نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئے چار کروڑ پاکستانی اب ہمارا مسئلہ نہیں رہے۔انہیں ربّ کے کرم پر چھوڑتے ہوئے فکر ہمیں اب یہ لاحق ہوگئی ہے کہ اُمت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت کہلاتے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کا دفتر سکیورٹی کے تناظر میں ”محفوظ“ نہیں رہا۔ وہاں ہوئی ہر گفتگو ریکارڈ ہوجاتی ہے۔ریکارڈ شدہ گفتگو کے سو کے قریب گھنٹے اب انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ان کے حصول کے لئے ”بولی“ لگانے کی پیش کش بھی منظرِ عام پر آچکی ہے۔اپنے پاس موجود ریکارڈ کی حقیقت ثابت کرنے کے لئے ”بولی“ کی آواز لگانے والے نے تین آڈیو بھی ریلیز کردی ہیں۔سیاسی اعتبار سے اگرچہ ان کا مواد سنسنی خیز نہیں تھا۔ سرکاری اقدامات لینے سے قبل روایتی مشورے ہورہے تھے۔
آپ اگر مسلم لیگ (نون) سے اب بھی خیر کی امید رکھتے ہیں تو سینہ پھیلاتے ہوئے ایک آڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اصرار کرسکتے ہیں کہ شہباز شریف اصولوں کی خاطر اپنی بھیجتی کی سفارش کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس جماعت سے اندھی نفرت میں مبتلا افراد کو البتہ ”ثبوت“ مل گئے ہیں کہ ”احتساب عدالت کی سزا یافتہ“ مریم نواز شریف صاحبہ اپنے داماد کے کاروبارکے لئے سرکار کے تعاون کی خواہاں تھیں۔وہ مفتاح اسماعیل کی بطور وزیر خزانہ کارکردگی سے بھی خوش سنائی نہیں دیں۔ غالباََ ان کی خواہش پر اسحاق ڈار صاحب کو ان کی جگہ لینے وطن لوٹنا پڑے گا۔ مختصراََ یوں کہہ لیں کہ وہ موجودہ حکومت میں کوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود اس کی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
مریم صاحبہ سے جو ”سفارش“ منسوب ہوئی ہے اس کی وضاحت یوٹیوب کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی پر مامور کئی بااثر صحافیوں نے ”ذرائع“ کے حوالے سے بیان کردی ہے۔اندھی نفرت وعقیدت کے موسم میں اگرچہ ایسی وضاحتیں کام نہیں آتیں۔ مریم نواز صاحبہ کے نقاد وہی نتائج اخذ کریں گے جو میں نے بیان کردئے ہیں۔
میں آج کے کالم کو ویسے بھی اس دہائی پر مرکوز رکھنا چاہتا ہوں جو وزیر اعظم کا دفتر سکیورٹی کے اعتبار سے ”غیر محفوظ“ ہونے کی بابت مچائی جارہی ہے۔مزید بڑھنے سے قبل یہ اعتراف کرنا لازمی تصورکرتا ہوں کہ میری دانست میں پاکستان کا وزیر اعظم آئین کی کتاب میں بیان ہوا ”چیف ایگزیکٹو“ ہرگز نہیں ہوتا۔ ہماری ریاست کے نگہبان ادارے اس پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو ہماری تاریخ کے طاقت ور ترین وزیر اعظم تصور ہوتے تھے۔ ان کے دفتر سے بھی تاہم ڈاکٹر مبشر حسن نے ٹیلی فون میں نصب جاسوسی آلات برآمد کئے تھے۔ بعدازاں اس واقعہ کا ذکر انہوں نے اپنی لکھی ایک کتاب میں بھی کیا تھا۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں کسی بھی موبائل فون کو ہیک کرنے کے بعد اس کے سپیکر کو ریڈیائی نشریات کے لئے استعمال ہونے والا مائیک بنایا جاسکتا ہے۔ٹیلی فون کی سموں جتنی Chips(چپس) بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ وہ کسی کمرے کی دیوار یا وہاں رکھے صوفے یا میز پر چپکادی جائیں تو وہاں ہوئی گفتگو بآسانی ریکارڈ ہوسکتی ہے۔امریکہ میں ایسی چپس بازار میں سستے داموں مل جاتی ہیں۔بیوی کو اپنے خاوند پر ”غیر نصابی سرگرمیوں“ کا شبہ ہو تو وہ اس کے زیر استعمال کار میں وہ چپس نصب کردینے کے بعداس کی حرکات وسکنات پر اپنے فون کی بدولت ہمہ وقت نگاہ رکھنا شروع ہوجاتی ہے۔
سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کے لئے ایسی چپس تلاش کرلینا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں۔عمران خان صاحب مثال کے طور پر ان دنوں برسراقتدار نہیں۔ان سے تاہم ملنے بنی گالہ جائیں تو ان سے ملاقات سے قبل آپ کو اپنا ٹیلی فون ہی نہیں بلکہ ہاتھ پر لگائی گھڑی اور جیب میں رکھا قلم بھی ان کے سٹاف کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ اپنے کمرے میں وہ ملاقاتیوں سے گفتگو کررہے ہوں تب بھی کچھ لوگ ایک چھڑی نما آلے سمیت وہاں پہنچ کر اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ خان صاحب کی گفتگو ریکارڈ نہیں ہورہی۔ عمران خان صاحب کے ذہین اور بااعتماد معتمد جناب فواد چودھری صاحب ”آڈیو لیکس“ منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم کے دفتر کی سکیورٹی کی بابت نہات فکرمندی کا مسلسل اظہار کررہے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف صاحب جنہیں تحریک انصاف والے ”کرائم منسٹر“ پکارتے ہیں”وسیع تر قومی مفاد“ کا حوالہ دیتے ہوئے فواد چودھری صاحب سے اب درخواست کرہی دیں کہ ان کے دفتر کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لئے عمران خان صاحب کے بنی گالہ میں زیر استعمال ٹیکنالوجی کی بابت وزیرا عظم کے دفتر کو بھی روشناس کروادیا جائے۔
”آڈیو لیکس“کی وجہ سے پاکستان کے ”قومی رازوں“ کے بارے میں فکر مند افراد کو نجانے کیوں یاد نہیں رہا کہ آج سے ایک دہائی قبل ”وکی لیکس“بھی ہوئی تھیں۔ دُنیا کی واحد سپر طاقت تصور ہوئے امریکہ کے سفارت کار غیر ملکی رہ نماﺅں سے گفتگو کی جو تفصیلات ای میل وغیرہ کے ذریعے واشنگٹن بھجواتے رہے تھے آبشار کی صورت دنیا کے روبرو رکھ دی گئیں۔امریکہ کو اس کی وجہ سے بہت خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔وکی لیکس کے مرتکب جولیان اسانج کو لیکن وہ اب تک گرفتار نہیں کرسکا ہے۔
”لیکس“ کا ذکر چھڑا ہے تو وہ گفتگو بھی یاد کرلیں جو کارگل پر برپا پاک-ہند جنگ کے دوران ان دنوں کے چیف آف آرمی سٹاف نے چین کے ایک ہوٹل سے اپنے چیف آف سٹاف کے ساتھ کی تھی۔ مذکورہ گفتگو کی ریکارڈنگ بھارت نے عین اس دن اپنے میڈیا کے لئے لیک کردی جب نواز شریف کی دوسری حکومت کے وزیر خارجہ صلح جوئی کا پیغام لے کر دلی گئے تھے۔ گیارہ جون 1999ءکا وہ دن میں آج بھی نہیں بھولا۔سرتاج صاحب کے ساتھ صحافیوں کے اس وفد میں شامل تھا جو دلی پہنچا تھا۔وہاں کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازے سے گھسیڑا اخبار دیکھا تو مذکورہ لیک کی تفصیلات پڑھتے ہوئے حیران وپریشان ہوگیا۔ اس لیک کی وجہ سے ہوئی خفت مگر جنرل مشرف کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائی تھی۔اکتوبر1999ءمیں وہ بلکہ ہمیں نیک راہ پر چلانے کے لئے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اور 2008ءتک گج وج کے راج کیا۔
شہبازشریف کو البتہ یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔وہ شرم سے سرجھکائے ”قوم کی خدمت“ میں جتے رہیں گے۔پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے وہ بقول ان کے بچاچکے ہیں۔اس کی وجہ سے اپنی جماعت کا سیاسی اعتبار سے دیوالیہ بھی یقینی بنادیا ہے۔ان کی جی حضوری ستائش نہ سہی رحم کی یقینا مستحق ہے۔اقتدار کے سفاک کھیل میں لیکن رحم نامی جذبہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ با لآخر محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی کی طرح ہی وہ بھی دفتر سے نکالے جائیں گے جس کے ”غیر محفوظ“ ہونے کی بابت ہم ان دنوں سینہ کوبی میں مصروف ہوچکے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر