نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ماہ قبل اخبار یا کتاب پڑھنے میں مجھے بہت دِقت محسوس ہونا شروع ہوگئی تھی۔سوچا کہ عینک کا نمبر بدلناہوگا۔اس ضمن میں روایتی ٹیسٹ کے لئے گیا تو طارق بھائی پریشان ہوگئے۔ وہ برسوںسے میری نظر کے معاملات بخوبی سنبھال رہے ہیں۔نہایت گھبراہٹ سے انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آنکھ میں کالا موتیا اُتررہا ہے۔آنکھوں کے کسی ماہر کی تشخیص کے بعد غالباََ آپریشن کروانا ہوگا۔ان کی کاوش سے بالآخر ایک بزرگ ماہر سے رابطہ ہوا تو انہوں نے موتیا کے حملہ آور ہوجانے کی تصدیق کی۔ اس کے باوجود مگر مصر رہے کہ دل ہویا آنکھ انسان کو اس کی فطری اور عمر کے ساتھ بتدریج کمزور ہوتی کمزوری کے ساتھ ہی جینا چاہیے۔ آپریشن فقط اس وقت ہو جب معاملہ سنبھالنے کی کوئی اور صورت باقی نہ رہے۔
ذاتی طورپر میں بھی اس سوچ کا حامی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ میں اگر ان کی ہدایات پر عمل کروں۔سورج ڈھلنے کے ساتھ آسمان پر نگاہ مرتکز رکھتے ہوئے چند پرندوں کی اپنے گھونسلوں کی جانب واپسی پر توجہ دوں تو موتیا کا مزید فروغ روکاجاسکتا ہے۔ محض دس دنوں تک چند ادویات کے استعمال کے بعد تاہم مجھے ہر تین گھنٹے بعد اپنی آنکھوں میں ایک مخصوص دوا کے قطرے بھی ڈالنا ہوں گے۔ ان کی بدولت آنکھ خشک نہیں رہے گی اور کام چلتا رہے گا۔لکھنے سے کہیں زیادہ مجھے پڑھنے کی علت لاحق ہے۔ موتیا کے حملے سے گھبراگیا۔ زندگی میں پہلی بار معالج کی بتائی ہر ہدایت پرعمل کیا اور چند دنوں بعد یہ محسوس کرنا شروع ہوگیا کہ میری بصارت اب معمول کے مطابق ہوچکی ہے۔
دوہفتے قبل مگر جس دوائی کے قطرے اپنی آنکھ میں ہر تین سے چار گھنٹے بعد ڈالتا ہوں ختم ہوگئی۔ اسے لینے ڈرائیور کو بازار بھیجا تو معلوم ہوا کہ ہمارے گھر کے قریب جس دوکان سے خریدی جاتی ہے وہاں یہ دوا میسر نہیں۔ اس شام اتفاقاََ میری بیوی اپنی ایک دوست کی والدہ کی تیمارداری کے لئے اسلام آباد کے ایف-سیکٹر جارہی تھی۔ وہاں ادویات کے بہت بڑے سٹورز بھی ہیں۔جو دوا لیکن مجھے درکار تھی وہاں بھی میسر نہیں تھی۔ میں نے ایک ہفتہ اس دوا کے بغیر گزارا۔پڑھنے میں دوبارہ دِقت محسوس ہونا شروع گئی۔ گھبرا کر خودفارمیسی کی دوکانوں پر چلا گیا۔
وہاں سے خبر ملی کہ جس دوا کا میں عادی ہوچکا ہوں اب سپلائی نہیں ہورہی۔ اسے تیار کرنے والوں نے اطلاع دی ہے کہ جب تک بجٹ کی منظوری کے عمل میں ادویات کے خام مال اور انہیں تیار کرنے کے بعد فروخت کے حوالے سے ٹیکس کا نظام طے نہیں ہوجاتا مذکورہ دوا کو تیار نہیں کیا جائے گا۔مزید ایک ماہ تک لہٰذا مجھے مذکورہ دوا کے بغیر ہی کام چلانا ہوگا۔کام چلانے کے لئے مگر کسی متبادل دوا کی اشد ضرورت تھی۔اس ضمن میں ’’سب سے بہتر آپشن‘‘ ڈھونڈا۔اس کے قطرے مگر آنکھوں میں ڈالتا ہوں تو تھوڑی دیر کو جلن محسوس ہوتی ہے۔اس جلن سے گھبرا کر ایک ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے مشورہ دیا کہ جلن کی وجہ مذکورہ دوا کی Low Qualityیا کم تر معیار ہے۔ آنکھوں میں نمی کو برقرار رکھنے کے لئے مگر اس کے استعمال کے علاوہ کوئی متبادل میسر نہیں ہے۔
