مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماس کیمیونیکیشن کے دو نئےڈاکٹر ز۔۔۔ گلزاراحمد

ادھر ایکسٹرنل ایگزامینر بہاالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے ماس کام ڈیپارٹمنٹ کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف خان تشریف لا رہے تھے

آج گومل یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ آف کیمونیکیشن اینڈ میڈیا سٹڈیز میں زیر تعلیم دو Phd سکالرز کے تھیسس کا ڈیفنس یونیورسٹی نیو کیمپس ڈیرہ میں منعقد ہوا جس میں شرکت کے لیے مجھے بھی دعوت دی گئی۔

سخت سردی کی وجہ سے میں کئی دنوں سے رضائی میں دبکا بیٹھا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ Phd سکالر محمد انور مروت میرا بہت ہی پیارا دوست اور شاگرد تھا اور میں چاہتا تھا کہ میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں ۔

ادھر ایکسٹرنل ایگزامینر بہاالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے ماس کام ڈیپارٹمنٹ کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف خان تشریف لا رہے تھے ان کے ساتھ پرانی یاد اللہ تھی کیونکہ جب میں ملتان ریڈیو پر تھا تو انکےڈیپارٹمنٹ جرنلزم پڑھانے جاتا تھا۔

ڈاکٹر محمد اشرف ایک نہایت لائق اور فیض رساں شخصیت کے مالک ہیں اور انکی زیارت کا اشتیاق بھی بہت تھا۔ ڈاکٹر وسیم اکبر صاحب کا بھی فون آ گیا اور وہ ہمارے آجکل یوگا ماسٹر ٹرینر بھی ہیں تو اب سردی پر ان احباب سے ملنے کا شوق گرم جوشی میں تبدیل ہو کر غالب آ گیا اور میں اپنی گرم چادر لپیٹ کر لائیبریری سے متصل ہال میں پہنچ گیا جہاں ڈیفنس ہو رہا تھا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر محمد اسلم صاحب سے ملاقات ہوئی وہ ان سکالر کے ایڈوائیزر بھی تھے لیکن ان کی طبیعت ناساز تھی اور گزشتہ رات اسلام آباد سے آٹھ گھنٹے کا سفر کر کے لوٹے تھے تو تھکے تھکے تھے۔

ڈاکٹر وسیم اکبر صاحب پوری دلجمعی اور ڈسپلن کے ساتھ ہال سجا کے بیٹھے تھے۔ سب سے عمدہ بات یہ ہوئی فیکلٹی آف آرٹ کے ڈین جناب پروفیسر ڈاکٹر شادی اللہ خان سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی جو بڑی عمدہ شخصیت کے مالک ہیں اور ایک شفیق استاد کا کردار ادا کر رہے ہیں وہ ایک ملاقات میں بندے کا دل موہ لیتے ہیں۔

محمد انور مروت جو آج سے ڈاکٹر محمد انور مروت ہیں نے سب سے پہلے مائیک سنبھالا اور بڑے اعتماد اور دلائل کے ساتھ اپنے تھیسس کے ثبوت پیش کیے کچھ سوالوں کے جواب بھی خوبصورتی سے دیے جس سے تمام ایگزامینرز اور شرکاء مطمئین ہوئے اور پھر سب سے پہلے خود ڈاکٹر محمد اشرف۔ پھرڈاکٹر وسیم اکبر اور ڈاکٹر شادی اللہ خان نے ان کو کامیاب دفاع پر مبارکباد دی اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور سب شرکاء نے انور مروت کو گلے مل کر مبارکباد دی۔

انور مروت کا ٹیلنٹ میں نے اس وقت سے بھانپ لیا تھا جب یہ پشاور ریڈیو پر میرے سب ایڈیٹر تھے۔میں نے انور مروت کو ہر مشکل اسائنمنٹ دی جس کو اس نے بڑی خوبی سے نبھایا اور دل خوش ہو جاتا۔

اس کے ساتھ میرے دوسرے سب ایڈیٹر لطف الرحمان صاحب تھے جو بہت ذہین اور محنتی لڑکا تھا ۔خدا کی قدرت دیکھیے لطف الرحمان صاحب نے بھی بہت شاندار گریڈ میں اسلام آباد سے Phd کی اور ڈاکٹر بن گیے۔ مجھے ان دونوں کے ٹیلنٹ پر اس وقت بھی ناز تھا اور اب تو دونوں کا اعزاز میرے لیے فخر بن گیا ہے۔

آج کے دوسرے سکالر تصدق حسین تھے جو اپنے تھیسس کا کامیاب دفاع کر کے ڈاکٹر بن گیے۔ تصدق حسین مجھے سب سے پہلے انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ملے تھے جب میں وہاں پروفیسر تھا اور Phd کا سوچ رہے تھے۔ پھر یہ نفیس آدمی مجھے گاہے گاہے ملتا رہا اور ہم بھی فقیروں کے ٹوٹکے ان کو سنا دیتے ہمارے پاس علم تو خاص نہیں ہے مگر درویشوں کی محافل سے جو باتیں سنتے ہیں وہ بیان کر دیتے ہیں۔

تو آج کا دن پروفیسر ڈاکٹرمحمد اشرف خان۔ ڈاکٹر محمد انور مروت اور ڈاکٹر تصدق حسین کے نام کرتے ہیں کیونکہ دسمبر ہمیں اپنی برف کی طرح یخ بستہ سرد اداس اور تنہا شاموں میں گھماتے گھماتے آخر ایک خوشیوں اور محبت سے بھرا دن دے کے رخصت ہو رہا ہے اور گومل یونیورسٹی کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ اب تیزی سے کام نمٹاۓ جا رہے ہیں اور امتحانات کے نتائج کا بر وقت اعلان کر دیا جاتا ہے ۔اکتوبر میں ہمارے ایک اور دوست ڈاکٹر ریاض رضا صاحب یہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں تو جناب تمام نیے ڈاکٹروں کو بہت بہت مبارک ہو اللہ مزید کامیابیاں نصیب کرے۔آمین

%d bloggers like this: