نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

باغ دانش میں ہزاروں مخطوطات اور لاکھوں کتابیں(21)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لائبریری کے دفاتر کے دروازے پر لائبریری کے ڈائرکٹر پروفیسر نادر نقشینی نے بڑی محبت اور تپاک سے ہمارے وفد کو خوش آمدید کہا۔ یہ کمرہ ایک نشست گاہ ہے جس میں ایک خاص ترتیب سے صوفے اور کرسیاں رکھی ہیں۔ مجھے اس کمرے میں سبز رنگ غالب نظر آتا ہے۔ یہ لائبریری باغ دانش کہلاتی ہے۔ یہ لائبریری انقلاب اسٹریٹ پر واقع ہے۔ اسے فارسی میں ساختمان کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران کہا جاتا ہے۔ یہ کتب کی لائبریری کے علاوہ دستاویزات کا مرکز بھی ہے۔ عمارت کے اندر جانے سے پہلے آپ کی نظر پتھر کی ایک بہت بڑی گیند پر پڑتی ہے۔سامنے فارسی میں لائبریری کا نام لکھا ہوا ہے۔ اب ہم پروفیسر نادر نقشینی کے ہمراہ نشستگاہ کے اندر آکر اپنی نشستیں سنبھال لیتے ہیں اور باقاعدہ تعارف کا سلسلہ چلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس لائبریری کو ہماری یونیورسٹی آف تہران کی اجتماعی یادداشت کہہ سکتے ہیں۔

 

 

کچھ دیر بعد دفتر میں ایک سادہ سی خاتون داخل ہوئیں۔ ہم اُن کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ پروفیسر نادر نے اُن کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ڈاکٹر فاطمہ ثقفی ہیں جو اس سنٹرل لائبریری کی صدر ہیں۔ اس کمرے میں 10 تصاویر لگی ہیں، جن میں سے نو تصاویر مرد حضرات کی ہیں اور بائیں کونے میں آخری تصویر انہی خاتون کی ہے جن سے ابھی ابھی ہم سے تعارف کرایا گیا اور جو اس وقت ہمارے سامنے بیٹھی ہیں۔ گویا یہ تصاویر سنٹرل لائبریری کے دیگر صدور کی ہیں۔ اس کمرے میں جہاں یونیورسٹی کی سربراہ بیٹھی ہیں، ان کے پیچھے دو بڑے پرچم نظرآرہے ہیں۔ ان میں سے ایک ایران کا قومی پرچم جبکہ دوسرا تہران یونیورسٹی کا اپنا پرچم ہے۔ ان جھنڈوں کے پیچھے کتابوں کے ریک پر آٹھ چھوٹے پرچم رکھے ہیں۔ ہم یہ معلوم نہ کرسکے کہ یہ پرچم کس ملک یا ادارے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ایک اور ریک پر دس دیگر پرچم رکھے ہیں۔ کچھ دیر میں ایک نوجوان اس کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کا تعارف ڈاکٹر علی شہیدی کے نام سے کرایا گیا۔ ڈاکٹر علی شہیدی یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے مشیر ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ قدیم ایرانی ثقافت اور زبانوں کے شعبہ کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ ثقفی ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ لائبریری ایران کی تمام یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں سب سے بڑی لائبریری ہے۔ اس میں 10لاکھ سے زائد مطبوعہ کتب، رسائل، جرائد، دستاویزات، تصاویر اور نقشہ جات کے علاوہ 16 ہزار مخطوطات کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس لائبریری کے قیام کا تصور سب سے پہلے 1949ء میں پیش کیا گیا اور 1954ء میں ایک عارضی مقام پر لائبریری قائم کر دی گئی جہاں وہ 1971ء تک موجود رہی۔ بعدازاں اِس لائبریری کو موجودہ مقام پر منتقل کیا گیا۔ 1971ء سے 1979ء تک اس لائبریری کے سربراہ ایران کے معروف اسکالر ارج افشار رہے۔

Advertisement

سنٹرل لائبریری 22 ہزار مربع میٹر رقبہ پر بنی ہوئی ہے۔ اس کی عمارت 9 منزلہ ہے۔ تہہ خانے میں اس کی زیرِزمین منزلیں بھی تعمیر کی گئیں۔ اس میں معروف کتاب پنج گنج کا قلمی نسخہ موجود ہے۔ یہ کتاب نظامی گنجوی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ ایک طویل بیانیہ نظم ہے۔جس میں خسرو شیریں، لیلیٰ مجنوں، اسکندرنامہ اور ہفت پیکر نامی داستانوں کو نظم کیا گیا ہے۔ یہاں پر یونان کے ہومر اور روم کے ورجل کے ہم پلہ فارسی کے بے مثال شاعر فردوسی کے شاہنامہ کا قلمی نسخہ بھی رکھا ہوا ہے۔ فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں 50 ہزار اشعار لکھے،شاہنامہ ایک رزمیہ منظوم داستانوں کی کتاب ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایران کی فتح کے بعد خطہ کے ممالک ایران کے علاوہ آذربائیجان، افغانستان، تاجکستان، آرمینیا،داغستان، جارجیا، ترکی، ترکمنستان اور ازبکستان میں فردوسی کے شاہنامہ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہاں ذخیرۂ خوارزم شاہی کا قلمی نسخہ بھی موجود ہے۔علم کے اس خزانہ کو بادشاہ خوارزم شاہ کے نام معنون کیا گیا۔ یہ ایک ہزار سال قبل کے دور کے فارسی کے ماہر طب اسمعیل گرگانی کا لکھا ہوا طب کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اسمعیل گورگانی نے 96 سال عمر پائی۔ وہ 1040ء میں پیدا ہوئے اور 1136ء میں فوت ہوئے۔ اسمعیل گورگانی نے طب کا یہ انسائیکلوپیڈیا 60 سال کی عمر میں 1100ء میں مکمل کیا۔ اس وقت تک ترک مملوکوں کی خوارزم شاہی مملکت 1077ء میں قائم ہو چکی تھی جو 1231ء تک جاری رہی۔ اس لائبریری میں ایک اور نہایت اہم قلمی نسخہ کتاب المسالک والممالک ہے۔ یہ کتاب فارسی کے جغرافیہ دان ابنِ خُردادبہ نے لکھی۔ خردادبہ کا پورا نام ابواقاسم عبیداللہ بن خُردادبہ تھا۔ یہ 12 سو سال پہلے 820ء یا 825ء میں پیدا ہوا اور لگ بھگ 93 سال کی عمر پاکر 913ء میں فوت ہوا۔ وہ عباسی خلافت کا زمانہ تھا اور اس نے یہ کتاب 870ء میں عباسی خلیفہ المعتمد کے دور میں لکھی۔ یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ۔اس کتاب میں اس دور کی اسلامی دنیا کے نقشے اور تجارتی راستے اور رُوٹ شامل کئے گئے۔ کتاب میں اس زمانے کے چین اور کوریا تک کے رُوٹ اور نقشوں کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔ مصنف خُردادبہ اس دور میں عباسی محکمہ ڈاک اور پولیس کا صوبہ جبیل کا سربراہ تھا جو آج کے دور میں ایران میں واقع ہے۔

 

 

  

اس لائبریری کا ایک اور اہم قلمی نسخہ مجمل اللغہ ہے۔ یہ ابنِ فارس کا قلمی نسخہ ہے۔ ابن فارس کو پورا نام شاید آپ کیلئے اجنبی نہ ہو۔ اس کا پورا نام ابوالحسن احمد بن فارس بن زکریا بن محمد بن حبیب الرازی ہے۔ وہ 11 سو سال پہلے 941ء میں ضلع زہرا کے علاقے کُرسوف میں پیدا۔ اس کا والد فارس بن زکریا ایک فقیہہ تھا۔ اس کا خاندان بعد میں ہمدان چلا آیا۔ جہاں وہ پروان چڑھا۔ پھر ابن فارس رے چلا آیا جو اب تہران کا ایک حصہ بن چکا ہےیہاں پر وہ فخرالدولہ کے بیٹے ماجد الدولہ کا اتالیق بن گیا۔ ان دنوں رے علم کی تحقیق کا مرکز تھا۔ وہ شاعری، ادب، تفسیر، حدیث اور فقہ کا ماہر تھا۔ اس نے بہت سی کتابیں لکھیں مگر یہاں سنٹرل لائبریری میں اس کی اسی کتاب مجل اللغہ کا قلمی نسخہ موجود ہے۔
پروفیسر نادر نقشینی نے ہمارے لئے چائے اور بسکٹ منگوائے۔ ابھی چند ماہ پہلے میں نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ اپنے بلوچستان کے خوبصورت ساحلی علاقے کُنڈ ملیر میں ایرانی بسکٹ لئے تھے اور اب یہاں تہران یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری کی صدر اور دیگر عملہ کے ساتھ بیٹھ کر ایران بسکٹوں کے ساتھ چائے کی چسکیاں لے رہا ہوں۔ چائے پی کر ہمیں لائبریری دیکھنے کیلئے یہاں سے اُٹھ جانا ہے۔(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author