مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان پور کی سالانہ قومی کانفرنس||ظہور دھریجہ

خان پور پہلے ضلع تھا اور خان پور کو انگریزوں نے ریلوے کا سب سے بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا گیا اور خان پور چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر بہت بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا تھا مگر سیاسی مصلحتوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور خان پور کو ضلع سے تحصیل بنا دیا گیا۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ رات خان پور کے نواحی قصبہ دھریجہ نگر میں سالانہ قومی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس میں مقررین نے قومی امور کے علاوہ وسیب کے مسائل کے حوالے سے خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ عمران خان نے وعدے پورے نہیں کئے اور عمران خان نے سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا وہ بھی پورا نہیں ہوا مگر اب عمران خان چلا گیا تو مسائل کے حل کی ذمہ داری موجودہ حکمرانوں کی ہے۔ اتحادی حکومت کہہ رہی ہے کہ مہنگائی سمیت تمام مسائل کی ذمہ دار سابق حکومت ہے۔ اب سوال مسائل کو حل کرنے کا ہے۔ جہاں تک باتوں کا تعلق ہے تو عمران خان بھی ساڑھے تین سال یہی کہتے رہے کہ (ن) لیگ کی حکومت کے چھوڑے ہوئے مسائل کو ہم بھگت رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ڈالر، سونا اور تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ دوسری طرف دریائوں میں پانی کی کمی سے مجموعی طور پر پورا ملک پانی کی کمی کا شکار ہے مگر پانی کی کمی کا سب سے زیادہ اثر سرائیکی وسیب پر ہوا ہے۔ چولستان کے باسی نقل مکانی کر رہے ہیں اور ہزاروں جانور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر چکے ہیں۔ اقتدار کی سیاست کرنیوالوں کی طرف سے الزامات اور جوابی الزامات کے سلسلے سے لوگوں کے پیٹ بھرتے ہیں نہ پیاس بجھتی ہے۔ کانفرنس سے سرائیکی رہنمائوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ایم پی اے مخدوم عثمان محمود، (ن) لیگ کے خواجہ محمد ادریس، ایس ڈی پی کے نذیر کٹپال، راشد عزیز بھٹہ و دیگر شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ حکمران مسائل کے حل کیلئے فوری اقدامات کریں ورنہ چولستان میں جانوروں کیساتھ ساتھ انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے۔ پورے وسیب میں پانی کی قلت ہے۔ فصل خریف کی کاشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ کوہ سلیمان میں بھی پانی کی شدید قلت سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ دھریجہ نگر کے ہونیوالے جلسہ میں ہزاروں افراد کی شرکت نے ثابت کیا کہ لوگ اپنے مسائل کے حوالے سے بہت آگاہ ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر قرار دادیں منظور کی گئیں جنہیں حاضرین نے متفقہ طور پر منظور کیا دوسری قراردادوں میں الگ صوبے کے قیام سمیت جو دوسرے مطالبات شامل تھے ان کی تفصیل یہ ہے:خان پور کی سابقہ ضلعی حیثیت بحال کر کے اسے ضلع کا درجہ دیا جائے اور خان پور چاچڑاں لائن بحال کرنے کے ساتھ ساتھ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر اسے ایک طرف براستہ ڈیرہ غازی خان کوٹ ادو کندیاں میاں والی گولڑہ پنڈی سے پشاور تک ملایا جائے دوسر ی طرف براستہ کوٹ مٹھن جیکب آباد سے کوٹ مٹھن تک ملایا جائے ۔اور ریلوے کے ابتدائی منصوبے کے تحت خان پور کو ــ’’ریلوے ہب‘‘ کا درجہ دے کر اسے بڑا جنکشن بنایا جائے اور مغل پورہ لاہور کی طرز کی یہاں ورکشاپس قائم کی جائیں۔ مطالبات میں مزید کہا گیا کہ خانپور کو ٹیکس فری زون قرار دے کر یہاں ٹیکس فری انڈسٹریل سٹیٹ قائم کی جائے۔خانپور کی واحد ٹیکسٹا ئل مل BTMچالو کی جائے۔اور اس مل کے ہزاروں مزدوروں کو روزگار کے ساتھ ان کے کروڑوںکے واجبات ادا کرائے جائیں۔شوگر فارم خانپور کے سینکڑو ں ایکڑ رقبہ پر زرعی یونیورسٹی قائم کی جائے اور زرعی تحقیقاتی مرکز(روغندار اجناس)خانپور کوسول انتظامیہ کو سونپ کر زرعی کالج کا درجہ دیا جائے۔منظو ر شد ہ خانپور کیڈٹ کالج فوری مکمل کرانے کے ساتھ خانپور میں انجینئرنگ کالج کی بھی منظوری دی جائے اور سرکاری تعلیمی اداروںمیں اپر پنجاب کے برابر تعلیمی سہولتیں مہیا کی جائیں۔نیز خانپور کے بوائز اورگرلز کالجوں میں سرائیکی پڑھانے والے اساتذہ تعینات کیے جائیں ۔اسی طرح محکمہ تعلیم لاہور کو سرائیکی وسیب کے جن کالجوں کی طرف سے سرائیکی پڑھانے والے اساتذہ کی ڈیمانڈ کی گئی ہے اسے فی الفور پوراکیا جائے ۔خانپور شہر میں صحت و صفائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر فوری توجہ مرکوز کی جائے۔ سیوریج سسٹم کو بحال کیا جائے ۔اور خانپور شہر کے کی بہتری کے لیے بھاری پیکیج دیا جائے ۔ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا خاتمہ کیا جائے ۔شکارکی پابندی کے قانو ن کو مؤثر بنایا جائے ۔غیر ملکی عرب شہزادوں کو ذاتی مفاد کے عوض دھرتی پٹے پر دینے کی روایت ختم کی جائے اور چولستان میں لوگوںکو پینے کا پانی مویشیوں کے لیے چارہ اور آمد ورفت کے لیے ذرائع آمد و رفت مہیا کیے جائیں ۔ اس موقع پر خان پور کی تاریخی اہمیت کا بھی تذکرہ ہوا اور کہا گیا کہ خان پور سرائیکی وسیب کا زرخیز اور مردم خیز خطہ ہے‘ اس خطے نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ جیسی عظیم ہستی کو جنم دیا ‘ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کا سب سے بڑا مرکز بھی خان پور تھا اور تحریک آزادی کے عظیم ہیرو مولانا عبید اللہ سندھی نے یہیں سے انگریز استعمار کے خلاف جدوجہد کی ۔ حضرت سندھی آج آسودہ خاک بھی خان پور میں ہی ہیں۔ خان پور کی سر زمین نے عظیم روحانی پیشوا حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ ‘ مولانا عبدالہادی ‘ مولانا سراج احمد مکھن بیلوی ‘ حضرت سراج اہلسنت مفتی واحد بخش ‘ مولانا عبداللہ درخواستی ‘ مولانا عبدالشکور دین پوری ‘ مولانا یار محمد دھریجہ ‘ بابا امان اللہ دھریجہ ‘ مولانا عبدالغنی جاجروی ‘ مولانا خورشید احمد فیضی ‘ خواجہ محمد یار فریدی ‘ خواجہ دُر محمد کوریجہ ‘ حضرت جیٹھہ بھٹہ سرکارؒ ‘ حضرت شیخ عبدالستار ‘ حضرت بابا رنگیلا شاہ ‘ مغل بادشاہ کے مشیر بیربل۔ اسی طرح دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشاہیر کوخان پور کی ماں دھرتی نے جنم دیا ۔ اسی طرح خان پور کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلا اخبار ڈٖینھ وار ’’جھوک‘‘ سرائیکی شروع ہوا ۔ اخبار کے مدیران نے سرائیکی زبان ‘ ادب اور سرائیکی تحریک کیلئے جس طرح اپنا تن من دھن حتیٰ کہ اپنی زندگی تک وقف کر کے جو قربانی دی ہے وہ محتاج تعارف نہیں‘ اسی طرح دوسرا سرائیکی اخبار ’’ڈٖینھ وار ’’سجاک‘‘ جس شخصیت نے شروع کیا ان کا نام ارشاد امین ہے اور ان کا تعلق بھی خان پور کے قصبے چاچڑاں شریف سے ہے ۔ خان پور پہلے ضلع تھا اور خان پور کو انگریزوں نے ریلوے کا سب سے بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا گیا اور خان پور چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر بہت بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا تھا مگر سیاسی مصلحتوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور خان پور کو ضلع سے تحصیل بنا دیا گیا۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: