نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب تلملا کیوں رہے ہیں؟ ||حیدر جاوید سید

ٹھنڈے دل سے غور کیجئے گا کہ یہ بات بنی گالہ سے باہر کیسے گئی۔ آخری بات یہ ہے کہ حضور جب آپ اقتدار میں آئے تھے تو آئے نہیں تھے لائے گئے تھے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کے کالم میں بات تو عمران خان کے تازہ ارشادات، شکوئوں اور مستقبل کے ’’عزائم‘‘ پر کرنی ہے لیکن پہلے ان (سابق وزیراعظم) کے دوست اور ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی کا تذکرہ ضروری ہے۔

شبر زیدی نے گزشتہ روز کہا ہے کہ "میں نے 6ماہ قبل بتا دیا تھا کہ ملک دیوالیہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ کہ آئندہ مالی سال میں دیوالیہ ہونے کا سخت خطرہ لاحق ہے۔ ڈالر کی بچت کے بغیر خطرہ ٹلنے کا نہیں۔ یہ بھی کہا کہ درآمدات کو 7ارب ڈالر تک محدود کرنا ہوگأ‘‘۔

ادھر روپے کی بے قدری بھی مسلسل جاری ہے۔ ڈالر 193 روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ شبر زیدی سابق وزیراعظم کے ذاتی بلکہ جگری دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں ایف بی آر کا سربراہ اصلاحات کے لئے لگایا تھا۔

اصلاحات ہوئیں، کامیابی و ناکامی کا تناسب کیا رہا اس کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ شبر زیدی "علالت” کے باعث رخصت پر چلے گئے۔ یہ رخصت اتنی طویل ہوگئی کہ ایف بی آر کا نیا سربراہ لانا پڑا۔

اصلاحات کے پروگرام اور علالت پر رخصت دونوں کو ملاکر پڑھیں تو زیدی صاحب کی قابلیت کے جوہر ’’عیاں‘‘ ہونے لگتے ہیں۔

بدقسمتی سے جناب عمران خان کے پاس ایسے ہی نادر نمونے تھے۔ کوئی گھر کا بجٹ بنانے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا اور کسی کی معاشی پالیسیوں نے اس کمپنی کو اربوں کا نقصان پہنچایا جس میں وہ ملازم تھا لیکن پھر بھی شبر زیدی ایف بی آر کے سربراہ اور اسد عمر اس ملک کے وزیر خزانہ بنادیئے گئے۔

ان تجربوں سے سابق وزیراعظم کو حاصل وصول کیا ہوا یہ وہ جانتے ہوں گے لیکن ملکی معیشت کا آج جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 30سال کا حساب چھوڑ کر ساڑھے تین سال کا حساب مانگنے پر برہم ہونے بلکہ گلے پڑنے و الے اب صرف ایک ماہ کو بربادی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

ایک سے بڑھ کر ایک "گوئبلز زادہ” دستیاب ہے۔

خیر چھوڑیئے، سابق وزیراعظم کے تازہ ارشادات پر بات کرلیتے ہیں۔ فرماتے ہیں،

اسٹیبلشمنٹ سے پیغامات آرہے ہیں لیکن میں نے ان کے نمبرز بلاک کردیئے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان تک بات نہیں ہوگی۔

یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کو لایا گیا ہے انہیں لانے سے بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم ماردیا جاتا یعنی ہم نہیں تو کچھ نہیں۔

یہ بھی فرمایا کہ عدلیہ اور نیب پر ہمارا کنٹرول نہیں تھا۔ جن کا تھا انہوں نے چوروں کو سزائیں نہیں ہونے دیں۔

ارشاد ہوا 2018ء میں 40سے 50 (ن) لیگی ارکان پنجاب اسمبلی فارورڈ بلاک بناکر ہمارا ساتھ دینا چاہتے تھے ایسا ہوجاتا تو پنجاب سے (ن) لیگ کی سیاست ختم ہوجاتی مگر لیگی ارکان اسمبلی سے کہا گیا ’’جہاں ہو وہیں رہو‘‘۔

ایک سانس میں تین باتیں بھی کہیں پہلی یہ کہ آخری دن تک اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اچھے تھے، صرف بزدار اور سابق آئی ایس آئی چیف کے معاملے پر اختلاف رہا۔ جنرل فیض حمید کو کبھی آرمی چیف بنانے کا سوچا تک نہیں۔

گزشتہ روز انہوں نے صحافیوں سے ملاقات کی پہلے کہا تبادلہ خیال آف دی ریکارڈ ہے۔ نشست کے اختتام پر کہا آپ لوگ چاہیں تو اس گفتگو کو خبر کی صورت شائع کرسکتے ہیں۔

کیاان سے یہ پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ اس قدر بے اختیاری کے باوجود آپ وزارت عظمیٰ سے چمٹے کیوں رہے ساڑھے تین برس تک۔

جس دن (ن) لیگ کے ارکان کو فارورڈ بلاک بنانے سے روکا گیا تھا اسی دن استعفیٰ دیتے اور گھر واپس چلے جاتے یہ کہتے ہوئے کہ اگر میں مخالف جماعت میں فارورڈ بلاک بھی نہیں بنواسکتا تو پھر حکومت کس کام کی؟

نیب اور عدلیہ کس کے کنٹرول میں تھے؟ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ شکوہ اس شخص کے منہ سے اچھا نہیں لگتا جسے الیکشن مینجمنٹ کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا تھا یہی نہیں بلکہ اس سے قبل کے لگ بھگ دس بارہ برسوں میں میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے اسے پاکباز، راست گو، کرپشن سے پاک، بااصول سیاستدان نما دیوتا بناکر تعمیرکروایا گیا ہو۔

کیا عمران خان اس ملک کے لوگوں کو یہ بتانے میں اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کریں گے کہ سال 2008ء سے 2018ء تک کے 10برسوں کے دوران مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا پر ان کے درشنوں اور بھاشنوں کے لئے مینجمنٹ کس نے کی؟

یہ مینجمنٹ وہیں سے ہوئی تھی نہ جس محکمہ کے سربراہ نے 2018ء کے انتخابی نتائج کے بعد ’’عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے” والی ٹیوٹ کی تھی؟

ڈی جی آئی ایس آئی والے معاملے ان کے اختلافات کی کہانی بھی زبان زدعام تھی انہی دنوں ، اب تو وہ خود اعتراف کرچکے کہ مجھے جولائی 2021ء میں معلوم ہوگیا تھا کہ حزب اختلاف کے مختلف الخیال گروپس کے درمیان میری حکومت گرانے کے لئے مذاکرات چل رہے ہیں اسی لئے میں چاہتا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی دسمبر تک میرے ساتھ رہیں،

کیاوہ ان سے سیاسی مینجمنٹ کا کام لینا چاہیے تھے؟

یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا انہیں ’’کسی‘‘ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ (ن) لیگ کے 22اور پیپلزپارٹی کے 10 ایم این اے پلیٹ میں سجاکر پیش کردیئے جائیں گے کسی ہنگامی صورتحال میں اور یہ کہ عدم اعتماد کی تحریک نومبر 2021ء میں لائی جاسکتی ہے؟

سابق وزیراعظم آجکل سچ بولنے کی مہم پر ہیں تو لگے ہاتھوں مندرجہ بالا سوالات کے جواب میں بھی سچ بول دیں۔ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی بتادیں کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حوالے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کیا بات چیت ہوئی تھی۔

وہ کون تھا جس نے یہ کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی اقدام (5اگست 2019ء والا) کے بعد احتجاج زبانی کلامی ہوگا۔

پاکستان کی حکومت اس معاملے کو لے کر عالمی سطح پر سفارتی اور اطلاعاتی محاذوں پر مہم نہیں چلائے گی؟

وہ آج بات بات پر رورہے ہیں کہ ان کی جماعت کے ارکان منحرف ہوگئے مگر 2018ء میں انہوں نے (ن) لیگ کا فارورڈ بلاک بنوانے کے لئے کس اصول پسندی سے کام لیا تھا۔

یہ عجیب بات نہیں کہ اگر ان کا اقتدار ختم ہوگیا ہے تو مخالفین کے اقتدار سے بہتر ہوتا کہ ملک پر ایٹم بم ماردیا جاتا۔ کیسی شقاوت قلبی ہے۔ کیا ان کے مخالفین اور ان کے حامی انسان نہیں یا اس ملک میں صرف انہیں اور ان کے حامیوں کو زندہ رہنے کا حق ہے؟

کرپشن مقتدر حلقوں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ یہ انکشاف کب ہوا، اقتدار سے محرومی کے بعد یا زمانہ اقتدار میں؟

ویسے یہ کیسی بے اختیاری تھی کہ عالی جناب کے کہنے پر رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کا مقدمہ بنادیا گیا اور آپ کی ہی حکومت میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کے منشیات سمگلر بھتیجے بلال آفریدی کی آسانی کے ساتھ ضمانت ہوگئی۔

کون وہ فیصلے کرتا رہا جس سے آپ کی حکومت کمزور ہوئی؟ فیصلہ سازی کا اختیار نہیں تھا تو کیوں لپٹ کر بیٹھے رہے وزارت عظمیٰ کی کرسی سے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ حضور عالی آپ کو کبھی زبان پر کنٹرول نہیں رہا نہ اب ہے۔ آپ کے خیال میں آپ کوئی دیوتا ہیں اور دیوتا غلطی نہیں کرتے۔

غلطیاں ہوئیں بلکہ ’’غلطان‘‘ ہوئے لیکن ان کا تجزیہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے آپ میں۔

معاف کیجئے گا خودپرستی اور زود رنجی سے عبارت ہے جناب کی ذات، یہی ناکامیوں کی وجہ ہے۔

پاکستان جہاں آج کھڑا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہے۔ آپ ہی نے دعویٰ کیا تھا کہ میرے پاس 300ماہرین کی ٹیمیں موجود ہیں اقتدار ملتے ہی پہلے 100دن میں نقشہ بدل کر رکھ دیں گے۔ ویسے نقشہ آپ نے بدل ہی دیا بس پروپیگنڈے کے زور پر سیاہ کو سفید ثابت کروادیا۔

اب آپ کہہ رہے ہیں کہ میں جنرل فیض کو آرمی چیف نہیں بنانا چاہتا تھا یا یہ کہ ایسا تو میں نے سوچا تک بھی نہیں جبکہ اس معاملے میں ایک سے زائد بار یہ کہتے پائے گئے ’’کیا ہوا اگر میں اسے ڈی جی کے طور پر برقرار نہیں رکھ سکا میں اسے آرمی چیف نامزد کروں گا یہ میرا اختیار ہے اور پھر میں ان سب کو دیکھ لوں گا‘‘۔

ٹھنڈے دل سے غور کیجئے گا کہ یہ بات بنی گالہ سے باہر کیسے گئی۔ آخری بات یہ ہے کہ حضور جب آپ اقتدار میں آئے تھے تو آئے نہیں تھے لائے گئے تھے۔

لانے کی وجوہات کیا تھیں سبھی جانتے ہیں اس لئے پاکیٔ داماں کی حکایات سنانے کی بجائے ذرا دامن پر نگاہ ڈال لیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author