ذاتی مسئلہ کی وجہ سے ادویات کی دوکانوں اور ڈاکٹروں کے چکر لگانے کے بعد دریافت یہ بھی ہوا ہے کہ محض آنکھ میں ڈالنے والے قطرے ہی نہیں تقریباََ سو سے زیا دہ ادویات اس وقت بازار میں میسر نہیں ہیں۔ ان میں سے کئی ادویات ایسی ہیں جنہیں دل،شوگر یا بلڈپریشر کے مریضوں کو ہرصورت روزانہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ بازار سے جو ’’خبر‘‘ ملی ہے اسے ذہن میں رکھوں تو پاکستان میں اس وقت ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد ایسی ادویات سے محروم ہوچکے ہوں گے جن کا روزانہ استعمال ان کی تندرستی یقینی بناتا ہے۔
صحت عامہ کے تناظر میں بنیادی یا لازمی تصور ہوتی ا دویات کی بازار میں عدم دستیابی میری دانست میں ان دنوں میڈیا کے اہم ترین موضوعات میں شامل ہونا چاہیے تھی۔ٹی وی میں دیکھتا نہیں۔ پاکستان میں چھپا ہر مؤقر وبااثر اخبار مگر ہر صبح پلندے کی صورت میرے گھر آتا ہے۔ میں ان کی ایک ایک سطر پڑھنے کا عادی ہوں۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی رپورٹر نے تھوڑی تحقیق کے بعد ایسی جامع خبر تیار کی ہو جو قارئین کو تفصیل سے بتائے کہ لاکھوں پاکستانیوں کی صحت کو معمول کے مطابق رکھنے کے لئے تیار ہوئی کون کونسی ادویات ان دنوں بازار سے غائب ہیں۔ایسی ادویات کی عدم دستیابی مہذب اور انسان دوست معاشروں میں ’’ہنگامی صورتحال‘‘ کا ماحول بنادیتی ہیں۔ہمارے میڈیا میں تاہم ایسی دہائی نظر ہی نہیں آرہی۔
بہت عرصے سے ہم اس گماں میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ’’بکائو‘‘ میڈیا جن بنیادی امور کو نظرانداز کردیتا ہے وہ دردمند اور بے باک صحافی سوشل میڈیا پر لوگوں کے روبرو لے آتے ہیں۔چند بنیادی ادویات کی عدم دستیابی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اتوار کے روز اپنے سوشل میڈیا کا لہٰذا غور سے جائزہ لیا ہے۔وہاں سب سے مقبول ’’خبر‘‘ عمران خان صاحب کے ایک ملازم کی بابت تھی۔ سابق وزیر کے چیف آف سٹاف جناب شہباز گل صاحب اس کے چہرے کو چادر سے ڈھانپ کر کیمروں کے روبرو لائے۔الزام لگایا کہ مذکورہ ملازم نے عمران خان صاحب کے گھر میں ایسا جاسوسی آلہ نصب کرنے کی کوشش کی جس کی بدولت وہاں ہوئی گفتگو ریکارڈ کی جاسکتی ہے۔ا س ضمن میں جو آلہ شہباز گل صاحب نے دکھایا اسے ’’آن‘‘ کریں تو سرخ بتی بھی جلتی ہے۔’’بتی‘‘ والے جاسوسی آلے کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ مبینہ آلہ ہماری کسی ایجنسی نے استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہوگی۔ ان کے پاس کسی کمرے میں سننے کے جو آلات میسر ہیں وہ ہمارے ٹیلی فونوں میں نصب سموں جیسے باریک اورمنحنے ہوتے ہیں۔انہیں ’’آن‘‘ یا ’’آف‘‘ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ بہرحال مبینہ طورپر جاسوسی آلہ نصب کرتا ملازم پکڑا گیا ہے۔عمرن خان صاحب نے اگرچہ اسے معاف بھی کردیا ہے۔سوشل میڈیا پر مگر رونق لگ چکی ہے۔اس رونق کی بدولت ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں کہ لاکھوں افراد کی صحت کو معمول کے مطابق رکھنے والی ادویات بازار میں میسر ہیں یا نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر