اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپریل فول نہیں ، اپریل پھول!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب میں اپریل فول کو اپریل پھول کے طور پر منایا گیا اور دریا میں پھول ڈالے گئے،ہیڈ محمد والا ملتان کے مقام پر دریائے چناب میں پھول ڈالنے کی خصوصی تقریب منعقدکی گئی۔ اپریل پھول ڈے سے پہلے میں اس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن التوا کا معاملہ سلجھنے کی بجائے الجھتا جا رہا ہے ۔ اور یہ بھی دیکھئے کہ بنچ کے ٹوٹنے کا رونا رویا جا رہا ہے ،انصاف کے منتظر لاکھوں زیر التوا کیسز کے افراد کے دل سالہاسال سے ٹوٹتے آ رہے ہیںمگر اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ دوسری طرف جہاں مفت آٹا سکیم پر ہر آئے روز ہلاکتوں کی اطلاعات آتی ہیں وہاں کراچی میں راشن تقسیم کے دوران تین بچوں سمیت بارہ افراد کے جاں بحق ہونے کے واقعہ نے صومالیہ ، ایتھوپیا اور افریقہ کی یاد دلا دی ہے۔ملک میں بھوک، افلاس، غربت ، بیروزگاری اور صحت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، ایک طرف لوگ بھوک سے مررہے ہیں دوسری طرف عدالتوں،ایوانوں اور میدانوں میں اقتدار پرست سیاست دان مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں جو کہ بے حسی اور بے شرمی والا معاملہ ہے۔ آج انسان اور انسانیت کو بچانے کی ضرورت ہے،اگر انسان کو روٹی میسر نہیں تو نظام ، ملک ، مذہب، قوم اور تہذیب کوئی معنی نہیں رکھتا ، پاکستان میں جس حساب سے بیروزگاری اورمہنگائی بڑھ رہی ہے اس سے روٹی کا سوال پیدا ہو گیا ہے، یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ وسیب کی سرائیکی جماعتوں کی طرف سے ہر سال یکم اپریل کو اپریل پھول کے طور پر منایا جاتا ہے ، مغربی ممالک میں یہ دن اپریل فول یعنی جھوٹ کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ وسیب میں اس دن کو سچائی کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے، اس کا ایک مقصد جھوٹ سے نفرت اور سچ سے محبت ہے۔ اس دن وسیب کے لوگ دریائوں میں گل پاشی کرتے ہیںاور دریا میں گندگی کی بجائے پھولوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ اس ایونٹ کو نہ صرف قومی سطح پر پذیرائی ملی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے سراہا گیا ہے۔ دریائوں میں پھول ڈالنے کی روایت صدیوں پرانی ہے، اس رسم کا مقصد دریائوں سے محبت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ دریااور اس کے پانی کو صاف ستھرا رکھا جائے اور اُسے گندگی سے بچایا جائے کہ زندگی کا نام پانی اور پانی کا نام زندگی ہے۔ دریائے راوی دنیا کا گندا ترین دریا بن چکا ہے، حکمرانوں نے دریائے راوی جو دراصل خشک دریا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے بعد اس کا پانی بھارت کو چلا گیا، اس میں جو معمولی پانی آتا ہے اسے بھی زہر بنا دیا ہے، اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دریائوں کی آلودگی قومی نہیں عالمی مسئلہ ہے۔ دریائوں میں پھول ڈالنا ایک علامت ہے اور ایک پیغام ہے کہ دریائوں میں گند گی نہ ڈالیں بلکہ ان کو صاف رکھیں۔ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ دنیا بھر کے 25 فیصد سے زائد دریائوں میں جہاں ادویات کے زہریلے کیمیکلز کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے وہاں پاکستان کے چاروں بڑے دریائوں راوی، چناب، سندھ اور کابل سمیت راولپنڈی اسلام آباد کا دریائے سواں بھی آلودگی کے شکار ہیں جن میں زہریلے عناصر پائے گئے جو شہریوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ نباتات اور حیوانات کو بھی بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ آلودہ پانی سے ہیپا ٹا ئٹس، جلد اور پیٹ کی بیماریاں پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ اگر کسی کو بیماریوں کے بارے میں یقین نہ آئے تو وہ وسیب کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ یہاں آلودہ اور زہریلے پانی کی وجہ سے لوگ کن کن بیماریوں کا شکار ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وسیب میں تفریح گاہیں ، پارک ، کھیلوں کے گرائونڈ ویران ہو چکے ہیں جبکہ ہسپتال آباد ہیں اور پرائیویٹ ڈاکٹر سسکتی انسانیت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے دریا اور نہریں گندگی، آلائش اور آلودگی کا منظر پیش کر رہی ہیں اور بدبو ایسی کہ جیسے یہ کوئی گندگی کی ذخیرہ گاہیں ہیں، دریائوں میں گندگی نظر آنا صرف بدنما منظر نہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر ہمارے پینے کے پانی کی تباہی اور فطری حیات کی زندگیوں کو لاحق خطرات کا بھی آئینہ دار ہے۔ یہ معاملہ اتنا سنجیدہ، حساس اور پیچیدہ ہے کہ کسی گلی میں پھینکا جانے والا کچرہ بھی بالآخر دریائوں اور نہروں میں پہنچنے والے کوڑاکرکٹ کا حصہ بنتا ہے۔ حکومتی ادارے صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ عوام کو خود دریائوں کو آلودگی سے بچانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وسیب میں نوے فیصد بیماریوں کا تعلق آلودہ پانی سے ہے، زیر زمین پانی میں آرسینک کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور دریائوں سے جو پانی نہروں میں آ رہا ہے وہ بھی آلودہ ہے۔ شہروں، قصبوں اور دیہات میں قریب تمام انسانی آبادی دریائوں کے پانی پر انحصار کرتی ہے، اگر ہمارے دریا آلودہ رہے تو پھر پانی کبھی اتنا صاف نہیں ہو پائے گا کہ اسے انسانی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکے، اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے دریائوں کی حفاظت کریں اور انہیں آلودگی سے بچائیں۔ وسیب دریائوں کی سرزمین ہے، تاریخی کتابوں میں اسے سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی سرزمین کہا گیا ہے۔ دریائوں کے معاملے میں ہم بہت حساس ہیں، جن کے پاس دریا نہیں ان سے پوچھئے کہ دریائوں کی کتنی اہمیت ہے۔چولستان کے باسیوں سے پوچھئے جو کہ صدیوں سے خشک دریا ہاکڑہ کے دوبارہ زندہ ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہیں، تھل کے لوگوں سے پوچھئے کہ پانی کی کتنی اہمیت ہے،دریائوں میں پھول ڈالنے کی رسم کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم دریائوں کی اہمیت کو اجاگر کر سکیں ۔لوگ نہیں مانتے تھے، لیکن ایک خبر کے مطابق پاکستان انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے حکام کا کہنا ہے کہ ہمک میں فارماسوٹیکل اور بڑے انڈسٹریل یونٹس نے جو پہلے بغیر ٹریٹمنٹ کے اپنا پانی دریائے سواں میں چھوڑ رہے تھے اب انہوں نے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا لئے ہیں، سواں کے قریب لوگ گندے پانی کے بائوذر بھی آکر خالی کیا کرتے تھے ان کیخلاف بھی ایکشن لیا گیا تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: