نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عملی اعتبار سے پاکستان اس وقت بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف)کی گرے لسٹ پر ہے۔میری بات پر شک ہے تو یہ کالم پڑھتے ہی کسی قریبی بینک چلے جائیں۔وہاں موجود شناساﺅں سے گفتگو کریں تو آپ کو بخوبی علم ہوجائے گا کہ اگر آپ ہر حوالے سے جائز دِکھتے کسی سودے یا اپنے بچوں کی غیر ملک میں کفالت کے لئے ”صاف ستھرے“ ٹھہرائے بینک اکاﺅنٹ میں جمع ہوئی رقم میں سے یکمشت دس ہزار امریکی ڈالر سے محض ایک ڈالر بھی زیاد ہ بھیجنا چاہیں تو ”ٹلیاں“ کھڑک جائیں گی۔
ہمیں 2018 میں اپنی گرے لسٹ پر ڈالنے والے ادارے کا حال ہی میں لیکن جو اجلاس منعقد ہوا اس نے پاکستان کی جانب سے فیٹف کے تقاضوں کے مطابق قوانین کی تیاری اور ان کے اطلاق کی بابت اطمینان کا اظہار کیا ہے۔اس کے باوجود اکتوبر میں فیٹف کا ایک وفد ہمارے ہاں آکر اپنی شرائط ”برسر زمین “بروئے کار لانے والے عمل کا جائزہ لے گا۔قوی امید ہے کہ وہ مطمئن ہو جائے گا۔ ایک انگریزی محاورہ مگر چائے کی پیالی کے لب تک آنے کے درمیان وقفے کی بابت خبردار رہنے کا مشورہ بھی دیتا ہے۔ احتیاط لہٰذا لازمی ہے۔ قبل از وقت جشن منانے کی ضرورت نہیں تھی۔
ہمارے ہاں ڈھول اگرچہ کھڑکنا شروع ہوگئے۔ فیٹف کا برلن میں اجلاس ابھی جاری تھا تو موجودہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین پاکستان کو اس ادارے کی گرے لسٹ سے باہر نکلوانے کا کریڈٹ لینے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ دونوں جانب سے بڑھک بازی جاری تھی کہ وطن عزیز کی جان،مال وعزت کے اصل رکھوالوں کو تفصیلی بیان جاری کرنا پڑا۔اس کے ذریعے قوم کو سمجھادیا گیا کہ ایک دوسرے کو ”چور اور لٹیرے“ پکارنے کے عادی سیاست دانوں کو فیٹف کی تسلی کے لئے قوانین کی تیاری کی جانب جی ایچ کیو نے بہت تیاری کے بعد راغب کیا تھا۔ یہ دعویٰ جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
آج سے تقریباََ دو سال قبل فیٹف کی تسلی کے لئے قانون سازی کے عمل کا آغاز ہوا تھا۔ پارلیمانی روایات کے مطابق جب حکومت کوئی نیا قانون منظور کروانا چاہتی ہے تو اس کا تیار شدہ مسودہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے روبرو پیش کیا جاتا ہے۔ وہاں پیش ہوجانے کے بعد مذکورہ قانون دونوں ایوانوں کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا جاتا ہے۔ان کمیٹیوں کے اجلاسوں میں تیار شدہ مسودے پر تفصیلی غور کے بعد قانون کو حتمی صورت فراہم کر دی جاتی ہے۔ وہ میسر ہوجائے تو ایوان میں سادہ اکثریت کی زبانی ”ہاں“ کے ذریعے قانون سازی ہو جاتی ہے۔
فیٹف کی تسلی کے لئے تیار ہوئے قوانین کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔قوانین کا جو پلندہ تیار ہوا تھا ان کے مسودے کو براہ راست ایوان میں پیش کرنے سے قبل ان دنوں کی اپوزیشن جماعتوں سے رابطے ہوئے۔ یہ رابطے اپوزیشن رہ نماﺅں کو مسلسل ”چور اور لٹیرے“ پکارنے والی عمران حکومت کی جانب سے نہیں ہوئے تھے۔ یہ فریضہ کسی ”اور“ نے نبھایا۔ بالآخر سورج ڈھلنے کے بعد ان دنوں قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے لئے مختص سرکاری گھر میں حکومت اور اپوزیشن نمائندوں کے مابین رات گئے تک مشاورت کئی دنوں تک جاری رہی۔ اپوزیشن والوں کو رابطہ کرنے والوں نے تاثر یہ بھی دے رکھا تھا کہ کہ اگر فیٹف کی تسلی کے لئے تیار ہوئے قوانین ”وسیع تر قومی مفاد“ میں جلد ازجلد تیار اور لاگو کر دئیے جائیں تو نیب کے فرعونی اختیارات نرم کرنے کا آغاز بھی ہو جائے گا۔ طویل مشاورت کے بعد کچھ ”مک مکا“ ہوا نظر آیا۔
مک مکا ہوگیا تو ان دنوں کے وزیر قانون فروغ نسیم نے فیٹف کی تسلی کے لئے تیار ہوئے قوانین کو ایوان میں منظوری کے لئے پیش کردیا۔ انہیں جلد از جلد منظور کروانے کی استدعا سے قبل فراغ دلی سے اپوزیشن کے حکومت سے مذاکرات کرنے والوں کی محب وطن ”فراست“ کو منافقانہ خلوص سے سراہا۔مذکورہ قوانین کو زبانی ”ہاں“ یا ”نہیں“ کے لئے پیش ہونے کا انتظار ہورہا تھا تو ان دنوں کے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی دندناتے ہوئے ”اچانک“ ایوان میں در آئے۔ یہ دعوی کرتے ہوئے ہم سب کو حیران کردیا کہ اپوزیشن والے ”وسیع تر قومی مفاد“ میں تیار ہوئے قوانین کی منظوری کے عوض اپنے ”چور اور لٹیرے“ رہ نماﺅں کے لئے ”این آر او“ مانگ رہے ہیں۔اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ایک کاغذ بھی ہوا میں لہرایا جو ان کے بقول اپوزیشن کی جانب سے احتساب قوانین کی سخت گیری نرم کرنے کی تجاویز کو ”بے نقاب“ کررہا تھا۔ اپوزیشن کی ”خود غرضی“ کو دھڑلے سے ”بے نقاب“ کرنے کے بعد قریشی صاحب نے نہایت حقارت سے یہ اعلان بھی کردیا کہ ان کے قائد عمران خان بضد ہیں کہ ”چوروں اور لٹیروںکو کسی صورت این آر او“ نہیں دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ بھی دھونا پڑے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔
جبلی طورپر کائیاں شاہ محمود قریشی کو بخوبی علم تھا کہ وہ برسرعام اپوزیشن کی جتنی بھی بے عزتی کرتے رہیں اپوزیشن والے ان سے رابطہ کرنے والوں سے بندے کا پتر بنے رہنے کا وعدہ کرچکے ہیں۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ان دنوں کی اپوزیشن نے اپنا وعدہ نبھایا۔سوجوتوں کے ساتھ سوپیاز بھی ”وسیع تر قومی مفاد“ میں کھاتے رہے۔ یہ سوال اٹھانے کی بھی جرات نہ دکھا پائے کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں کن وجوہات کی بنیاد پر ڈالا گیا تھا۔ ان کی عاجزانہ خاموشی نے گرے لسٹ سے پاکستان کو نکلوانے کی خاطر بنائے قوانین کی ریکارڈ ساز عجلت میں قومی اسمبلی سے منظوری میں آسانی فراہم کی۔ مذہب کے نام پر سیاست میں آئی جماعتوں کے نمائندوں ہی نے تھوڑی مزاحمت دکھائی۔وہ اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
بعدازاں یہ قوانین سینٹ میں منظوری کے لئے پیش ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے مرحوم سینیٹر رحمن ملک ان کی عاجلانہ منظوری یقینی بنانے کے لئے ہمہ وقت متحرک رہے۔مسلم لیگ (نون) کا رویہ بھی دوستانہ تھا۔”بندے کا پتر“ بنائی اپوزیشن کی عاجزی کا حکمران جماعت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ان دنوں سینٹ میں تحریک انصاف کی جانب سے نامزد ہوئے قائد ایوان- ڈاکٹر وسیم شہزاد-تواتر سے ہم جاہلوں کو سمجھانا شروع ہو گئے کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں اس لئے ڈالا گیا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے قائدین نے ”حرام کی کمائی“ کو ”منی لانڈرنگ“ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا اور وہاں کے مہنگے ترین علاقوں میں قیمتی جائیدادیں خریدلیں۔ وہ جائیدادیں فیٹف کی نگاہ میں آئیں تو پاکستان کو گرے لسٹ میں پھینک دیا گیا۔
ان دنوں کی اپوزیشن کا کوئی ایک سینئر رہنما بھی ایوان بالا میں کھڑے ہوکر یہ حقیقت بیان کرنے کی جرات نہ دکھاپایا کہ فیٹف کو ”حرام کی کمائی“ سے کوئی دلچسپی نہیں۔اس کا اصل مقصد ”دہشت گردی“ کی سرمایہ کاری کے امکانات کو ختم کرنا ہے۔وہ خاموش رہے تو ڈاکٹر وسیم شہزاد مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے سینیٹروں کو تواتر سے رائے ونڈ اور بلاول ہاﺅس کے ”غلام“ بھی پکارنا شروع ہوگئے۔
اپنی قیادت کی خاموشی کی وجہ سے ”غلام“ٹھہرائے مصطفیٰ نواز کھوکھر اور ڈاکٹر مصدق ملک بالآخر پھٹ پڑے۔ پرویز رشید نے بھی ڈٹ کر ان کا ساتھ دیا۔ اپنی تذلیل سے غضب ناک ہوکر مصطفیٰ نواز اور مصدق ملک نے جو ہنگامہ کھڑا کیا اس نے عمران حکومت کے ”سیم پیج“ والے مہربانوں کو پریشان کردیا۔وہ متحرک ہوئے تو بقیہ قوانین بھی بالآخر بآسانی منظور ہو گئے۔
میں نے اب تک جو کچھ بیان کیا ہے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں کی پریس گیلری میں بیٹھ کر ہوئے مشاہدے کی بنیاد پر لکھے ہمارے انگریزی اخبار”دی نیشن“ کے کالموں میں ریکارڈ پر موجود ہے۔اس کالم میں بھی بارہا شاہ محمود قریشی کی اس رعونت کا ذکر ہوتا رہا ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے فیٹف کی تسلی کے لئے تیار ہوئے قوانین کی منظوری کے عمل کے دوران کیا تھا۔مجھے قطعاََ سمجھ نہیں آرہی کہ حالیہ تاریخ کو یکسر بھلاتے ہوئے ہمارے سیاستدان کس منہ سے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کا کریڈٹ لینے کو مرے جارہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر