اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایوان بالا کی کمیٹی میں سرائیکی صوبے کے بل پر بحث

اسلام آباد:پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا کے ممبران پر مشتمل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں سرائیکی علاقے کے لوگوں کے لئے  جنوبی پنجاب صوبہ(سرائیکی صوبہ) سے متعلق بل پر بحث کی گئی ۔

پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا صوبہ بہاول پور جنوبی پنجاب کا  بل سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہو چکا ہے۔

سینیٹر بہرا مند خان تنگی نے کہا کہ انہوں نے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کا بل پیش کیا ہے۔ حکومت نے میرے بل کی مخالفت کی،سیاسی اخلاقی اور عوامی مفاد میں سب کو اس بل کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 239 کی کلاز فور کو اگر پڑھیں تو سب واضح ہے، اس بل میں صرف آئین کے آرٹیکل 1 میں ترمیم مانگی گئی ہے۔

رکن کمیٹی عائشہ رضا فاروق وزارت قانون کی کارکردگی پر برہم ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ تین سال سے اس کمیٹی میں ہوں ایسا غیر زمہ دارانہ رویہ نہیں دیکھا،کمیٹی میں اہم آئینی ترامیم پر بحث جاری اور حکومت کو دلچسپی ہی نہیں ہے۔

قائمہ کمیٹی نے بلوچستان کی نشستیں بڑھانے سے متعلق بل پر بحث مؤخر کرتے ہوئے وزارت قانون سے بل پر موقف طلب کرلیا ۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں سینیٹر جاوید عباسی کی زیر صدارت آج قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں بڑھانے سے متعلق بل پر بحث ہوئی۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ سمجھتے ہیں انکی وفاق میں نمائندگی مناسب نہیں ہے،ہمارے لوگ حلقے میں ہمیں کہتے آپ چودہ لوگ ہیں آپکی کون سنےگا،بلوچستان سے منتخب ایم این اے 29 ہزار مربع کلومیٹر کا نمائندہ ہوتا ہے،پنجاب سے منتخب رکن 3 ہزار مربع کلومیٹر کا نمائندہ ہوتا ہے۔

رقبے کے لحاظ‌ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ہمیں ایک سیٹ کے لیے اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر کرنا پڑتا ہے ،بلوچستان کے حلقے اتنے بڑے ہیں کہ منتخب ارکان کامیابی کے بعد پورے حلقہ میں جا بھی نہیں سکتے۔

انہوں‌نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں ملک دشمن نہیں ہیں۔بلوچستان ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا،ہمارا نوجوان تعلیم سے بھی محروم ہے۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے بلوچستان کی ترقی کےلیے اربوں روپے دیئے،ہم نے سیاست نہیں کرنی بلکہ دیکھنا ہےکیا قانون قابل عمل ہے؟میرے نزدیک جو بل آیا ہے اس میں بہت سقم ہیں،کہا گیا رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کے قومی اسمبلی کے ارکان زیادہ ہونے چاہئیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کیا آئین پاکستان اسکی اجازت دیتا ہے؟ رقبے کےلحاظ سے سیٹوں میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا،رقبے کے لحاظ سے اضافہ کیا گیا تو چاروں صوبے متاثر ہوں گے، میری گزارش ہے کہ جن ممبران نے یہ بل لایا وہ واپس لے لیں۔

ایک موقع پر کمیٹی اراکین وزیر قانون کے کمیٹی میں‌نہ آنے پر برہم ہوگئے. فاروق ایچ نائیک نے کہا افسوس کی بات ہے اتنی اہم میٹنگ میں وزیر قانون موجود نہیں، کیا کوئی پیغام بھجیا وزیر قانون نے کہ وہ کیوں نہیں آئے؟

چیئرمین کمیٹی جاوید عباسی نے بتایا انکی سیکرٹری قانون سے بات ہوئی انکے مطابق وزیر قانون نے آنا تھا، وزیر قانون ابھی تک نہیں آئے اسکا مطلب حکومت قانون سازی میں دلچسپی نہیں رکھتی،حکومتی کی غیر سنجیدگی کے باعث حکومت کا انتظار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اب کسی معاملے پر حکومت کا انتظار نہیں کریں گے جو فیصلہ ہوگا خود کریں گے۔

اس موقع پر سیکرٹری قانون نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 2017 کی مردم شماری کا نتیجہ ابھی تک سرکاری سطح پر جاری نہیں ہوا،یہ ایک پالیسی میٹر ہے،بلوچستان میں سیٹیں آبادی کے لحاظ سے بڑھائیں تو سب کہیں گے بڑھاؤ،رقبے کے لحاظ سے بڑھانے کے معاملے پر بل کو دیکھ سکتے ہیں۔

سیکرٹری قانون نے کہا کہ بل پر کسی فیصلے سے قبل مردم شماری کے سرکاری نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔

چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری قانون کی سرزنش کرتے ہوئے کہا سیکرٹری صاحب آپ نے کہا یہ پالیسی میٹر ہے، سیکرٹری صاحب جو ایجنڈا بھیجا تھا کیا اس پر مشاورت نہیں کی؟

قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں بڑھانے سے متعلق بل پر بحث مؤخر کرتے ہوئے وزارت قانون سے بل پر موقف طلب کرلیا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا وزارت بتائے اس قانون پر حکومت کا کیا موقف ہے؟

%d bloggers like this: