عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سرمایہ دارانہ سماج دو متضاد قطبین سے مل کر تشکیل پاتا ہے – ایک قطب سرمایہ کا اور دوسرا قطب محنت کا اور سرمائے کے قطب پر جیسے جیسے ارتکاز سرمایہ بڑھتا ہے تو محنت کے قطب پر مصائب، اذیت سے بھری محنت ، (اجرتی) غلامی ، لاعلمی (ویسے اسے استحصالی طبقات کا مسلط کردہ شعور بھی کہہ لیں جو محنت کش طبقات کو یہ باور کراتا ہے کہ یہ سب تقدیر کا چکر ہے یا سرمایہ داری تو برابری کے موقعے فراہم کر رہی ہے یہ محنت کش طبقات کی نا اہلی ہے)، ظلم و وحشت اور ذہنی انحطاط/ پسماندگی کا ارتکاز ہوتا رہتا ہے”-
کارل مارکس 14 مارچ 1883 کو لندن میں 63 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے –
انہوں نے سرمایہ کے ایک سماجی قدر ہونے پر کام کیا اور سرمایہ کو محنت کش طبقے سے غصب کی ہوئی قدر زائد قرار دیا – اور بحرانوں کو سرمایہ داری کی سرشت قرار دیا – وہ اور اینگلس وہ پہلے سماج وادی استاد تھے جنھوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے پیداوار کی انارکی و نراجیت سے بچنا نا ممکن ہے –
کارل مارکس علم اور عمل دونوں کے آدمی تھے اور ان کا نام نہاد اکیڈمک سماج واد سے کوئی لینا دینا نہیں تھا- وہ عمل سے دور رہ کر حقیقی علم کے حصول کو یو ٹوپیا قرار دیتے تھے اور وہ کتنے ٹھیک تھے
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر