مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شہباز گل، باغی یا محض بد زبان؟||محمد حنیف

جو باتیں علی گڑھ یونیورسٹی میں شرارت سمجھی جاتی تھیں وہ لالو کھیت کی گلیوں تک آتے آتے پہلے بدتہذیبی اور پھر بغاوت میں بدل گئیں اور اسی بغاوت کا سر آخر ایسے کچلا گیا کہ الطاف حسین کے پرانے عاشق بھی کراچی کی گلیوں میں اپنے محبوب رہنما کا نام لیتے کتراتے ہیں۔

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری عمر عسکری اداروں کے سیاست اور معیشت میں کردار پر سوال اٹھانے والے بھی دانتوں میں انگلی دبائے بیٹھے تھے کہ آخر ہمارے فوجی بھائی کب تک پی ٹی آئی والوں کے ہاتھوں صلواتیں سنتے رہیں گے۔

کب تک ٹوئٹر پر اپنے چیف کے خلاف ہر دوسرے دن بننے والے ٹرینڈ برداشت کریں گے، کب تک میر صادق و میر جعفر کے طعنے برداشت کریں گے۔

اصل میں وہ یہی کہہ رہے تھے فوج جو ڈنڈا ہمارے خلاف چلاتی رہی ہے وہ پی ٹی آئی کے خلاف کب حرکت میں آئے گا۔ حیرت ہوتی تھی کہ جس ڈنڈے سے خود ساری عمر ڈرتے رہے ہو اب اس کو ہی کیوں ہلا شیری یعنی حرکت میں آنے کی دعوت دے رہے ہو۔

جب اس ڈنڈے کی جھلک شہباز گل کی گرفتاری اور ان پر فوج میں انتشار پھیلانے کے مقدمے کی صورت میں سامنے آئی تو میں نے ایک پرانے سیانے صحافی بھائی سے پوچھا کہ آپ بھی تو ساری زندگی کبھی کھل کر، کبھی استعاروں میں یہی بات کرتے رہے ہو تو اب اتنی خوشیاں کیوں؟

جواب حسب توقع تھا کہ لیکن ہم شہباز گل کی طرح کی زبان تو استعمال نہ کرتے تھے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کے اکثر مخالف ان کی پالیسیوں پر کوئی زیادہ اختلاف نہیں کرتے تھے (بلکہ اکثر تو یہ بھی کہتے تھے پالیسی، کون سی پالیسی)۔ صرف پی ٹی آئی کے حامیوں کی زبان، ان کے لہجے اور اپنے محبوب قائد عمران کی محبت میں پیدا ہونے والی جہالت کا ذکر کرتے تھے۔

اسی اختلاف میں وہ اردو شاعری کا بنیادی نکتہ بھی بھول جاتے تھے کہ سچا عاشق تو دیوانہ ہی ہو گا، اس کو معشوق کی ایک جھلک دکھا دو پھر وہ یہ بھول جائے گا کہ معشوق نے کل کیا کہا تھا۔ اگر کل اس نے یہ کہا تھا کہ جرمنی جاپان ہمسائے تھے تو ہو سکتا ہے نقشے کی ہی غلطی ہو، ہمارا لیڈر کیسے غلط ہو سکتا ہے۔

عمران خان

،تصویر کا ذریعہPTI

عمران خان اپنے چاہنے والوں کے لیے لیڈر سے زیادہ معشوق ہیں، لیڈر تو بدلا جا سکتا ہے لیکن مہنگائی کے اس کٹھور موسم میں معشوق بدل کر کہاں جائیں؟ مفتاح اسماعیل کے پاس؟

شہباز گل نے پاکستان کی سیاست میں گندی زبان متعارف نہیں کرائی، میں نے بچپن میں مودودی، بیگم نسیم ولی خان اور بےنظیر کے بارے میں ایسے الفاظ سنے ہیں جو بالغ بننے کے بعد سمجھ آئے۔

کراچی میں جب ایم کیو ایم کے لونڈے لپاڑوں کا راج شروع ہوا تو پرانے مہاجر بزرگ یہی شکایت کرتے نظر آئے کہ ایک پڑھی لکھی اور پاکستان کی سب سے تہذیب یافتہ قوم جو آپ جناب کے علاوہ بات نہیں کرتی تھی کیسے ابے تبے پر اتر آئی۔ لیکن ان بزرگوں نے شاید کراچی کی کھٹارہ بسوں کی چھتوں پر کبھی سفر نہیں کیا تھا یا تنگ گلیوں میں رینجرز کی فائرنگ سے بچنے کے لیے بھاگے نہیں تھے۔

جو باتیں علی گڑھ یونیورسٹی میں شرارت سمجھی جاتی تھیں وہ لالو کھیت کی گلیوں تک آتے آتے پہلے بدتہذیبی اور پھر بغاوت میں بدل گئیں اور اسی بغاوت کا سر آخر ایسے کچلا گیا کہ الطاف حسین کے پرانے عاشق بھی کراچی کی گلیوں میں اپنے محبوب رہنما کا نام لیتے کتراتے ہیں۔

شہباز گل نے اپنے ہر سیاسی مخالف کے ساتھ بدزبانی کی اور ایسی کی کہ پی ٹی آئی کے سارے بدزبانوں کو پیچھے چھوڑ گئے اور عمران خان کا دل اور دماغ بن گئے۔

شہباز گل

،تصویر کا ذریعہTWITTER

یہ بھی پڑھیے

لیکن ان پر مقدمہ ہماری تہذیب یافتہ قوم کو گندی زبان سنانے کا نہیں بن رہا بلکہ کوئی بغاوت نما کیس بنے اور اس میں جو زبان انھوں نے استعمال کی وہ پاکستانی سیاسی کارکن کا عسکری اداروں سے پرانا مکالمہ ہے کہ قانون کے دائرے میں رہو، آئین کی بھی سنو اور اگر یہ سارے کام نہیں کرنے تو پھر ہم میں کیا برائی ہے آؤ مل کر کرتے ہیں۔

اور ادارے کی حرمت کے بارے میں پریشان لوگ یہ یاد رکھیں کہ ادارہ جو سنہ 1971 کے بعد اپنے جنگی قیدی چھڑا رہا تھا وہ ٹھیک چھ سال بعد اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ ہمارے نظام مصطفیٰ کے خواب پورے کر رہا تھا۔

آپ ادارے کی فکر چھوڑیں اپنی اور اپنی زبان کی فکر کریں کہ کب یہ بدتہذیبی کرے اور کب بغاوت بکنے لگے۔

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: