نئے تعلیمی سال سے قبل سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں بازار میں نایاب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
کاغذ کی صنعت سے وابستہ تنظیموں نے بھی ہار مان لی۔ کہا کاغذ کی درآمد پر عائد بھاری ڈیوٹی ختم نا کی گئی تو مزید مسائل جنم لیں گے۔
یکم اگست سے اردو بازاروں سمیت دکانوں پر درسی کتب دستیاب نہیں ہوں گی۔
پبلشر ہاؤس اور پرنٹنگ پریس سے وابستہ تنظیموں نے بڑے بحران کا خدشہ ظاہر کردیا۔
پیپر مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سربراہ سلیم بیکیا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی کاغذ پر عائد ڈیوٹی 70 فیصد تک ہے۔
سلیم بیکیا،سربراہ پیپر مرچنٹس ایسوسی ایشن
دوسری جانب اردو بازار میں کتابوں کی خریداری کے لیے آنے والے شہری مایوس لوٹنے لگے۔ دکاندار کہتے ہیں بڑھتی مہنگائی میں والدین کئی دنوں سے بازارون کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔
ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ پاکستان کو خود کاغذ بنانے کے بجائے صرف درآمدات پر زور دینا چاہیے۔
قیصر بنگالی، ماہر معاشیات
کاغذ کی صنعت سے وابستہ تنظیموں نے موجودہ حکومت سے کاغذ پر عائد ٹیکسز اور ڈیوٹی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
یہ بھی پڑھیے
نیشنل پریس کلب کے انتخابات، جرنلسٹ پینل نے میدان مارلیا، اظہر جتوئی صدر منتخب
ملتان یونین آف جرنلسٹس کے سالانہ انتخابات میں "پروفیشنل جرنلسٹس گروپ” نے میدان مار لیا،
متوازن وفاق اور وسائل پر اختیار کےلئے سرائیکی سرگرم کارکنوں اور طلبہ تنظیموں کی’ سرائیکی صوبہ ریلی کا انعقاد