مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے زمانے میں کسی مقتول کا تذکرہ لکھا جاتا تو اسے مقتل کہا جاتا تھا۔ امام حسین کی شہادت کے بعد مقتل الحسین لکھا گیا۔ آج بس اسے ہی مقتل کہا جاتا ہے۔
مقتل الحسین لکھنے والوں میں سب سے مشہور نام لوط بن یحیی بن سعید بن مخنف کا ہے۔ اس کی کتاب مقتل ابو مخنف کے نام سے مشہور ہے۔ بہت سے کم علم افراد سمجھتے ہیں کہ اس نے سانحہ کربلا کے دو سو سال بعد یہ کتاب لکھی۔ یہ غلط فہمی ہے۔ وہ ان لوگوں سے ملا تھا جو سانحہ کربلا کے وقت موجود تھے۔
ابو مخنف کی کتاب چوتھی صدی ہجری تک موجود تھی لیکن اس کے بعد نایاب ہوگئی۔ تاریخ طبری میں اس کی روایات موجود ہیں لیکن مکمل کتاب کہیں نہیں۔ اس نام سے جو کتاب اب ملتی ہے، وہ یا تو طبری کی روایات کی نقل ہوتی ہے یا اس میں جعلی روایات ہوتی ہیں۔
ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اہل تشیع قرآن کی تفسیر تک خود نہیں کرتے۔ ان کی تفاسیر ان کے آئمہ معصومین کی روایات پر مبنی ہوتی ہیں کہ کون سی آیات کی شان نزول کیا ہے اور اس کی تفسیر کیا ہے۔ یہی صورت سانحہ کربلا کی ہے۔ امام زین العابدین اور امام باقر کربلا میں موجود تھے۔ انھوں نے اس کی تفصیلات بیان کیں۔ کوئی مقتل، کوئی کتاب ان آئمہ کی روایات سے بڑھ کر نہیں۔
میں نے آج کتب خانے والے گروپ میں سانحہ کربلا کی 15 کتابیں شئیر کی ہیں جو مقتل الحسین کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان میں ابو مخنف سے منسوب دو کتابیں ہیں۔ ان میں سے جس مقتل کو شیخ ہادی یوسفی غروی نے مرتب کیا ہے، اسے درست اور دوسرے کو جعلی قرار دیا جاتا ہے۔ روضہ الشہدا دو جلدوں میں موجود ہے لیکن اس میں بھی بہت سی غلط روایات شامل ہیں۔
میں جن کتابوں کو خاص طور پر تجویز کروں گا ان میں امام حسین کے صحابی عقبی بن سمعان، اہل تشیع کے معتبر ترین عالم شیخ مفید اور علامہ طالب جوہری کی کتابیں شامل ہیں۔ دوسری کتابیں بھی کم اہم نہیں۔ ایک نظر سب کو دیکھنا چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر