سلیبس اور طبقاتی نظام تعلیم نے غریب اور امیر کا فرق قائم کر کے سٹیٹس کو کو برقرار رکھا ہے اور صاحب ثروت اور صاحب حیثیت کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے اعلیٰ تعلیم اعلیٰ ماحول میں حاصل کریں جبکہ غریب کا بچہ یا بچی وہی ٹاٹ سکول جہاں سہولیات کا مکمل فقدان جہاں پینے تک کا پاک صاف میٹھا پانی تک میسر نہیں اور چھپر نما سکول کئی کئی میلوں کی مسافت اور دشوار گزار علاقوں اور جگہوں پر قائم آج بھی حکومتی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔

اسکے مقابلے میں پرائیویٹ سکولز اور ادارے جنہوں نے تعلیم کو صرف کاروبار اور پیسے کمانے کی فیکٹریوں تک محدود ہیں۔وہاں بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے مگر قریب اور آسان سہولت ملنے کے سبب سرکاری سکولوں سے تعداد ملتی جلتی ہے حالانکہ دور جدید کی سہولیات سے استفادہ حاصل کیا جائے۔

ایک ہی سلیبس ہو اور سمعی بصری اور صوتی مہارتوں پر توجہ دیکر رٹہ سسٹم کی بجائے طالبعلموں میں چھپی صلاحتیں اجاگر کی جائیں تو مستقبل کے بہتر معمار پیدا کیئے جاسکتے ہیں اور ہر سکول میں پی ٹی شو ، بزم ادب،سکائوٹس کی تربیت کیساتھ فنی اور فوجی تربیت کو بھی لازمی جزو قرار دیاجائے تو مزید نکھار پیدا ہوسکتا ہے۔

عصر حاضر کے جدید اور عین تقاضوں کیمطابق ایک قوم تیار کیجاسکتی ہے۔ کیونکہ ایک عام سرکاری سکول میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے سبب انفرادی توجہ نہیں مل پاتی اور طالبعلم کی سبق کی کمی کو پورا کرنا ناممکن بلکہ مشکل ہوجاتا ہے۔

تعلیمی دورانیہ کی بات کی جائے تو 365دنوں میں سے 100سے150 دن چھٹیوں میں نکل جاتے ہیں۔ 50سے 60 دن اتوار کی صورت میں نکل جاتے ہیں اس طرح کچھ طالبعلم اور اساتذہ بھی چھٹیاں کر لیتے ہیں تو گویا کوئی 100یا 150دن بچتے پڑھائی کے لیئے جو کہ سلیبس کو مکمل کرنے میں ناکافی ہوجاتے ہیں۔۔یہ انتہائی توجہ اور غور طلب بات ہے۔

مزید یہ کہ سکول کیساتھ ساتھ ٹیوشن بھی ایک فیشن بن چکا ہے اور ہر گلی محلے میں قائم پیسے کمانے کی فیکٹریاں صرف پیسے یا رٹہ سسٹم یاوقت کے ضیاع کے علاوہ شاید کچھ نہیں ہیں بے شک چند پرائیویٹ سکول اور تعلیمی ادارے بہتر بھی ہونگے مگر اکثریت کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہی مقصود ہے کیونکہ غریب اور متوسط طبقے کے بچے بھاری فیسوں کے باعث ٹیوشن نہیں پڑھ سکتے اور یوں غریب اور متوسط طبقے کے بچے آگے بڑھنے سے رہ جاتے ہیں لیکن اگر حکومت وقت چاہے تو حکومتی سطح پر سکولوں کی تعداد میں مزید اضافہ کر کے ہر کلاس میں انٹرنیشنل اور قومی اصول و ضوابط کیمطابق 80سے 150کی بجائے 15سے 20 بچے ہوں تو ایک استاد ان پر بہتر طور پر توجہ اور انفرادی چیک اینڈ بیلنس اور بچوں کی ہر مضمون میں کمی بیشی اور بہتری پر بھرپور توجہ دیکر ایک بہترین تعلیمی ماحول کیساتھ بہترین معاشرے کو تشکیل دےسکتے ہیں۔

یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں کیونکہ اب حکومت پنجاب نے لوکل گورنمنٹ کے تعاون سے ہرضلع ،تحصیل،میونسپل کمیٹی،ٹائون کمیٹی، نیبرہڈ اور ویلیج کونسل تک کی آبادی پر توجہ دینے کا عندیہ دیا ہے تو وہاں پر مزید بہتری کے لیئے مردم شماری سے اور آبادی کے تناسب سے پرائمری،مڈل،ہائی،ہائیر سکینڈری لیول کے سکول،کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جاسکتی ہیں اور ایک ہی نصاب تعلیم سے ایک ہی پیٹرن طریقہ کار کے سبب ای لرن پنجاب ڈاٹ کام ایپ پر مزید بہتری لاکر ہر مضمون کی کتاب اور ہر سبق کے ایک ایک سوال کا جواب بہتر اور آسان انداز میں اپ لوڈ کر کے ہر سکول میں کمپیوٹر لیب قائم کر کے بچوں کو لیکچر دینے ،انہیں سمعی اور بصری طریقہ کار سے سمجھا ، پڑھا کر مختلف اسائنمنٹس دے کر بچوں کو خود سے لیکچر تیار کرنے کی ذمہ داری دے کر ان میں قوت خود اعتمادی پیدا کی جاسکتی ہے اور بھاری بھرکم فیسوں اور ٹیوشن سے بھی چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے۔

پورے پنجاب اور ملک میں بیروزگاری کا خاتمہ بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے اور خاص طور پرطلباء و طالبات کو ہر سبق کے ہر سوال کے متعلق لیکچر تیار کرنے سے جوکہ آنیوالے دنوں اور مستقبل میں بڑی کلاسز انکے لیئے بہت معاون اور مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

%d bloggers like this: