اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط5)۔۔۔عباس سیال

مکیش کا پروگرام تھا کہ وہ دفتر سے فارغ ہونے کے بعد سیدھا قرول باغ آکر مجھے ہوٹل سے پک کریں گے اور دلی دکھانے لے چلیں گے ۔

دِلّی میں پہلا دن

دِلّی کی پہلی صبح : پوری رات خوب ڈٹ کر سونے کے بعد یہ اکیس اکتوبر بروزِ منگل ایک نئی نکور صبح کا آغاز تھا ۔ صبح جب فون کی گھنٹی پر آنکھ کھلی تو دوسری طرف سے استقبالیہ کلرک کے ذریعے ڈاکٹرملک راجکمار کا پیغام پہنچا کہ وہ مجھے ہوٹل سے لینے کیلئے گھر سے نکل پڑے ہیں۔جلدی نہا دھو کر ہوٹل انچارج پالے رام سے وائی فائی پاس ورڈ مانگا، جو خوشی سے دے دیا گیا ، اسی وائی فائی کے سہارے گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دی اور دلی میں اپنے دوست مکیش اسیجا کے موبائل پر واٹس ایپ کے ذریعے پیغام چھوڑا ، اِسی اثناءمیں ہوٹل ملازم ایک پیالی چائے اور پلیٹ میں کچھ بسکٹ لے کر آیا۔استقبالیہ پر بیٹھے پالے رام نے کہا کہ ہماری طرف سے پہلا ناشتہ مفت ہے ۔ پالے رام کا شکریہ ادا کرنے کے بعد چائے کی پیالی ابھی ہاتھوں میں تھی کہ ملک راجکمار صاحب بھی ہوٹل پہنچ گئے۔ ملک صاحب سے ملنے کے بعد دن بھر کے پروگرامز ترتیب دئیے گئے ۔پروگرام کے مطابق ہوٹل سے سیدھا ان کے دفتر جانا تھا ، ناشتہ اور لنچ وہیں دفتر میں کرنے کے بعد دلی گھومنے کا پروگرام تھا۔اسی دوران ہوٹل پر کوئی سرکاری مخبر آیا اوراس نے ہوٹل منیجر کو بتایا کہ آپ کے ہوٹل میں جو پاکستانی مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ صفدر یارجنگ روڈپر قائم پولیس رپورٹنگ آفس جا کر آج ہی اپنی آمد کی رپورٹ درج کروا آئیں۔اگرچہ میرا ویزہ پولیس رپورٹنگ سے مستثنیٰ تھا،میں اوپر کمرے سے اپنے سفری دستاویزات لے کر نیچے آیا۔ مخبر کو اپنا پاکستانی اور آسٹریلین پاسپورٹس دکھائے، ویزہ کیٹگری میں کہیں بھی پیشگی رپورٹنگ کے متعلق کچھ درج نہ تھا، نہ ہی ویزے پر کسی مخصوص شہر کا نام لکھا تھا بلکہ تین ماہ کے اوپن ویزے پر سارا ہندوستان گھومنے کی اجازت تھی مگرحفظ ِما تقدم کے طور پر مخبر نے یہی مشورہ دیا کہ اگرچہ یہ پولیس رپورٹنگ سے مستثنیٰ وِزٹ ویزہ لگتا ہے کیونکہ اِس پر کسی مخصوص شہر کا نام درج نہیں،مگر چونکہ میری دہری شہریت ہے اور پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اصولاً پولیس آفس جا کر مطلع کردینا چاہیے تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ بن جائے ۔یہ کہتے ہی وہ شخص اپنا موبائل نمبرہوٹل منیجر کو دے کر واپس چلا گیا۔ملک راجکمار نے اُسی وقت مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی کا رُخ صفدر یار جنگ روڈ کی طرف موڑ دیا۔جب ہم وہاں پہنچے تو کئی پاکستانی مرد و خواتین رپورٹنگ کیلئے وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ علاج معالجے کی غرض سے یہاں آئے تھے،کچھ آج شام کی ٹرین سے واپس پاکستان جا رہے تھے جبکہ کچھ اپنے رشتے داروں سے ملاقات کیلئے دلی میں قیام پزیر تھے ۔ دلی آنے اور چھوڑنے والے پاکستانیوں کا اس مقام پر آنے کا ایک ہی مقصد تھا، پولیس رپورٹنگ۔ ایک سانولا سا شخص آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے بڑا سا رجسٹر کھولے باری باری سب کا نام رجسٹر پر لکھتا جاتا اور اس کے بغل میں بیٹھا لڑکا مسافروں کے فارموں کو کمپیوٹر میں فیڈ کرکے سامنے رکھے ڈیجیٹل کیمرے سے اُن کے چہروں کی تصاویر کھینچ کر فارم کا پرنٹ آﺅٹ نکال کر ایک کاپی مسافر کو تھماکر دوسری کاپی اپنے ریکارڈ میں ر کھتا جاتا۔ ہماری باری آنے پر ملک راجکمار نے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر دکھایا جس سے کام مزید آسان ہو گیا اور ایک لمبا چوڑا پراسیس خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ اب ڈاکٹر راجکمار کے آفس جانے کا ارادہ تھا۔قرول باغ دِلی کے آریا سماج روڈ، دیونگر میں ان کا دفتر واقع ہے جہاں پر وہ انکم ٹیکس کی پریکٹس کرتے ہیں جبکہ میانوالی نگر دِلی میں ان کی رہائش گاہ ہے جہاں وہ ا پنی پتنی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں، اُن کی پتنی بچوں کا سکول چلاتی ہیں۔

دلی کی ٹریفک: صفدر یارجنگ روڈ سے قرول باغ تک راستے میں جگہ جگہ ٹریفک رُکی ہوئی تھی۔دِلی کی ٹریفک بھی پاکستانی شہروں کی طرح غیر منظم،آلودہ اور شور شرابے سے بھرپور لگی بلکہ پاکستان سے بھی دو ہاتھ آگے سمجھئے۔بھیڑ میں پھنسی گاڑیاں ، ٹیکسیاں، آٹو رکشے اور ان سب کے بیچ ہیلمٹ سروں پر ٹکائے سکوٹروں پر بیٹھی آگے سرکتی بھارتی مہیلائیں ۔گاڑیاں جیسے ہی سرخ اشارے پر رُکتیں، پھڑ پھڑ کرتے ہرے پیلے آٹو رکشہ ڈرائیور سی این جی سے چلتا انجن بند کر دیتے جسے اشارہ سبز ہوتے ہی دوبارہ سے اسٹارٹ کردیا جاتا۔بے ہنگم ٹریفک میں چلتے آٹو رکشے بغیر کسی نقشے کے سواری کو دِلی میں کسی بھی مقام پر لے جا تے ہیں۔پورے شہر کی نیوی گیشن ان کے ذہنوں میں فیڈ ہوتی ہے اور یہ پروفیشنل قسم کے روڈ ماسٹرز بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے سواری کو ایسے نکال لے جاتے ہیں جیسے آٹے کے اندر سے بال۔

دلی کی جام ٹریفک میں رُکی گاڑیوں کے درمیان سرکتے موٹر بائیک اور سکوٹر چلانے والوںکی اپنی الگ دنیا ہے جو ٹریفک میں پھنسی گاڑیوں کے بیچوں بیچ پتلی گلی سے آگے نکل جاتے ہیں۔اگرچہ دلی کی سڑکوں کا منظر نامہ پاکستانی سڑکوں جیسا تھا مگر دلی شہر روایت اور جدیدیت کا امتزاج لئے منفرد دکھائی دے رہا تھا ،خصوصاً پینٹ شرٹ میں ملبوس بے خوف و خطر، پر اعتماد طریقے سے سکُوٹی چلاتی انڈین لڑکیاں دِلی کی سڑکوں پر تتلیوں کی طرح اُڑتی پھر رہی تھیں ۔ویسپا سکُوٹی پر بیٹھی شلوار قمیص پہنے ایک پنجابی عورت نے ہیلمٹ کی بجائے سر کو چادر سے ڈھانک رکھا تھا اور آگے بچے کو کھڑا کئے رش میں دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔ ایک سردار جی سر پر ہیلمٹ کی بجائے زعفرانی رنگ کی پگڑی باندھے پوری فیملی کو بائیک پر بٹھائے پیچھے آرہے تھے ۔ ہندوستان کی سکھ کمیونٹی ہیلمٹ سے قانوناً مستثنیٰ ہے اور وہ اپنی دھرمی پگڑی سر پر باندھ کر بائیک چلا سکتے ہیں۔ سردار جی کے تعاقب میں سرکتی سکوٹی پر بیٹھی ایک سانولی لڑکی آگے کو جا رہی تھی ۔یہ منظر دیکھ کرمیرے اندر نے مجھ سے سرگوشی کی۔یہاں کی مہیلائیں کیسے بے خو ف و خطر گھوم پھر رہی ہیں؟ کوئی روایتی لباس میں ملبوس ، کوئی ٹراﺅزر کے ساتھ ڈھیلی قمیص پہنے، کوئی جینز اور ٹی شرٹ تو کوئی حجاب لئے مزے سے سکُوٹی پراپنی منزل کی طرف گامزن ہے ۔ایک عام سا خدوخال لئے ، بے کشش، پھیکی سی ہندوستانی مہیلا ئیںبے خوف و خطر مردوں کے ہمراہ ہر میدان میں کنٹری بیوٹ کرکے اپنی ا ہلیت کا لوہا منوا رہی ہیں،دوسری طرف ہمارے وطنِ عزیز کی عورت ہے کہ جو ہماری کل آبادی کا52 فیصد بنتی ہے اور جو کسی طور ہندوستانی عورت سے کچھ کم نہیں ۔ہماری قوم کی مائیں، بیٹیاں اور بہنیں ہندوستانی عورت کے مقابلے میں زیادہ ذہین،محنتی، ہنر مند، سگھڑ اور باسلیقہ ہیں ۔ تعلیم وہنر سے لے کر اوڑھنے بچھونے ، سینے پرونے، بچے پالنے اور کھانا پکانے تک کا ہنر بخوبی جانتی ہیں، لیکن صد افسوس کہ ہم نے اپنی باون فیصد اکثریتی آبادی کو کبھی بھی آگے آنے کا پورا موقع نہیں دیا ۔ ہم نے اپنی اکثریتی آبادی کو اعتماد اور حوصلہ دینے کی بجائے نہ صرف اسے گھروں میں قید کر رکھا ہے بلکہ 48فیصد مردہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے گھروں کے دروازوں پر بیٹھے پہرہ دے رہے ہیں کہ کہیں غلطی سے بھی اگر 52فیصد میں سے کسی نے سر باہر نکال کر گلی میں جھانکنے کی کوشش کی تو اس کا سر وہیں پھوڑ دیا جائے گا۔ کیا کبھی ہم بھی ہندوستان جیسا ماحول پیدا کر سکیں گے کہ جب ہمارے علاقوں کی عورتیںبلا خوف و خطرسوسائٹی میں اپنی کنٹری بیوشن کو یقینی بناکر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں گی ؟

ڈاکٹر راجکمار آفس قرول باغ ،نئی دلی: آریا سماج روڈ، دیونگر میں کیکر چوک کے قریب ایک جنرل اسٹور کے سامنے ملک راجکمار نے گاڑی روکی اور ہم سیڑھیوں کے ذریعے بالائی منزل تک پہنچے جہاں ان کا دفتر واقع تھا۔دو کمرے کے اس بالا خانے میں ایک چھوٹا کمرہ لیڈی اسسٹنٹ کیلئے مختص ہے جبکہ اندرونی کمرہ آفس کیلئے استعمال ہوتاہے۔آفس میں بیٹھتے ہی ملک راجکمار نے میز کی دراز سے ٹی بیگز نکالے، ایک الیکٹرک جگ میں پانی گرم کیا، ڈسپوزیبل کپوں میں گرم پانی انڈیل کر اندر ٹی بیگز ڈالے اور دودھ ، چینی مکس کرکے چائے کا کپ میرے آگے سرکا دیا۔ڈاکٹر صاحب کے وائی فائی کے ذریعے چند دوستوں کو اپنی آمد کی اطلاع دی اورچائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی لائبریری دیکھنے میں منہمک ہو گیا ۔ شیشے کے شوکیس میں ہندی، سرائیکی اور اُردو لٹریچر سے بھری کتابیں اور ان سب کتابوں کے درمیان اوبرائن کی گلاسری آف ملتان، شاکرشجا ع آبادی کی شاعری، ملتانی واریں، دیوانِ فرید اورشوکت مغل کی نثری کتابیں نظر آرہی تھیں جبکہ نچلے خانے میں انکم ٹیکس کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔

ڈاکٹر ملک راجکمار بنیادی طور پر علم و ادب سے وابستہ ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔ ہندی اورسرائیکی زبانوں میں ان کا تحقیقی اور ادبی کام اتنا زیادہ ہے کہ وہ ہندوستان بھر میں ہندی اور سرائیکی لوک ادب پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔عموماً لٹریچر کا بندہ خاموش طبع ، اپنی ذات میں گم سم ر ہتا ہے مگر ملک راجکمار اِس کے برعکس واقع ہوئے ہیں۔انتہائی پھرتیلے، سوشل، ہنس مکھ، مستعد، فعال اور مجلسی قسم کے انسان کہ جن کی صحبت میں پل پل پھلجھڑیاں پھوٹتی رہتی ہیں اور وہ اپنے تیور سروں سے اردگرد کے ماحول کو گرما ئے رکھتے ہیں ۔ ملک صاحب کی زبان کا تیکھا پن، چال میں تیزی ، مزاج میں گرمی اور اپنی بات منوانے کا فن وغیرہ ایسی خوبیاں ہیں کہ وہ منٹوں میں لوگوں کو قائل کرکے اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹر ملک راجکمار کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اُن کے پِتا جی کا تعلق ضلع بھکرکے علاقے کوٹلہ جام سے جبکہ ننھیال دریا خان سے تھے اوروہ ذات کے اروڑہ ہندو ہیں۔

تقسیم ہند سے قبل ڈیرہ جات کے تھل اور دامانی علاقوں میں بڑی تعداد میں ہندو آباد تھے، جن میں زیادہ تر کاروباری پیشہ افرادتھے، جن میںزیادہ تر کھتری اور اروڑہ ذات کے ہندو تھے مثلاًکپور،کھنہ،منوتری،بہل،وُہوری،ٹنڈن اور گاندھی وغیرہ کھتریوں کی ذیلی شاخیں جبکہ کھنیجو،اسیجا،تنیجا،سچدیوا،چاولہ،کھرانا، چھوکرہ، نندوانی،مُنجھل،کالرہ،پپلانی،دَنگ ، گیرے اور ننگ پال اروڑہ ذات کے ہندو شامل تھے ۔ اَروڑہ ہندوﺅں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ لوگ سندھ کے راجہ داہر کی اولادسے ہیں۔ ملک صاحب اروڑہ ہندوﺅں کی گیر ا (فاختہ) ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ دراصل قدیم زمانے میں دریائے سندھ پر رہنے والے باشندے بحیثیت قوم جانوروں اور پرندوں کے ناموں سے شناخت کیے جاتے تھے ۔ مثلاً طوطے، گیرے، ناگ، بکری ، ہاتھی وغیرہ ۔تقسیم سے قبل ملک راجکمار کے والد کے چچا لکشمی داس گیرا بھکر میں ریاضی کے استاد تھے اورراجکمار کے والد اُس وقت نویں جماعت کے طالبعلم تھے ۔ ہندوستان تقسیم ہوتے ہی وہ دلی آگئے ۔ سونی پت میں میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے پولیس جوائن کر لی مگر جلد ہی پولیس کی نوکری سے اکتا کر انڈین ریلوے میں بطور اسٹیشن ماسٹر بھرتی ہو گئے ۔ کوٹلہ جام میں پیچھے چھوڑ کر آنے والی زمینوںکے عوض انہیں بھرت پور میں کلیم کی مد میں کچھ زمینیں الاٹ ہوئیں۔اسی دوران ملک راجکمار کی پیدائش ہوئی ، انہوں نے اپنی دادی کی گود میں پرورش پائی۔ گھر میں سرائیکی کا چلن عام تھا، اسی لئے وہ اپنی دادی سے سرائیکی سیکھنے لگے ۔ شروع کی تین جماعتیںہریانہ میں سرائیکی اساتذہ کی زیرنگرانی پڑھیں پھر والد کا تبادلہ کوسی (ضلع متھرا) میں ہوا،یوں ملک صاحب کا پورا گھرانا ریلوے کالونی کوسی میں مقیم ہو گیا۔ کوسی ہائی سکول سے میٹرک اور ایف اے ، بی اے متھرا کالج ،ایم اے ہندی آگرہ یونیورسٹی سے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری مہرشی دیانند یونیورسٹی روہتک سے حاصل کی ۔والد کی ریلوے میں نوکری اور تبدیلیوں کے سبب انہیں ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں اور قصبات کو دیکھنے کا موقع ملا۔1986ءمیںوالد صاحب کا تبادلہ جب دلی ہوا تو سب دلی شفٹ ہو گئے اور اپنی برادری میں کھل کر سرائیکی زبان بولنے لگے۔ 1998ءمیں ملک راجکمار کے والدسورگ باش ہوئے ۔ راجکمار نے ہندی میں ڈاکٹریٹ کی سند لینے اور لوک ادب سے دلچسپی رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس ، سیلزو سروس ٹیکس کے شعبوں کو اپنا ذریعہ معاش بنایا اوروہ گزشتہ تیس سال سے پریکٹس کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب انسانیت کے علمبردار اور سرائیکی قوم سے محبت کرنے والے انسان ہیں جنہیں شاکر شجاع آبادی سے عشق ہے اور وہ خواجہ غلام فرید کے کلام کے دیوانے ہیں۔وہ دلی یونیورسٹی کے علاوہ سری نگر، کلکتہ، جالندھر اور چندی گڑھ یونیورسٹیوں میں بھی لوک ادب پر لیکچرز دے چکے ہیں اس کے علاوہ منسٹری آف ہیومن اینڈ ڈیویلپمنٹ نئی دہلی کے طرف سے کئی ورکشاپوں میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔ بنگال،کشمیر، کیرل، گجرات، مہاراشٹر، آسام، ہریانہ، اڑنا چل پردیش اور سکم وغیرہ میںانہوں نے لٹریچر پرلیکچر زدئیے اور مقالے بھی پڑھے اور ابھی تک اسی کوشش میں ہیں کہ ہندوستانی سرکار سرائیکی زبان کو قومی زبانوں میں شامل کر ے۔2007ءمیں سرائیکی ادب کی کھوج انہیں پاکستان لے گئی، جہاں پر انہوں نے پتن منارہ کانفرنس میں شرکت کی اور اِسی بہانے ہڑپہ، موہنجو دڑو سمیت رحیم یار خان، بہاولپور،ملتان، میانوالی، دریا خان اور بھکر بھی گئے۔ بہاولپور اوربہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں انہیں لوک ادب پر لیکچرز دینے کا موقع بھی ملا ۔ انہوں نے اپنے پُرکھوں کی سرزمین کوٹلہ جام کی بھی زیارت کی ۔الغرض ان کا پاکستان کا دورہ بہت ہی کامیاب رہا اور انہیں وہاں بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے کو ملا۔

ڈاکٹر صاحب اب تک سرائیکی ادب کی کوئی سات ہزار کہاوتیں اور چھ ہزار محاورے اکھٹا کر نے کے بعد دیوناگری رسم الخط میں سرائیکی زبان کی ایک جامع ریفرنس بک شائع کروا چکے ہیں،جس کے اندربجھارتیں،محاورے،اکھان، پہاکے، گردانیں، لوریاں، استری گیت(عورتوںکے گیت)،بچوں کے گیت،فصلوں ، موسموں، تہواروں کے گیت اور شادی بیاہ کے گیت وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے چائے کی چسکی لینے کے بعد آفس کا فون اٹھایا اور نیچے کھانے کی دکان پر چھولے بھٹوروں کا آرڈر دینے کے بعدشوکیس میں پڑی اپنی ریفرنس بک باہر نکالی اور اپنی مشہور نظم سے آغاز کیا۔

” ماں بولی میڈا حق ہے، ہِم قنون کتاب پڑھایا۔ڈاڈی دِتی گھُٹی وِچ، ماءکھیر دے نال پلایا۔ ہولے ہولے سمجھ گیئم، کیتُم ماءد ا قرض سجایا۔ نئیں وَڈائی اِسں وچ میڈی، ہِم خالق مانڑ وَدھایا“۔اِسی دوران ڈاکٹر صاحب نے لوک دعائیں پڑھ کر سنائیں۔ بچڑا جیوی۔ شالا سِر سلامت ہووی۔ سِردا سائیں جیوی۔جوانیاں مانڑیں۔ آشیرواد ہووی۔ خُشیاں دے ڈینہہ ڈیکھیں وغیرہ وغیرہ پھر عورتوں کے روایتی کوسنوں ،پلُوتوںاور بد دعاﺅں کا دور چلا۔ لُگ تھیوی اوترا نبھایا۔ رَنوں مارا۔ کھلے جیندی جمیندی کوں۔ بچڑے مرنیں پیو دے ۔ اَغیب دی سٹ لگی شالا ۔ سکدی مریں۔ سِر مُنا تھیوی( یتیم ہونا) ۔شالا موت دا سڈا آوی۔ ہاں دی چُونڈی لگی ۔شالا گڑے وات تھیویں ۔ ٹرک تلے آویں وغیرہ۔

مردوں کے کوسنے مثلاً اے کیہرا گڑے؟۔اَے کے خچ خانے ؟۔ اے کیری کتے یخی ہے۔ چخے تھی ونج ہاں دا کھاپاوغیرہ۔

روتے بچوں کو چپ کرانے اور سلانے کیلئے ماﺅں کی لوریاں: تیڈا جمدا جیوے لعل ، لولی لعل کوں ڈیواں۔جدُو وَالی جال دُھائی، جکھڑ والا تھلہ، پُُچھن والا جیندا رَاہوی، بیہا وِی ڈیوی اللہ۔ تیڈا جمدا جیوے لعل ، لولی لعل کوں ڈیواں۔

لولی لولی لولی، امڑی جھلے جھولی۔ لولی لعل کوں ڈیواں، نِکے بال کوں ڈیواں۔

چھوٹے بچے کی پیدائش پر لولی( آیا آیا آیا، آیا تے سوایا، چنگے ویلے میڈی جھولی وِچ پایا)

پیدائش کے فوراً بعد بچے کو پہلی بار نہلاتے وقت کی لوری(ٹھری ٹھری ٹھری، چا کھولیساں گری، دھاتا دھوتا مائی کوں، کھنڈ کاکے دی دائی کوں)

چھوٹے بچوں کے گیت ، مثلاً بیری آلا بیر میکوں اَجن تئیں یاد ہے۔مُونھ اِچ اجن اُنہاں بیراں دا سواد ہے۔

ماما ماما !! جی بھڑینجا !! تیڈی گھوڑی اَکے کہ بکے؟۔ ماما آیا ماما آیا، بیر گھن آیا، بیر گھن آیا۔ کاکے دا حصہ ڈھیر گھن آیا۔

چھوٹے بچوں کے قصے کہانیاں مثلاً کاں تے چڑی دی کہانڑی ، شیں تے بکری دی کہانڑی ، بھابھی (دادی) دی کہانڑی ، عقل دا کھیڈ، نانی بڈھری دا پُھلا، پاولی تے گدڑ ،راجے دی دھی، چڑی دی پہاج ، نانے گنجڑودی کہانڑی وغیرہ۔

ملک راجکمار نے ٹھیٹھ سرائیکی لہجے میں اپنی تیور آواز کا خوب جادو جگائے رکھا ،اس دوران آفس میں انکم ٹیکس کی غرض سے آئے ایک سردار جی ہماری سرائیکی سے کافی محظوظ ہوئے اور راجکمار کی کہاوتوں، اکھانوں اور لوریوں پر اُسے خوب داد دی،بعد میں ڈاکٹر صاحب نے شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی بالیوں کے گیت اپنی کتاب سے پڑھ کر سنائے: تُساں آوﺅ سیﺅ، لنگھ آوﺅ سیﺅ ۔ میڈے ویر دا چیکو گھن آوﺅسیﺅ، ایہو چیکو تاں ملن سیﺅ، میڈے وِیر کوں مل گئی ہیرسیﺅ ۔

اب باری بڑے بزرگوں کے قصوں کی تھی : سیر کوں سوا سیر، ست بھرائی، سیانڑی رن۔

شادی شدہ عورتوں کی کہاوتیں(پہاکے): وے لوکو سوکن مندی ہے ۔ راتیں سوکن آئی ہئی، گلے دی گانی منگدی ہئی، گلے دی گانی منگدی ہئی ،دِلاں دا جانی منگدی ہئی۔گلے دی گانی ڈے ڈیساں، دِلاں دا جانی نہ ڈیساں۔

چھلا ماراں بیر کوں، کنڈا لگا پیر کوں،مندھے کڈھاں ڈیر کوں۔کھٹی کھٹی چھاہ، لڑاکی تیڈی مائ، تتا تتا گھیو، اصیل تیڈ اپیو۔

اُٹھ میڈا شام سویلے ڈینہہ تھیون کوں آیا ہئی،ڈیں تھیون دی ایہہ نشانی تاریاں رنگ وٹایا ہئی۔ پنج مائے پا ساکوں کھڑی نہ کھڑا، بیٹھی روٹیاں پکا، کالے کتے کوں وِی پا،کالا کتا ڈیوے دعائیاں، تیڈے جیون منجھیاں گائیاں۔ ڈَین (ڈائن) غلامی ویندی پئی ہے، اگلے ہفتے دِلی ہئی ،گھنٹہ گھر تے ملی ہئی،صحت ڈاڈھی ڈِھلی ہئی،کجھ رُنی کجھ کھلی ہئی،ٹھڈے ساہ بھریندی پئی ہے، ڈَین غلامی ویندی پئی ہے۔

سرائیکی لوک گیت: پیلوں پکیاں نی، وے آچنو ں رل یار۔ بھانویں جانڑے تے بھانویں نہ جانڑے، میڈا ڈھول جوانیاں مانڑے ۔ چن کتھاں گزاری ہئی رات وے،میں پانی بھریندیاں ڈولیاں، میکوں لوک مریندن بولیاں،میڈے دل تے لگدیاں گولیاں، میں یار دی ہاں رولیاں۔آپنڑاںگراں ہووے تُو تاں دی چھاں ہووے۔ وانڑ دِی منجھی ہووے، سِر تلے بانہہ ہووے۔ ڈھولا لمے نہ ونج وے۔

پھراسٹریٹ وِزڈم(لوک دانش) پر مبنی سرائیکی محا وروںاور حکایتوں( اکھان) کا دور چلا۔

سِکدی رئی لیپ کُوں، سیالا لنگھ گیا۔بدرو بدر بلاں تے ساون ہووے ہا۔پھگن کندھیاں لگن۔ہاڑ سمے ساون دھاوے، اسُوں کتے تھولا کھاوے، کیوں طبیب گھر اِچ آوے۔ساون آیا سیالا جایا۔ مونہہ چوئی ڈِھڈھ کھوئی۔کھاداپیتا لاہے دا، باقی احمدشاھے دا۔دِلی شاہر نمونہ، اندروں مٹی باروں چونا۔کاکا دلی وال، تھولیاں گالیں ڈھیر دَھتال۔مونہہ نہ متھا، جن پہاڑوں لتھا۔مار نہ کُٹ ،گچی چا گھٹ۔آپڑا بال تے اَوپری زال بہوں بھاندن۔ اَکھ چُکی بسترا غیب۔دیسی کتا ولیتی بھونک۔ ہک ہکلا،ڈوجھا بھلا، تریجھا رَلا، جُھگا گلا۔ پہلے سال چٹی(نقصان)، ڈُوجھے سال ہٹی(دکان) تریجھے سال کھٹی(فائدہ)۔پلے نیئں دھیلا، پھردی میلہ میلہ۔ٹاہلی سِنی وی سڑے، سس بھولی وی لڑے۔وِہاج کرے متھاج۔بُکھ جھیڑے دی ماءہے۔آئے یار دھتالی،چٹے کپڑے، گنڈھوں خالی۔ اندھا ونڈے ریوڑیاں سارے ڈیوے آپڑیاں کوں۔آکھاں دِھی کوں سناواں نُوں کوں۔ ٹھگ دلی دے، پیر اَجمیر دے، تھاں مراد آباد دے تے کُوڑے جیسلمیر دے۔ سونے دی سل گلے، آدم دا بال پلے۔گاں نہ وچھی نندر کر ہچھی۔سانجھ دی اللہ کھوتی نہ ڈیوے۔سور مویا ٹانڈے اُجاڑ کے۔اُبالی کُتی اندھے کُونگرے۔کوئی نہ جانڑے اندھی کوں، لتاں مارے کندھی کوں۔پیٹ نہ پوون روٹیاں، سبھے گلاں کھوٹیاں۔منجھ منجھ دی بھینڑں ہوندی ہے۔پرائی منجھ دا چڈھا وڈا لگدے۔ ہیکلا کتا اروڑی تے سُتا ۔جتھوں دی کھوٹی، اتھیئں آ کھڑوتی۔ جیندے گھر دے دانڑے اُوندے کملے سیانڑے۔تیڈ ے لارے پرنے کوارے۔پندے کول پن اُٹھ گھوڑا گھن۔بھولُوں دے ہتھ اِچ ٹُکر، کھاندے پیندے نامُکر۔دل وچ ہووی سچ، گلی تے کھڑا نچ۔گِدڑ کُوں گُھوں آیا، تے اُوں پہاڑ تے ونج ہنگیا۔ گوہ کوں ملی گوہ، جیویں او تے جیویں او۔پچھاوڑے ہنگے وَیر نیں لاندھے۔ بے حیا دا گھیو وٹیجا، اُوں آکھا رُکھی چا کھاساں۔ بھیڈاں اِچ بھگاڑ پیا، آجڑی کوں ہنگن آیا۔ جٹ جُڑدا رِیا، بھاجڑ لُڑدا رِیا۔ ٹُر آپ نیں سکدا، لعنت گوڈاں تے۔ گھوڑی چھاں تلے بدھو۔ شیں بُکھا مرویسی ، درَب نہ چرسی۔ دشمن دی کندھ ڈھاوے، بھانویں میڈے اُتے آوے۔نہ کھیڈ سوں، نہ کھیڈن ڈیسوں۔متوں ڈیندی بنہا ں کوں، لُڑ دی ویندی آپ۔ما ںدِھی نہ کرے، دِھی ہنگ ہنگ گھگری بھرے۔ اُٹھ بڈھا تھیا پر مُترن نہ آیا ۔ اُٹھ نہ رُنے، بورے رُنے۔ ہنگدے کوں شرم آوے یا وت لنگھدے کوں۔ ذات دی کِرڑی، شہتیراں کوں جپھے۔ سائیں جا نڑن تے بلائیں جا نڑن۔ کالی کتی در کھڑکایا، ملاں سمجھا حلوہ آیا۔نور پور دے گیئں ، آپ چور آپے سیئں۔۔

بے شک سرائیکی زبان کے محاورے نہ صرف اُس کے علم و ادب،عقل و شعور کا انمول خزانہ لئے ہوئے ہیں بلکہ سرائیکی قوم کی لوک دانش اس کے محاورات میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے ، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ خطہ کسی بھی زمانہ میں جاہل نہیں رہا۔اِسی دوران چھولے بھٹورے آ گئے۔ بھٹورے دہلی کی مخصوص ڈش ہے جسے چھولوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔دلی کے بھٹورے سرائیکی کی ڈولی روٹی سے کافی ملتے جلتے ہیں۔ میدے کو آٹے کی طرح گوند کر اس میں نمک ڈال کر ان بھٹوروں کو تیل میں تلا جاتا ہے جس سے یہ اندر سے پُھول جاتے ہیں اور پھر گرما گرم بھٹورے چھولوں کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں صبح کے ناشتے میں حلوہ پوری کی دکان پر میدے کی جو پوریاں تلی جاتی ہیں ہم ا س پھولی ہوئی خستہ پوری کو ہندی میں بھٹورے کہہ سکتے ہیں ۔چھولے بھٹورے ہلکی سی ڈش ہے ، بھٹورے کھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے ایک بار پھر چائے طلب کی گئی۔ چائے کے دو کپ بنانے کے بعد وہ اوبرائن کی ملتانی گلاسری کی جلدسازی میں مصروف ہو گئے۔

میڈا سانول مٹھڑا، شام سلونا: راجکمار خواجہ غلام فرید کی شاعری کے دیوانے ہیں، خواجہ فرید کی کئی کافیاں انہیں زبانی یاد ہیں۔”میڈا عشق وِی توں میڈا یار وِی توں۔میڈا دین وِی توں ایمان وِی توں۔میڈا جسم وِی توں میڈی روح وِی توں۔میڈا قلب وِی توں،جند جان وِی توں۔میڈا کعبہ قبلہ مسجد ممبر، مُصحف تے قرآن وِی توں۔میڈے فرض فریضے، حج زکوٰتاں، صوم صلوة اذان وِی توں۔میڈا ذکر وِی توں میڈی فکر وِی توں، میڈا ذوق وِی توں وجدان وِی توں۔میڈا سانول مٹھڑا، شام سلونا، من موہن جانان وِی توں۔کافی کے اس بند تک پہنچتے ہی وہ اچانک رُکے اور پوچھنے لگے۔ غلام فرید ”سانول مٹھڑا ،شام سلونا، من موہن جانان“ ڈسا کے اصل اچ کے آکھڑاں چاہندن ؟۔شاید محبوب کی تعریف کر رہے ہوں۔میرا ناقص جواب سنتے ہی وہ سمجھاتے ہوئے بولے ۔دھرتی کے اتنے بڑے شاعر کے کلام کو بغور پڑھنے اور ان کی فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یہ خواجہ فرید ہی تھے کہ جنہوں نے روحانیت اور رومانیت کو ساتھ ملا کر محبوب کا انوکھا تصور پیش کیاتھا۔ سانول،شام،شیام، موہن، کشن، کرشن، گوپی وغیرہ۔۔۔ اس خطے کے باسیوں کا محبوب ایک ہی ہے مگر نام مختلف ہیں۔ کشن کنہیا سانولا تھا تبھی کرشن کہلایا ۔ سندھو کی داسی کا رکھوالا ،نجات دہندہ ” سانول“ بھی سانولا تھا۔سانول اور کرشن کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کیجئے جس کسی نے دھرتی کے عشق کی پوشاک پہن لی، وہ سانول کہلایا ، جس کی بنسری کے آگے رادھا ناچی وہ کرشن ہوا ۔سانولا کرشن بھی شیو، کالی دیوی کے ساتھ ہڑپہ اور موئن جو دڑو (دراوڑی دیو مالا) سے آریائی دیومالا میں آیا تھا، لہٰذاہندوﺅں کا کرشن اور سرائیکیوں کا سانول دونوں ایک ہی ہیں۔گوپی جسے ہم کشن کہتے ہیں وہ کچھ اور نہیں آپ کا سانول ہی تو ہے ۔محبت کا ایسا دیوتا جسے ہندو ،مسلمان نے اپنے اپنے اندر دو مختلف ناموں سے تراش رکھا ہے۔تھل، دامان، چولستان کے باسی بخوبی جانتے ہیں کہ صحرائی زندگی پیاسی ہے، یہی سانول اور یہی کرشن ہی ان کے ناتمام جذبوں کی تسکین کا سامان مہیا کرتا ہے اور اُن کی پیاس بجھاتا ہے۔ سانول اور کرشن۔۔اس خطے کے باسیوں کا شہزادہ ۔ کسی کے من میں کرشن بستا ہے ، کسی کی روح میں سانول حلول ہے۔ خواجہ غلام فرید یہی کہنا چاہتے ہیں کہ سانول اور کرشن دو الگ ہستیاں نہیں بلکہ ایک ہی وجود کے دومختلف نام ہیں۔ گویا سرائیکی دھرتی کا ہندو ، مسلمان ایک ہیں۔ دونوں کے دکھ درد، سوچ کے زاویے اور جذبے ایک ہیں ۔ اگر انسان کو واقعی سمجھنا ہے تو پھر اِسے دھرتی کے عاشق( غلام فرید) کی نظر سے دیکھو ۔کدی آ مل سانول یار وے۔سانول موڑ مہاراں۔ سانول مورا پیا۔

ملک راجکمار نے مجھے سانول اور کرشن کی ذات کا فلسفہ ایسے انوکھے انداز میں سمجھایا کہ مجھے اپنا سانول ہی کرشن لگا۔وہی کرشن جس کی بانسری کی آواز سن کر رادھا دوڑی چلی آتی تھی۔ہم سب آج اپنے اُن سانول جذبوں کی تلاش میں ہیں کہ جہاں کرشن اور سانول اکھٹے ملتے ہوں۔میں راجکمار کے آفس میں بیٹھا تھا کہ وٹس ایپ پر مکیش اسیجا کی کال موصول ہوئی کہ وہ شام کو آفس سے چھٹی کے بعد مجھ سے ملنے ہوٹل آ رہے ہیں۔مکیش کے ساتھ میری دوستی کو بیس سال پوراہونے کو آئے ہیں، یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میرے دوستوں ابراہیم لاشاری اور عظمت کمال خاکوانی نے ڈیرہ کی سب سے اولین ویب سائٹ” اپنا ڈیرہ ڈاٹ کام“ لانچ کی تھی، تب مکیش نے انٹرنیٹ پر سرچ کر کے ہماری ویب سائٹ کو جوائن کیا تھا۔ ڈیرہ کے حوالے سے ویب سائٹ پر اکثر ہو رہے مباحثوں نے مکیش کے تجسس کو مہمیز لگائی تھی اوراس کے دل میں جستجو کی نا معلوم سی چنگاری پیدا ہو گئی تھی۔وہ روزانہ ویب سائٹ پر آکر ڈیرہ سے متعلق معلومات لیا کرتے اورپھر اپنے ماتا پتا کو تفصیل بتایا کرتے تھے،جن کی زبانی اُس نے ڈیرہ کے متعلق پہلے سے بہت کچھ سن رکھا تھا ۔مکیش کی دِلی تمنا ہے کہ اُس سرزمین کو جا کر ضرور دیکھے جہاں اس کے آباﺅ اجداد نے جنم لیا تھا اورجہاں اس کی تہذیب آج بھی سرگوشیاں کر رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکیش سے ایسی پکی دوستی ہوئی کہ ہماری طرف سے ہولی ، دیوالی اور اُن کی جانب سے عید،بقرعید،رمضان کے موقعوں پر مبارکبادی پیغامات کا ایسا سلسلہ چلا کہ آج تک جاری ہے۔مکیش پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور بہت اچھی پوسٹ پر فائز ہیں۔

مکیش کا پروگرام تھا کہ وہ دفتر سے فارغ ہونے کے بعد سیدھا قرول باغ آکر مجھے ہوٹل سے پک کریں گے اور دلی دکھانے لے چلیں گے ۔مکیش کو ہوٹل کا پتہ بتانے کے بعد دیوی دیال جی کے دفتر فون ملایا۔ان کے پوتے سنیل نے بتایا کہ دیوی دیال دیوالی کی ایک تقریب کے سلسلے میں تھلے پر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں ، میں نے اسے بتایا کہ میں کل تھلے کا چکر لگاﺅں گا۔ ڈاکٹر راجکمار سے اجازت مانگی اور رکشے پر بیٹھ کر واپس ہوٹل آگیا۔

ہوٹل پہنچنے تک بھوک چمک اٹھی تھی۔ ہوٹل منیجرپالے رام سے پوچھا کہ اچھا کھاناکہاں سے ملے گا ؟ ہوٹل سے دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی کی نکڑ پر حیدرآبادی بریانی کی دکان ہے،وہاں کی بریانی کافی مشہور ہے۔ میں بریانی کی تلاش میں ہوٹل جا پہنچا۔ایک ہلکی داڑھی والا نوجوان لڑکا بنیا ن پہنے بریانی کی دیگ سجائے چاول بیچ رہا تھا۔مزیدارحیدرآبادی چکن بریانی فل پلیٹ ستر روپے والی کھا ئی اور واپس ہوٹل کا رخ کیا۔ ہوٹل پہنچ کر چائے کا آرڈر دیا اور لاﺅنج میں مکیش کا انتظار کرنے بیٹھ گیا ۔آدھے گھنٹے کے اندر مکیش بھائی نے مجھے ہوٹل سے پک کیا اور کناٹ پلیس دکھانے کی غرض سے باہر لے گئے ۔

قرول باغ سے کناٹ پلیس کوئی آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے مگر شام کے وقت رش کے سبب جگہ جگہ ٹریفک رکی ہوئی تھی ۔ وندے ماترم مارگ سے ہوتے ہوئے ہم شنکر روڈ پر آئے جو آگے جا کر شیخ مجیب الرحمان روڈ پر مل جاتی ہے ، وہاں سے کھڑک سنگھ اور اَشوک روڈ سے ہوتے ہوئے ہم کناٹ پلیس کے قریبی پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے ۔

کناٹ پلیس ، نئی دِلی : سفید موٹے موٹے ستونوں پر کھڑی گول دائروی سی عمار ت ہمارے سامنے تھی، جسے 1933ءمیں انگریز ماہر تعمیرات مسٹر رابرٹ ٹورسل نے ڈیزائن کیا تھا۔ راجیو چوک کے میٹرو سٹیشن سے جڑے دِلی شہر کے وسط میں آباد کناٹ پلیس کی رونق ہی کچھ اور ہے۔ کئی بلاکوں پر مشتمل اِس عمارت کے اندر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر،فائیو اسٹار ہوٹلز، کافی شاپس اور منی چینجرز قائم ہیں۔ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کی طرح کناٹ پلیس دِلی کے مہنگے ترین کمرشل علاقوں میںشمار ہوتاہے اور یہ سارا علاقہ اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔امیروں کی اس نگری میں دنیا بھر کے تمام برانڈز کے آﺅٹ لیٹس کھلے ہوئے ہیں جہاں غیر ملکی سیاح کافی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ ملکی اور غیر ملکی اشیاءکے علاوہ انگریزی کی کتابیں جو امریکہ ، لندن میں ڈالر، پاﺅ نڈ کے بھاﺅ ملتی ہیں یہاں ان کتابوں کی پیپر بیک(چوری سے چھاپی گئی کاپیاں) انتہائی سستے داموں مل جاتی ہیں۔بھارت سمیت پاکستان میں بھی کاپی رائٹس کا کوئی مسئلہ نہیں اسی لئے پائیریٹڈ سی ڈیز ، پیپر بیک کتابیں مصنف کی اجازت کے بغیر یہاںدھڑا دھڑ چھاپ کر بیچی جاتی ہیں اور خوب منافع کمایاجاتا ہے ۔کھانے پینے، شاپنگ، موج مستی، ہلہ گلہ ۔۔ کناٹ پلیس جہاں اَپر کلاس کی جنت مانا جاتا ہے وہیں انڈرگراﺅنڈ میں واقع پالیکا بازار مڈل کلاس کی خریداری کیلئے مشہور ہے، جہاں بھاﺅ تاﺅ کے بعد چیزیں قدرے سستے داموں مل جاتی ہیں۔ بھارت میںجیسے جیسے معاشی خوشحالی آرہی ہے، روانی سے ہائے ہیلو، بائے بائے کرتا ، ایک مخصوص قسم کا برانڈ کانشس طبقہ جنم لے رہا ہے۔کناٹ پلیس سمیت دِلی کے وَسانت کُنج میں نیلسن منڈیلا روڈپر شہر کامشہور ڈی ایل ایف ایمپوریوسنٹر ، ساکت ، سبھاش نگر،نوئیڈا وغیرہ میں کھلے بین الاقوامی معیار کے شاپنگ مالز جہاں فوڈ کورٹس،سینما گھر،جیولری، بوتیک، جوتے، بیگز،الیکٹرانکس، گھروں کی سجاوٹ کا سامان سمیت ہر قسم کی دکانیں قائم ہیں، جس کے سبب دِلی کے یہ سارے علاقے بزنس اور فیشن کی آماجگاہ تصور کئے جاتے ہیں۔کناٹ پلیس کے گول ستونوں کے اندر بنے دالانوں میں چلتے پھرتے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کتنی تیزی سے بدل رہا ہے۔ جدیدیت کے بہاﺅ میں کسی بلٹ ٹرین کی طرح آگے بڑھتی اپر کلاس کا طرزِ معاشرت اور پہناوے کافی حد تک بدل چکے ہیں۔مرد نے دھوتی کیا اُتاری، عورت نے روایتی لباس سے اپنا رشتہ تقریباً ختم کر دیا ہے ۔جینز، ٹی شرٹ میں جکڑی ہندوستان کی سانولی ناری پرایسی دھن سوار ہوئی ہے کہ ہر کوئی بیوٹی کانٹسٹ میں جانا چاہتی ہے۔ جسے جدید انڈیا کی ہلکی سی جھلک د یکھنے کا شوق ہو، اُسے کناٹ پلیس جیسی جگہوں کا رخ ضرور کرنا چاہیے ۔کناٹ پلیس کے گرد گھوم پھر کر تھک ہارنے کے بعد آرکیڈ کے اسٹار بک میں کافی کا پیالہ پیا، کیک کھایا اور تازہ دم ہونے کے بعد مکیش نے مجھے اس تاکید کے ساتھ ہوٹل کے سامنے اتار دیا کہ دیوالی کی شام اکھٹے مل کر منانی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی (قسط 4)۔۔۔عباس سیال

جاری ہے ۔۔۔۔


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: