حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازخود نوٹس والے کیسز بارے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکن بنچ نے دو ایک کے تناسب سے فیصلہ کیا کہ ’’سپریم کورٹ کے رولز ازسرنو مرتب ہونے تک ایسے تمام کیسوں کی سماعت روک دی جائے جو ازخود نوٹس کی بنیاد پر زیرسماعت ہوں‘‘۔
اسی فیصلے کی بدولت خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے زیرسماعت درخواست کے لئے بنائے گئے پانچ رکنی بنچ سے جسٹس امین الدین خان الگ ہوگئے تھے۔ جسٹس امین الدین خان اس بنچ کا حصہ تھے جس نے ازخود نوٹس والے کیسوں کی سماعت روکی تھی۔ چار رکنی بنچ کے ایک رکن جسٹس جمال مندوخیل نے آرڈر آف کورٹ کمرہ عدالت میں نہ لکھوانے پر خود کو بنچ سے الگ کرلیا۔
جسٹس مندوخیل جس وقت کمرہ عدالت میں بات کررہے تھے بنچ کے سربراہ چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا۔ اس دوران سریم کورٹ کے رجسٹرار کا سرکلر سامنے آگیا۔
اس سرکلر کے مطابق ’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے بنچ کا فیصلہ قابل عمل نہیں اور یہ کہ فیصلہ اس معاملے پر دیا گیا جو بنچ کے سامنے زیرسماعت نہیں تھا‘‘۔
رجسٹرار کے سرکلر کو ذہن میں رکھئے۔ ان سطور میں دو اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس لئے جانے کی سفارش، نوٹس لینے اور بعد کے دنوں میں تواتر کے ساتھ یہ عرض کررہا ہوں کہ جس دو رکنی بنچ نے چیف جسٹس سے دو اسمبلیوں کے انتخابات والے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی تھی اس دو رکنی بنچ کے سامنے اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ زیرسماعت نہیں تھا بلکہ جو کیس زیرسماعت تھا وہ لاہور کے سی سی پی او پولیس ڈوگر کے تبادلے کا تھا۔
اب اگر قاضی فائز عیسیٰ والا تین رکنی بنچ دو ایک کے تناسب سے ازخود نوٹسوں کی سماعت روک دینے کا حکم دے اور اس پر یہ کہہ کر عمل درآمد روک دیا جائے کہ یہ غیرمتعلقہ فیصلہ ہے تو پھر اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیا جارہا ہے جس دو رکنی بنچ نے ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی اس نے بھی تو غیرمتعلقہ معاملے پر نوٹس کے لئے لکھا تھا۔
مکرر عرض ہے کہ ہم میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کے عادی ہیں۔ یہی بنیادی نکتہ ہے جس کی بنیاد پر یہ رائے بنی کہ معاملہ انصاف کا ہے نہ قانون کی بالادستی کا بلکہ یہ خالص سیاسی ترجیحات، ذہن اور پسندوناپسند کا معاملہ ہے۔ دو رکنی بنچ کی سفارش پر لئے گئے ازخود نوٹس نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے باہمی اختلافات (یہ فہمی ہیں یا شخصی اس سے غرض نہیں) کو گلی محلوں دکانوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا پسندیدہ موضوع بنادیا۔
یہ صورتحال افسوسناک ہے کہ اس سارے معاملے میں سیاسی ترجیحات اور خاندانی مراسموں و پسندیدگی کے حوالے سے جو بحثیں جاری ہیں ان کے منفی اثرات سے کسی کو سروکار نہیں۔ کیا اپنے ہاتھوں سے نظام انصاف کی قبر کھودنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں؟
اس سوال سے دامن بچاکر گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اور آپ اگر پاکستانی نظام انصاف کی تاریخ پر نگاہ دوڑالیں تو ملال کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ایوب کا مارشل لاء جائز ہوا، جنرل ضیاء الحق کو نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کی گئی۔ یحییٰ خان کے ایل ایف او کے خلاف فیصلہ کب آیا؟
جنرل مشرف کو نہ صرف حکمرانی کے لئے ’’جائز‘‘ قرار دیا گیا بلکہ آئین میں ترمیم کرنے کا حق ایسے ادا کیا گیا کہ انسانی تاریخ کے نظام ہائے انصاف میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے، ازخود نوٹس والے معاملے پر بحث میں ایک طبقہ کہہ رہاہے کہ اگر یہ ازخود نوٹس غلط ہے تو سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے فیصلے کے خلاف ازخود نوٹس کیسے درست تھا؟
میری دانست میں وضاحت کے ساتھ معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قاسم سوری والے معاملے میں لیا گیا ازخود نوٹس کیا تھا، تحریک عدم اعتماد موجود تھی دستور اور پارلیمانی قواعد کے مطابق اس پر ایوان میں رائے شماری کے بغیر ایک فیصلہ سناتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا گیا۔
تحریک عدم اعتماد کو منظور کرنا یا مسترد کرنا ایوان کا کام تھا، سپیکر کی چیئر کا نہیں۔
اگلے مرحلہ میں وزیراعظم نے صدر کو اسمبلی توڑنے کی سمری بھجوادی وہ یہ دوسرا غیرآئینی کام تھا۔ تیسرا غیرآئینی کام صدر نے اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دے کر کیا۔
جس بات کو تین مرحلوں میں مدنظر نہیں رکھا گیا وہ یہ ہے۔ اولاً تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہی ایوان کا اصل بزنس تھا سپیکر نے یہ بزنس نہیں ہونے دیا۔ وزیراعظم نے بھی تواتر کے ساتھ نظرانداز کیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے ہوتے ہوئے وہ اسمبلی نہیں تحلیل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے سپیکر و ڈپٹی سپیکر کی قانون شکنی کو درست سمجھا اور اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوادی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب جس ازخود نوٹس اس کے فیصلے اور اب فیصلے سے انحراف کے خلاف درخواست زیرسماعت ہے اس پر روز اول سے یہ کہا جارہا ہے کہ جو معاملہ ایک بنچ میں زیرسماعت ہی نہیں تھا اس پر ازخود نوٹس لینے کی سفارش کیسے کردی گئی؟
اب جبکہ رجسٹرار کے سرکلر اور سپریم کورٹ کا اعلامیہ ہمیں یہ بتارہا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی والے بنچ کا دو ایک سے ازخود نوٹس کیسوں کی سماعت روکنے والا حکم قابل عمل نہیں کیونکہ بنچ کے سامنے یہ معاملۃ زیرسماعت نہیں تھا۔ تو ہم ایسے طالب علموں کے لئے سہولت ہوگئی۔
وہ یہ کہ کوئی ایسا معاملہ جو کسی عدالت یا بنچ کے سامنے زیرسماعت نہ ہو اس پر جاری حکم قابل عمل نہیں۔
اس حساب سے دو رکنی بنچ (یہ بنچ جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل تھا) کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے کی سفارش اور ازخود نوٹس لیا جانا دونوں پر سوالات ہیں ۔ صاف سیدھے لفظوں میں یہ کہ اس سفارش اور حکم کو بھی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے سرکلر اور جمعہ کی شام میڈیا کے لئے جاری کردہ اعلامیہ کے متنوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کے لئے چند سوالات دوبارہ لکھے دیتا ہوں۔
بہت معذرت کہ بعض سوالات تکرار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھنا مجبوری ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ جس معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا اس بنچ کے 2ارکان اعتراضات پر الگ ہوئے۔ دو نے اختلافی نوٹ لکھ کر بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کو چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑا، دو نے اختلافی فیصلہ جاری کرتے ہوئے دو ساتھی ججوں کے اختلافی نوٹ کو اپنے فیصلے کا حصہ بناکر لکھا یہ فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے اور تمام ادارے اس پر عمل کے پابند ہیں؟
کیا جب تک چار تین اور تین دو والے تناسبوں کے فیصلے نہ کرلئے جائیں اس معاملے میں آگے بڑھنا درست ہوگا؟
خصوصاً اس صورت میں جب یہ سرکلر اور اعلامیہ حکم کے طور پر سامنے آجائے کہ کسی بنچ کا وہ فیصلہ جو سماعت کے اصلم عاملے سے ہٹ کر ہو قابل عمل نہیں اس صورت میں تو وہ ازخود نوٹس اپنی سفارش سمیت ناقابل عمل ہوگیا۔
یعنی یہ سارا عدالتی بحران جس سے پیدا ہوا وہ بنیاد ہی درست نہیں۔
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جس اہم سوال کو نظرانداز کیا گیا وہ یہ تھا کہ کیا کسی پیشگی سیاسی معاہدہ کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری درست تصور ہوگی؟
یہاں ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے بنچ سے ابتداء میں جو دو جج صاحبان الگ ہوئے تھے ان میں ایک کو انحراف کے خلاف درخواست کی سماعت کے لئے بنچ میں کیوں شامل کیا گیا۔
کیا ان پر جو اعتراض تھے وہ فریقین (ایک کے سوا) نے واپس لے لئے تھے؟
یہ بھی اہم سوال ہے کہ اس سارے معاملے میں پہلے دن سے فل کورٹ بنانے کی درخواستوں کو کیوں مسترد کیا جارہا ہے۔ ساتھی ججز میں سے کچھ پر عدم اعتماد ہے یا کوئی اور معاملہ؟ یہ کہ
جسٹس اعجازالحسن اس بنچ سے الگ ہوجاتے تو نظام انصاف کی توقیر میں اضافہ ہوتا۔
بحث یا سوال یہ ہے کہ جس فیصلے کی بنیاد جمعہ کے سرکلر اور میڈیا کے لئے جاری کردہ اعلامیہ نے بھی غلط قرار دے رہی ہو اس کی مزید سماعت پر مُصر رہنے کو کیا سمجھا جائے؟
مکرر بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اولاً تو دستوری تنازعات اور سیاس مقدمات کے لئے الگ سے دستوری کورٹ ضروری ہے۔
ایسا ممکن نہیں تو پھر ہر نئے سال کے آغاز پر سپریم کورٹ کے بنچ کا ایک چار رکنی دستوری بنچ تشکیل دیا جائے اس میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے سینئر جج شامل ہوں یہ بنچ معمول کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ دستوری بنچ کے فرائض ادا کرے۔
یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے تماشوں بحرانوں اور منفی تاثر سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