نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشقان عمران خان ہی نہیں کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے بلکہ موجودہ حکومت سے اکتائے بے تحاشا افراد بھی ان دنوں ”اب مزا آیا“ والی لذت محسوس کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران تحریک انصاف کے قائد نے قوم سے جارحانہ خطاب کے ذریعے اپنے خلاف لگائی مبینہ ”ریڈ لائن“ کو للکارا۔ بعد ازاں چودھری پرویز الٰہی کو حکم صادر ہوا کہ وہ پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی اکثریت ثابت کریں۔ وہ ثابت ہو گئی تو عین ایک دن بعد صوبائی اسمبلی کی تحلیل یقینی بنادی گئی۔ مسلم لیگ (نون) کے ”کائیاں سیاستدان“ ان دونوں اقدامات کے امکان کو رعونت سے رد کر رہے تھے۔ ان پر عمل پیرائی نے انہیں اب حواس با ختہ بنارکھا ہے۔
سیاسی عمل میں ہار اور جیت معمول تصور ہوتی ہے۔ اقتدار کا کھیل کئی راؤنڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہارا ہوا لشکر مگر ہارنے کے بعد گیم میں واپسی کی موثر حکمت عملی سے محروم نظر آئے تو جی بہلانے کو معجزوں کی توقع باندھنا شروع ہوجاتا ہے۔ خواب اب یہ دیکھا او ردکھایا جا رہا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کسی نہ کسی وجہ سے 90 دنوں کے اندر نہیں ہوپائیں گے۔ ان کے انعقاد کے لئے قائم ہوئی عبوری حکومت حیلوں بہانوں سے اپنے اقتدار کو طول بھی دے سکتی ہے۔ یہ خواب دیکھتے اور دکھاتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی ہے کہ ہمارے ہاں ایک ”تحریری آئین“ ہے۔ اس کی ”تشریح“ کا حتمی اختیار جنہیں حاصل ہے وہ مسلم لیگ (نون) پر 2016 ء سے شاذہی مہربان رہے ہیں۔
آئین میں طے شدہ محدودات کے علاوہ چند دیگر عوامل بھی ہیں جن کی جانب فی الوقت توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ پاکستان کو درپیش سیاسی بحران کا کلیدی سبب اقتصادی بحران ہے۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے نئے آرمی چیف کی بھرپور معاونت سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمیں وقتی مگر ٹھوس سہارے فراہم کرنے کو رضا مند ہوئے۔ امید تھی کہ مذکورہ سہارے آئی ایم ایف کو رام کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ مگر ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ مصر ہے کہ امریکی ڈالر کی ”حقیقی قدر“ بازار میں موجود حقائق طے کریں۔ اس کے علاوہ صارفین سے پیٹرول، گیس اور بجلی کی کم از کم ”اصل“ قوت خرید ہر صورت وصول کی جائے۔ قومی خزانے کو ان کے نرخ قابل برداشت رکھنے پر ”ضائع“ نہ کیا جائے۔ نظر بظاہر کافی اڑی دکھانے کے بعد شہباز حکومت مطلوبہ اقدامات ”بتدریج“ لاگو کرنے کو آمادہ ہو گئی تھی۔ اس کی آمادگی نے یہ امید بھی دلائی کہ غالباً رواں ماہ کے اختتام تک ہم آئی ایم ایف سے ”امدادی پیکیج“ کی رکی ہوئی رقوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل نے مگر مذکورہ امید کو رد نہ سہی معدوم دکھانا شروع کر دیاہے۔
قومی اسمبلی تحلیل کیے بغیر اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب ہی کروانا ہیں تو ان کا انعقاد آئینی تقاضوں کے مطابق رواں برس کے اپریل میں لازمی ہے۔ آئی ایم ایف سے رکی ہوئی رقوم کے حصول کے لئے وفاقی حکومت نے دریں انثاء بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھائیں تو مہنگائی کی ایک اور کمر توڑ لہر کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس کی شدت سے بلبلائے ووٹر مسلم لیگ (نون) کے امیدواروں کے خلاف مزید غضب ناک ہوجائیں گے۔ انتخابی میدان میں تحریک انصاف کو ان کا غضب ”واک اوور“ والی آسانیاں مہیا کرے گا۔
بجلی اور گیس کے نرخوں کو مزید ناقابل برداشت بنانے کے بعد مسلم لیگ (نون) اگر پنجاب کے انتخابی اکھاڑے میں اتری تو محترمہ مریم نواز ہی نہیں ان کے والد کی وطن واپسی بھی اس جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کی کامیابی یقینی نہیں بنا پائے گی۔ انتخابی میدان میں مقابلے کی سکت برقرار رکھنے کے لئے شہباز شریف اور اسحاق ڈار صاحب کے لئے لازمی ہو جائے گا کہ وہ اپریل کے وسط تک آئی ایم ایف کو نظرانداز کیے رکھیں۔ ممکنہ نظراندازی اگرچہ ہما ری ریاست کے دیوالیہ ہو جانے کے امکانات شدت سے اجاگر کرنا شروع ہو جائے گی۔
گزرے برس کے اپریل سے شہباز حکومت مسلم لیگ (نون) کا ووٹ بینک تباہ ہونے کا جواز ”وطن دوستی ’‘ میں ڈھونڈ رہی تھی۔ وزیر اعظم اور ان کے وفادار ساتھی مصر رہے کہ حقیقی محبان وطن ہوتے ہوئے شہباز صاحب اور ان کے معاشی ماہرین اپنی سیاست کے بجائے“ ریاست ”بچانے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو اپریل کے وسط تک مؤخر رکھنامگر انہیں مذکورہ جواز سے بھی محروم کر دے گا۔ عوام ہی نہیں بلکہ ریاست کے دائمی اداروں کی نگاہ میں بھی وہ پاکستان کا دیوالیہ یقینی بنانے کے واحد ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔
مسلم لیگ (نون) کے چند اہم فیصلہ سازوں سے میری ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ جس پہلو کی جانب میں آپ کی توجہ دلارہا ہوں اس کے ادراک سے وہ کامل محروم سنائی دیے۔ فقط اس اعتماد کا اظہار ہی کرتے رہے کہ انتخابی میدان میں تحریک انصاف کا ”ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا“ ۔ اسے دو تہائی اکثریت نصیب نہیں ہوگی۔ میری جانب سے اس ضمن میں ”کیسے“ پر مبنی سوالات کا مگر تسلی بخش جواب فراہم نہ کرپائے۔ ان کی خوش گمانی نے مجھے یہ سوچنے کو مائل کیا کہ جی کو تسلی دینے میں مبتلا دوستوں کو آئی ایم ایف سے متعلق سوالات اٹھاکر مزید حواس باختہ نہ بناؤں۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی ”حقیقی قدر“ اور بجلی، گیس اور پیٹرول کے ”طلب ورسد“ کی منطق کے تحت طے ہوئے نرخوں پر مبنی سوالات کو لیکن آئندہ دو سے تین ہفتوں کے دوران نظراندازکیا ہی نہیں جاسکتا۔ وقت کم اور مقابلہ سخت والی کیفیت ہے۔ عمران خان صاحب نے گزشتہ ہفتے کے دوران یکے بعد دیگرے دو ”گگلی گیند“ پھینک کر اپنے عاشقان اور کمر توڑ مہنگائی سے اکتائے افراد کی بے تحاشا تعداد کو یقیناً شادمانی فراہم کردی ہے۔ ٹھوس معاشی حقائق پر مبنی اٹھائے مذکورہ بالا سوالات کا کماحقہ جواب ان کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر